تازہ ترین

حیات فاروقی کی حسین جھلکیاں (چوتھا اور آخری حصہ)

hayat e farooqui ki haseen jhalkiyan part 4
  • واضح رہے
  • مئی 25, 2021
  • 9:55 شام

آیئے! آخر میں خلیفہ ثانی سیدنا فاروق اعظمؓ کی پیدائش سے کر شہادت تک کی قابل رشک زندگی پر روشنی ڈالتے ہیں

حضرت عمرؓ نے ۱ /ہجری میں حضور اکرمؐ کے حکم پر ہجرت فرمائی اور ۲ھ میں غزوہ بدر میں شریک ہوئے اور اسلام کیلئے اپنے ماموں عاص بن ہشام کو اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔ اس لئے کہ دین و ایمان کے معاملے میں کسی رشتہ داری اور تعلق کی قطعاً پرواہ نہ کرتے تھے۔

۳ھ میں غزوۂ احد میں نہ صرف شریک ہوئے بلکہ ثابت قدم بھی رہے اور غیرت ایمانی سے مغلوب ہوکر ابو سفیانؓ (جو اس وقت ایمان نہ لائے تھے) کو سخت جواب بھی دیا اور ۴ھ میں غزوۂ بنو نضیر میں بھی پیش پیش رہے۔

5ھ میں غزوہ خندق ہوا تو اس میں ایک چوکی پر متعین ہوئے اور دشمنوں کے مقابلے پر ڈٹے رہے اور ۶ھ میں صلح حدیبیہ میں شریک ہوکر جذبہ حق پرستی کا ثبوت دیا۔

۷ھ میں مشہور زمانہ جنگ خیبر ہوئی اس میں سپہ سالار بنائے گئے، اپنی جاگیر وقف کی اور بنو ہوازن کی مہم سر کی۔

۸ھ میں فتح مکہ کے موقع پر حضورؐ نے آپؓ کو خواتین سے بیعت کیلئے مقرر کیا، جنگ حنین میں بھی آپؓ نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا۔

۹ھ میں غزوہ تبوک میں اپنا آدھا مال پیش کیا اور خود بھی شریک ہوئے۔

۱۰ھ حجۃ الوداع میں بھی محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ شریک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: حیات فاروقی کی حسین جھلکیاں (تیسرا حصہ)

۱۱ھ میں امت کا دہلا دینے والا صدمہ پیش آیا، یعنی حضورؐ رحلت فرما گئے تو ابتداء شدت غم سے حضرت عمرؓ بھی سنبھل نہ سکے اور پھر سیدنا صدیق اکبرؓ کے ہاتھ پر سب سے پہلے بیعت کی۔

۱۳ھ میں خلیفہ اوّل حضرت ابو بکر صدیقؓ کے دست راست اور مشیر خصوصی رہے۔

۱۳ھ میں خلیفہ منتخب ہوئے اور سیدنا خالد بن ولیدؓ کو معزول کرکے سیدنا ابو عبیدہ بن جراحؓ کو فتوحات شام کا سپہ سالار اعظم بنایا اور حضرت ابو عبید ثقفی کو عراق میں سپہ سالار بنایا، نمارق و سقاطیہ کی لڑائی، جسر کا حادثہ اور اجنادین کی فتح ہوئی، بُرس کے رئیس نے نہ صرف صلح کی بلکہ اسلامی فوج کیلئے پل تعمیر کرائے اور یرموک میں بھی فتح ہوئی۔

۱۶ھ میں جلولاء کی جنگ اور فتح ہوئی اور اسی طرح بیت المقدس بھی فتح ہوا۔

۱۷ھ میں رومیوں نے دوبارہ حمص کو حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی اور جزیرہ (دریائے دجلہ کا شمالی علاقہ) فتح ہوا۔ اور حضرت ام کلثوم بنت علی بن ابی طالب سے 40 ہزار مہر پر آپؓ کا نکاح ہوا۔

۲۰ھ میں مصر فتح ہوا، اسی طرح ۲۱ھ میں اسکندریہ فتح ہوا۔ حضرت عمرؓ نے عام لشکر کشی کی اجازت دی تاکہ پورا ایران فتح ہوسکے۔

۲۲ھ میں آذربائیجان، طبرستان اور آرمینیا جیسے علاقے فتح ہوئے۔

۲۳ھ میں کرمان، سیستان، مکران اور خراسان فتح ہوئے، یزدگر ترستان چلا گیا اور یکم محرم ۲۴ھ حضرت عمرؓ جام شہادت نوش فرما گئے۔

واقعہ شہادت

ابن شہاب سے مروی ہے: حضرت عمرؓ کا معمول تھا کہ قیدیوں میں سے جو بالغ ہو جائے اسے مدینہ میں رہنے کی اجازت نہیں دیتے تھے، کوفہ کے عامل حضرت مغیرہ بن شعبہؓ نے حضرت عمرؓ کے نام خط میں اپنے ایک غلام کا تذکرہ کیا کہ وہ لوگوں کے فائدے کے بہت سے کام جانتا ہے، مثلاً وہ لوہار ہے، بڑھئی ہے، نقاش ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسے مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی جائے۔ آپؓ نے اجازت دے دی۔

