تازہ ترین

نئی حکومت کو درپیش بڑے چیلنجز

naye hukumat ko dar paish naye challenges
  • rahilarehman
  • فروری 22, 2024
  • 8:22 شام

سیاسی عدم استحکام، بدحال معیشت ، دہشت گردی ، توانائی کا بحران، مہنگائی اور بے وزگاری کے چیلنجز منہ کھولے کھڑے ہیں-

کسی بھی ملک کے استحکام کے لیے جمہوریت کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا،کوئی بھی ملک اس وقت تک معاشی طور پر ترقی نہیں کر سکتا جب تک اس کا سیاسی نظام مستحکم نہ ہو۔سیاسی استحکام معاشی پالیسی کے تسلسل کو یقینی بناتا ہے،اس کے نتیجے میں، سرمایہ کاروں کے اعتماد اور تمام اقتصادی شعبوں کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے، جمہوری نظام کے استحکام کے لیے جو چیلنجز موجود ہیں، اُن سے عہدہ برآ ہونے کی ابتدائی اور بنیادی ذمے داری سیاسی قیادت ہی کی ہے ۔جمہوری حق کی آڑ لے کر قومی شاہراہیں بلاک کرنا،قومی و نجی املاک کو نذر آتش کرنا یا توڑ پھوڑ کرنا، گھیراﺅجلاﺅکی یہ سیاست ملک میں انارکی اور لاقانونیت کا باعث تو بن سکتی ہے لیکن اس کے بطن سے استحکام پیدا نہیں ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں عام انتخابات جیسے تیسے بھی ہوئے، اب ہوگئے ہیں۔ حتمی سرکاری نتائج کے اعلان کے بعد مرکز میں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت بن چکی ہے ۔ملک کا فہمیدہ حلقہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ نئی حکومت کے لیے بڑے چیلنجز کون کون سے ہیں۔ اس حوالے سے کسی کو کوئی ابہام نہیں ہے۔عوام شدت سے چاہتے ہیں کہ نئی حکومت جلد از جلد اپنا کام شروع کرے تاکہ بے یقینی کا خاتمہ ہوجائے، آج پاکستان اور پاکستانیوں کا بنیادی سوال سماجی انصاف، تبدیلی، ترقی اور خوش حالی کے اہداف کے حصول کا ہے۔ملک میں دس کروڑ سے زاد لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، تین کروڑ بچے اسکولوں سے باہر ہیں، بدعنوانی بڑھ رہی ہے۔ بیرونی قرضے کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ایسے میں بے یقینی اور بے سمتی انتہائی نقصان دہ ہوسکتی ہے۔دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی مسائل کے ضمن میں ملک غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی وجہ سے پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور اس کی سسٹر آرگنائزیشنز مختلف ناموں کے ساتھ دہشت گردی کی وارداتیں کررہی ہے، مذہب اور قوم پرستی کے نام پر مسلح تنظیمیں ایک دوسرے کے راستے منسلک ہوکر کارروائیاں کررہی ہیں۔ مختلف عسکریت پسند گروہوں کا اتحاد،سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہا ہے۔نئی حکومت پر لازم ہوگا کہ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو ذمے دارانہ طریقے سے چلائے،وہ دنیا کو باور کرائے کہ پاکستان ایسا ملک ہے جو نہ صرف اپنے ہاں امن چاہتا ہے بلکہ خطے میں بھی، اور خاص طور پر افغانستان میں مثبت کردار اداکر سکتا ہے اوراس حوالے سے ماضہ میں کردار ادا کیا بھی ہے۔حقیقت میں خطرات کا دائرہ خطے کے اورعالمی حالات کے سیاق وسباق میں کثیر جہتی اندیشوں سے عبارت ہے۔

پاکستان کی معیشت کا ایک کمزور پہلو عام لوگوں پر بڑھتے ہوئے معاشی بوجھ سے متعلق ہے۔ مہنگائی، یوٹیلیٹیز اور روزمرہ کی گھریلو استعمال کی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے نے عام آدمی کوایسے بحران میں دھکیل دیا ہے جس پر حکومتی ترجیحات میں زبردست تبدیلیوں کے بغیر قابو نہیں پایا جا سکتا۔سیاسی اور سماجی پہلوو ¿ں کے ساتھ ایک اور معاشی مسئلہ انسانی فلاح و بہبود کو شدید طور پر نظر انداز کرنا ہے۔نظر اندازکیے گئے شعبے،جو عام لوگوں کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچاتے ہیں، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور ٹرانسپورٹ کے ہیں۔ روایتی طور پر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم پر بہت کم وسائل خرچ کرتی ہیں۔ سرکاری اسپتالوں میں بھیڑ ہے اور وہ عام لوگوں کو ناکافی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔محض معیشت کو سنبھالا دینا اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنا ہی بڑا چیلنج نہیں ہے بلکہ ملک کے اندر جو قوتیں انتشار اور گھیراﺅجلاﺅ کر کے ریاستی سسٹم کو مفلوج کرنا چاہتی ہیں، ان کی ہینڈلنگ بھی نئی حکومت کے لیے بڑا چیلنج ہے۔ اس کے علاوہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں، فنانسرز اور ماسٹرمائنڈز کا مقابلہ کرنا بھی نئی حکومت کے لیے بہت بڑا چیلنج ہو گا۔نئی حکومت خارجہ امور کو کس حکمت عملی سے ہینڈل کرتی ہے، یہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔

پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ کیا حکمت عملی اختیار کرتا ہے، نئی حکومت خودفریبی پر مبنی مائنڈسیٹ کو ترک کر کے زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر ایک ریشنل خارجہ اور داخلہ پالیسی ترتیب دے پاتی ہے یا نہیں، یہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔پاکستان کی معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ اس میں اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے قرضے شامل ہیں۔ پاکستان کی زراعت اور صنعت کی ترقی کا عمل انتہائی سست رفتار ہے۔ کئی بڑی صنعتیں حکومتی سبسڈی پر چل رہی ہیں۔جب نگران حکومت آئی تھی تو یہ سوچ پروان چڑھی کہ اب وہ فیصلے کیے جائیں گے جو ملک اور معیشت کے لیے درست ہوں گے، اس عرصے کے دوران سخت فیصلے بھی کیے گئے ہیں جن کی وجہ سے آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات بہتر ہوئے اور ملک ڈیفالٹ سے بچ گیا۔ گو ابھی مشکلات بہت زیادہ ہیں۔یہ بات بھی ذہن نشین رہنی چاہیے کہ اگر سیاست کی سمت درست نہیں ہو گی تو ملک کا معاشی پہیہ جمود کا شکار ہو گا۔ ایک عام پاکستانی کو اب اپنے ہی ملک میں اپنا مستقبل محفوظ نظر نہیں آتا۔ قانونی اور غیر قانونی ہر طرح کے راستے سے لوگ باہر جانے کی کوشش میں ہیں۔ملک میں مہنگائی کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ حالیہ دنوں میں ہی بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں روز بروز اضافے نے سفید پوش طبقے کی قوت خرید میں زبردست کمی آئی ہے۔ چھوٹے کاروبار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔

جو بھی نئی حکومت آتی ہے اس کا ایک ہی نعرہ ہوتا ہے، اب پاکستان کی معیشت مستحکم ہوگی، مہنگائی پر کنٹرول کیا جائے گا لیکن عملی طور پر کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ معیشت سنبھالنے کے جو بھی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں، اس سے عوام پر معاشی بوجھ میں اضافہ ہوا۔ گوشت اور چاول جیسی ضروری اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کئی بار دگنے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ بہت سے لوگوں کے لیے پریشانی کا باعث بنا ہے۔آج پاکستان کا بچہ بچہ قرض کے بوجھ تلے دب چکا ہے، بلکہ آنے والی نسلیں بھی قرض میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ڈالرز کی کمی کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں کا توازن منفی ہونے، روپے کی قدر کو مستحکم نہ رکھ پانے اور بنیادی شرح سود کو موجودہ صدی کی بلند ترین سطح پر لے جانے کی وجہ سے معیشت میں عدم استحکام رہا اور نگران حکومت کڑی تنقید کی زد میں رہی۔ افراطِ زر میں تیزی سے اضافے سے ملکی معیشت کا ہر شعبہ، صنعت، تجارت اور خدمات سب متاثر ہوئے اور معاشی ترقی کی شرح یعنی مقامی پیداوار (جی ڈی پی) منفی زون میں چلی گئی۔آئی ایم ایف کا اسٹینڈ بائی پروگرام تین اقساط پر مشتمل ہے ، تیسری قسط انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو ملے گی مگر ملکی معیشت اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ پاکستان کو ایک طویل مدتی اور زیادہ گہرے اصلاحات کے منصوبے کے ساتھ آئی ایم ایف سے قرض کا پروگرام بھی لینا ہوگا۔ آئی ایم ایف پاکستان کو 23 سے زائد پروگرام دے چکا ہے اور اس کے باوجود پاکستانی معیشت اپنے پاو ¿ں پر کھڑی نہیں ہوسکی ہے۔ اس لیے اب آئی ایم ایف پاکستان کو معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کی سفارش پر بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا تو آئی ایم ایف نے شرائط پوری ہونے کے بعد مزید شرائط عائد کردی ہیں۔ آئی ایم ایف نے سرکاری کاروباری اداروں جیسا کہ پی آئی اے اسٹیل ملز اور دیگر کی نجکاری، رئیل اسٹیٹ اور زراعت پر ٹیکس عائد کرنے اور دیگر اصلاحات کرنے کی شرط بھی عائد کردی ہے۔

قرضوں، تجارتی خسارے اور افراط زر کے اردگرد مرکوز رکاوٹوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں ادائیگیوں کے توازن کا جو بحران دکھائی دے رہا ہے وہ دراصل حکمرانی کا بحران ہے۔یکے بعد دیگرے آنے والی حکومتیں ہنر مند، صحت مند اور تعلیم یافتہ افرادی قوت تیار کرنے میں درکار سرمایہ کاری کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ اس کے بجائے انھوں نے طاقتور گروہوں کی حمایت جاری رکھی، اپنے ذاتی مفادات کو تقویت دی اور اس بات کو یقینی بنایا کہ ٹیکس دہندگان کے ایما پر مشکوک لابیاں پھلتی پھولتی رہیں۔موجودہ بحرانوں کا تریاق سب کو معلوم ہے۔مسئلہ ذاتی اور گروہی مفادات کے بجائے عوام کے مفادات کو ترجیح دینے کا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے لیے نظریاتی اور عملی میدان میں واضح اور دوٹوک نکتہ نظر اپنا کر آگے بڑھنا انتہائی ضروری ہے۔ گومگو، مبہم اور کنفیوژنظریات کے ساتھ کوئی بھی حکومت پاکستان کو بحران سے باہر نہیں نکال سکتی۔ ریاست کے نظام کو چلانے اور عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے کے لیے ریاست اور حکومت کاروبار اور سرمایہ کاری بھی کرتی ہے۔ ایجوکیشن، ہیلتھ اور ٹرانسپورٹ ایسے شعبے ہیں جہاں حکومت کو لازمی طور پر کاروباری کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔حکومتیں سرکاری اسپتالوں، خاص طور پر ضلع اور تحصیل کی سطح کے اسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے کی منصوبہ بندی کرے۔ اسی طرح ریاستی تعلیمی ادارے فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں ایک مربوط پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کا فقدان ہے جو شہر کے بیش تر حصوں کو آپس میں جوڑتا ہو ۔یہی وجہ ہے کہ سڑکوں پر نجی گاڑیوں اور موٹر سائیکلز کی بھرمار ہے۔پاکستان میں سماجی و اقتصادی عدم مساوات عروج پر ہے۔ آبادی کے امیر طبقوں اور غریب اکثریت کے درمیان فرق وقت کے ساتھ بڑھتا جارہا ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ایک جانب عالی شان بنگلوں،کوٹھیوں، گاڑیوں ،پوش شاپنگ ایریاز اور مہنگے ریستورانوں کی تعدادبڑھ رہی ہے تو دوسری جانب غربت و افلاس کا گہرا کنواں ہے۔ریاست کے انسانی بہبود کے پروگرام ناکافی ہیں۔ صدقات کی تقسیم عارضی حل ہے۔ غریب عوام کے لیے مستقل آمدن کے ذرایع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کو درپیش اہم چیلنجز میں سے ایک توانائی کا بحران ہے۔ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ نے صنعتی پیداوار کو متاثر کیا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار کو سست کر دیا ہے۔ یوں ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔بے روزگاری کی بلند سطح اور کم روزگارکے مواقعے اقتصادی ترقی کی راہ میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ، روزگار کی منڈی ملازمت کے متلاشی نوجوانوں کی آمد کو جذب کرنے سے قاصر ہے۔ ہنر مندی کی نشوونما کا فقدان اور معیاری تعلیم تک محدود رسائی اس مسئلے کو مزید بڑھا دیتی ہے۔دوسری جانب ملک میں فصلوں کی پیداوار، اناج کی غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت کم ہو رہی ہے۔ زمین، سیم اور تھورکا شکار ہو رہی ہے اور زمین کا کٹاو ¿ بڑھ رہا ہے۔موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کاشت کے اوقات اور نشوونما کے مراحل کے حساب سے مختلف فصلوں پر مختلف ہوتے ہیں۔زراعت میں استعمال ہونے والے زہریلے اسپرے ایک اور مصیبت ہیں۔جنگلات کو آگ لگانے سے فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے جنگلی حیات پر بھی اثر پڑ رہا ہے، جنگلی جانوروں کی تعداد کم ہو رہی ہے اور کافی حد تک ان کی نسلیں ختم ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ آکسیجن کی کمی اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادتی کا باعث بن رہا ہے۔جنگلات کی کمی سیلاب کا باعث بنتی ہے، کیوں کہ درخت زمین پر کیل کی مانند ہیں۔ پاکستان خطے میں کم جنگلات والے ممالک میں شامل ہے جس کا صرف چار فی صد جنگلات پر مشتمل ہے۔جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم عالمی فنڈ،ڈبلیو ڈبلیو ایف، نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل کیا ہے جہاں جنگلات میں کمی ہو رہی ہے، یعنی جنگلات پورے ملک کے رقبے کے چھ فی صد سے بھی کم ہیں۔ٹمبر مافیامقامی پولیس کے ساتھ مل کر بے خوف وخطرکام کر رہا ہے جس کیوجہ سے وسیع پیمانے پر جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ نئی حکومت کو ماحولیاتی وفضائی آلودگی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بچاو ¿ کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے ہوں گے۔پاکستان کے مالیاتی خسارے اور بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں نے اس کے اقتصادی استحکام کو متاثر کیا ہے۔بجٹ کا بہت بڑا حصہ قرضوں کی ادائیگی کے لیے مختص کیاجاتاہے، جس سے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے جیسے اہم شعبوں کے لیے کم وسائل رہ جاتے ہیں۔ عوامی فنڈز کی بدانتظامی اور بدعنوانی نے چیلنجز کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی سہولتوں سمیت ناکافی انفرا اسٹرکچر، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور بین الاقوامی تجارت میں مشغول ہونے کی ملک کی صلاحیت کو روکتا ہے۔بنیادی ڈھانچے کی ترقی میں ناکافی سرمایہ کاری بھی گھریلو رابطوں اور اقتصادی سرگرمیوں میں رکاوٹ ہے۔توانائی کے بحران سے نمٹنے کے لیے توانائی کے بنیادی ڈھانچے میں قابل ذکر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے، بہ شمول قابل تجدید توانائی کے ذرایع، جیسے شمسی اور ہوا سے حاصل کی جانے والی توانائی کے۔ توانائی کے آمیزے کو متنوع بنانا اور توانائی کی کارکردگی کو فروغ دینا صنعتی ترقی کو متحرک کرتے ہوئے زیادہ قابل اعتماد اور پائے دار توانائی کی فراہمی کا باعث بن سکتا ہے۔

تعلیم اور ہنر کی ترقی کو ترجیح دینا بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ٹیکس جمع کرنیکا موثر طریقہ کار نافذ کرنا، فضول خرچی کو کم کرنا اور بدعنوانی کا مقابلہ کرنا معیشت کو مستحکم کرنے اور ضروری شعبوں کے لیے وسائل پیدا کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی قوم اپنی موجودہ مشکلات سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ حرف آخر کے طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے سماجی ومادی حقائق اس امر کے متقاضی ہیں کہ یہاں شہریوں ، ریاست اور وحدتوں اور مرکز کے درمیان ایسا قابل عمل اور دیر پا بندوبست طے کیا جائے جو انصاف اور باہمی اعتماد کے کلچر کوفروغ دے سکے۔

بلاشبہ نئی حکومت کو اس جانب بھرپور توجہ دینی ہو گی اور معیشت کے بنیادی اصول پر عمل پیرا ہو کر مثبت نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں مڈل کلاس کا حجم بڑھانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ ان صوبوں کے عوام پرانے نظام پر قابض طاقتور طبقے کی گرفت سے آزادی حاصل کر سکیں۔پاکستان میں پاپولر سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بھی خوداحتسابی کے عمل سے گزرنا ہو گا۔ یہ حقیقت تسلیم کرنی ہو گی کہ پاپولر سیاسی جماعتیں انتہاپسندی کے حوالے سے سنجیدہ حکمت عملی نہیں بنا سکے۔مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت تھی، پاپولر جماعتوں کی قیادت نے اس بارے میں لاتعلقی اور بیگانگی کے رویے کا مظاہرہ کیا ہے، سیاسی قیادت کی ترجیحات میں انتہاپسندی اور دہشت گردی انتہائی نچلی سطح پر رہی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انتہاپسندی ایک وباءکی طرح تعلیمی اداروں سے لے کر سرکاری اداروں تک میں پھیل گئی۔ یوں پاکستان کا پورا ریاستی ڈھانچہ جدت پسندی سے محروم ہو گیا۔اس کے اثرات پورے معاشرے پر مرتب ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا پاکستان ایسے بھنور میں پھنسا ہوا ہے جہاں سے بحفاظت نکلنا ایک معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ کسی سیاسی جماعت میں مختلف ایشوز پر اپنے تھنک ٹینکس بنانے کا کلچر نہیں ہے۔مسلم لیگ (ن) ہو، پیپلزپارٹی ہو یا تحریک انصاف، ان پارٹیوں کی قیادت نے معیشت، سیاست اور معاشرت کی مبادیات کو جاننے اور پرکھنے کے لیے کوئی تھنک ٹینک نہیں بنایا۔ حالانکہ امریکا میں ریپبلکن پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی کے اپنے تھنک ٹینک ہیں جو اپنی پارٹی کی حکومت کا کام آسان بنانے کے لیے ان کی مدد کرتے ہیں۔بھارت میں انڈین نیشنل کانگریس اور بی جے پی جیسی بڑی پارٹیوں کے بھی اپنے تھنک ٹینک ہیں۔ پاکستان کی پاپولر جماعتوں کی قیادت نے اس جانب کبھی کام نہیں کیا۔ یہ جمہوریت کی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کی ناکامی ہے۔ اچھی معاشیات کے بطن سے اچھی سیاست جنم لیتی ہے، اسی طرح اچھی سیاست سے اچھی معاشیات جنم لے گی۔ اسی کی بنیاد پر جمہوریت پروان چڑھے گی اور ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی قائم ہو گی۔ لیکن پاکستان کی پاپولر سیاسی جماعتوں نے کبھی اس کی فکر نہیں کی۔

نو منتخب اتحادی حکومت کو سب سے پہلے میثاق معیشت کے لیے پیشرفت کرنی چاہیے، مہنگائی اور بیروزگاری کے خاتمے کے لیے معیشت کو پاو ¿ں پرکھڑا کرنا ہوگا، سیاسی جماعتیں اس وقت اپنے مفادات کو پس پشت ڈال کر ملک و قوم کے مفادات کو پیش نظر رکھ کر آگے بڑھیں تو غریب عوام کو ریلیف مل سکتا ہے اور ملک ترقی وخوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔

راحیلہ رحمن

کراچی سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی ہیں۔جو پہلے راحیلہ ممتاز کے نام سے اخبار وطن ، غازی اور تکبیر میگزین سمیت ملک کے مختلف اخبارات میں سپورٹس ،قومی اور بین الاقوامی امور، حالات حاضرہ اور سماجی مسائل سمیت عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف موضوعات پر لکھتی تھیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتی تھیں۔اب انہوں نے راحیلہ رحمن کے نام سے لکھنا شروع کیا ہے۔

راحیلہ رحمن