یہ بھی پڑھیں: حیات فاروقی کی حسین جھلکیاں (دوسرا حصہ)

حضرت مغیرہؓ نے اس غلام پر سو درہم ماہوار مقرر کردیئے، ایک دن وہ غلام حضرت عمرؓ کے پاس خراج کی شدت کی شکایت کرنے آیا تو آپؓ نے دریافت کیا: تو کون کون سے کام اچھی طرح جانتا ہے؟ اس نے وہ سب کام بیان کئے جو اچھی طرح آتے تھے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: تیرے کام کی نوعیت کے لحاظ سے تو تیرا خراج زیادہ نہیں ہے، وہ ناراض ہوکر بڑبڑاتا ہوا واپس ہوا۔

پھر ایک دن وہ غلام حضرت عمرؓ کے پاس سے گزرا، آپ نے اس کو بلاکر دریافت فرمایا: کیا مجھ سے یہ بیان کیا گیا کہ تو کہتا ہے میں اگر چاہوں تو ایسی چکی بنا دوں جو ہوا سے چلے؟ غلام نے کہا: میں آپ کیلئے ضرور ایسی چکی بناؤں گا جس کو لوگ بیان کیا کریں گے۔ غلام نے پشت پھیری تو حضرت عمرؓ اس جماعت کی طرف متوجہ ہوئے جو ان کے ہمراہ تھی اور فرمایا: غلام نے ابھی مجھے قتل کی دھمکی دی۔

چند راتیں گزریں، ابو لؤلؤ (غلام) نے ایک خنجر اپنے ساتھ لیا جس کے دو سِرے تھے اور دھار بیچ میں تھی، صبح کی تاریکی میں مسجد کے کسی گوشے میں چھپ کر بیٹھ گیا، حضرت عمرؓ مسجد میں داخل ہوئے، جب صفیں درست ہو چکیں اور حضرت عمرؓ نے نماز شروع کی تو ابو لؤلؤ فیروز نے دفعتہً گھات میں سے نکل کر تین یا چھ وار کئے، جن میں ایک ناف کے نیچے لگا۔

حضرت عمرؓ نے فوراً حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا (سب سے چھوٹی دو سورتیں پڑھیں) اور ساتھ ہی سیلان خون کے غلبہ کی وجہ سے غشی طاری ہوگئی، دوسری طرف کافر نے دائیں بائیں خنجر کے وار کرتے ہوئے بارہ یا تیرہ نمازیوں کو زخمی کردیا، جن میں سے چھ یا نو شہید ہوگئے۔

ایک مسلمان نے جب یہ منظر دیکھا تو ایک چادر میں اس کو پھانس لیا تاکہ اسے گرفتار کریں، جب ابو لؤلؤ کافر کو یقین ہوگیا کہ وہ گرفتار ہو جائے گا تو اس نے اپنے بھی خنجر گھونپ کر خودکشی کرلی۔

یہ بھی پڑھیں: حیات فاروقی کی حسین جھلکیاں (پہلا حصہ)

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں: میں نے ایک جماعت کے ساتھ حضرت عمرؓ کو اٹھا کر ان کے مکان پر پہنچایا، جب صبح کی روشنی پھیل گئی تو وہ غشی کی کیفیت سے باہر آئے، ہمارے چہروں پر نظر کی اور فرمایا: لوگوں نے نماز پڑھ لی؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ پھر فرمایا: اس کا اسلام نہیں جس نے نماز ترک کردی، وضو کا پانی منگوا کر وضو کیا اور نماز ادا کی۔

نماز پڑھنے کے بعد فرمایا: اے عبداللہ بن عباس: مجھ پر کس نے قاتلانہ حملہ کیا؟ لوگوں کے مجمع نے بتایا: مغیرہ بن شعبہ کے غلام ابو لؤلؤ نے خنجر مارا۔ آپ کے علاوہ ایک جماعت کو بھی خنجر مارا، پھر خودکشی کرلی۔

فرمایا: سب تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں جس نے میرا قاتل ایسے شخص کو نہیں بنایا جو اللہ کے سامنے اس سجدے کی بناء پر مجھ سے حجت کرے جو کبھی اس نے کیا ہو، عرب ایسے نہیں جو مجھے قتل کرتے۔

سیدنا عمرؓ پر ۲۶ ذی الحجہ ۲۳ ہجری کو قاتلانہ حملہ ہوا، اور یکم محرم ۲۴ ہجری کو تدفین ہوئی، نمازِ جنازہ حضرت صہیبؓ نے پڑھائی۔ حضرت علیؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت طلحہ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے قبر میں اتارا، اور وہ آفتاب عالم تاب خاک میں چھپ گیا۔۔۔۔۔  انا للہ و انا الیہ راجعون

(طبقات ابن سعد، الفاروق)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے