تازہ ترین

کشمیراورفلسطین میں قتل عام جاری

Kashmir or Palestine mai qatal-e-aam jari
  • محمد قیصر چوہان
  • جنوری 26, 2024
  • 6:55 شام

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام نے لاکھوں جانیں قربان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں اسی طرح آزاد کشمیرکبھی بھارت میں شامل نہیں ہونگے۔

کشمیراورفلسطین کے عوام گزشتہ پچھتر برس سے ظلم کا سامنا کر رہے ہیں اور دونوں کی تقدیر اقوام متحدہ کی قراردادوں میں ا ±لجھی پڑی ہیں۔ بیتی سات دہائیوں میں اگرکشمیر کو پانچ حصوں میں بانٹا گیا تو فلسطین کو جنوب شمال میں تقسیم کے بعد سات لاکھ سے زائد خاندانوں کو ہجرت پر مجبورکردیا گیا۔اس وقت جو آبادی بچی ہوئی ہے اس پر ظالم صیہونی افواج بم برسا رہی ہے، اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کو شروع ہوئے 90 روز سے زائد دن بیت گئے ہیں۔اس دوران قابض اسرائیلی فوج نے 1880 حملے کیے ان حملوں کے نتیجے میں شہید ہونے والے اور لاپتا فلسطینیوں کی تعداد 30 ہزار کے قریب ہے، شہداءمیں 10 ہزار کے لگ بھگ بچے اور 7ہزار کے قریب خواتین شامل ہیں ساڑھے 6 سو کے قریب ڈاکٹرز اور میڈیکل ورکرز، سول ڈیفنس کے 42 ارکان اور 106 صحافی بھی اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہوئے ہیں۔،اسرائیلی حملوں میں 60 ہزار افراد زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اسرائیل کے حملوں نے غزہ کو ناقابل رہائش بنا دیا ہے۔انسانی برادری کو 20 لاکھ سے زائد لوگوں کی مدد ناممکن لگ رہی ہے۔

ارض فلسطین کے ساتھ ساتھ ارض کشمیر بھی لہولہان ہے، یہاں ہر روز معصوم کشمیری نوجوانوں کو قتل کیا جاتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت ارض فلسطین میں صہیونی پالیسی پر گامزن ہے۔ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں جعلی مقابلوں میں ماورائے عدالت قتل عام کے ذریعے کشمیری عوام کی نسل کشی میں مصروف عمل ہے۔ظالمانہ قوانین کی آڑ میں بھارتی فوجی روزانہ کی بنیاد پر معصوم کشمیریوں کو بے دردی سے قتل، گرفتار اور تشدد و تذلیل کا نشانہ بنا رہے ہیں،پانچ اگست 2019میں غیر قانونی اقدامات کے بعد بھارت نے ماورائے عدالت قتل عام کے ذریعے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو تبدیل کرنے کے عمل میں تیزی لائی ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں روزانہ قتل، من مانی گرفتاریاں اور جائیداد و املاک ضبط کرنے کا مقصد آزادی پسند کشمیری عوام کو دہشت زدہ اور تحریک آزادی کشمیر سے دستبردار کرانا ہے۔مسئلہ کشمیر دنیا کے دیرینہ تنازعات میں سے ایک ہے۔پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی کی وجہ سے ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ لگی ہے، مسئلے کے بنیادی فریق ریاستی عوام بنیادی حقوق سے محروم، منقسم اور ریاستی جبرکا شکار ہیں۔اس پورے خطے میں امن کی بحالی اور ترقی کے لیے اس تنازع کا حل ناگزیر ہے۔ برصغیر کے با شعور لوگوں کا یہ فرض ہے کہ نہ صرف ریاستی عوام کے لیے بلکہ اپنی تعلیم، صحت، روزگار، معاشی میدان میں ترقی اور جمہوری حقوق کے لیے مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر زور دیں۔دہشت گردی اور مقروض معیشت کے پیچھے بنیادی وجہ ہندوستان اور پاکستان کے خراب تعلقات ہیں جن کی جڑ مسئلہ کشمیر ہے۔75 سال سے اس بنیادی مسئلے کے حل میں پیشرفت نہ ہونے کی وجہ یہ ہے ہندوستان ریاست جموں و کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے ۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی محض کاغذ کا ٹکڑا ثابت ہوئی ہیں کیونکہ وہاں عالمی طاقتیں حاوی ہیں اور وہ اپنے مفادات کے مطابق ہی اقوام متحدہ کو استعمال کرتی ہیں۔ اس مسئلہ کو بھارت کی نظر سے دیکھنے سے یہ کبھی حل نہیں ہو گا۔ مسئلہ کشمیر تب ہی حل ہو سکتا ہے جب ریاستی عوام کو بنیادی فریق تسلیم کر کے ان کی امنگوں کے مطابق اس کا حل تلاش کیا جائے۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند عوام نے لاکھوں جانیں قربان کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ کسی صورت بھارت کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں اسی طرح آزاد کشمیرکبھی بھارت میں شامل نہیں ہونگے۔ دوسری طرف ایسی کوئی طاقت موجود نہیں جو بھارت کو ریاست پر سے اپنا قبضہ ختم کرنے پر مجبور کرے۔کشمیری عوام، پاکستان اور بھارت سب کے لیے اس مسئلے کا حل ہو جانا ضروری ہے اور اس کا واحد ممکنہ اور منصفانہ حل کشمیریوں کا حق خود ارادیت ہے۔ تقسیم سے بچاو ¿ کا واحد راستہ یہی ہے۔ کشمیریوں کی بیرون ملک مقیم ایک بہت بڑی تعداد آزادی کشمیر کے لیے کوشش کر رہی ہے۔ حق خودارادیت کو اقوام متحدہ بنیادی حق تسلیم کر چکی ہے اور موجودہ وقتوں میں کئی چھوٹے چھوٹے ملکوں نے اس حق کو اپنی خودمختاری کے لیے کامیابی سے استعمال کیا ہے۔ ہندوستان کے کروڑوں غریبوں کی دشمن ان کے ملک کی استحصالی اشرافیہ ہے اور مسئلہ کشمیر کو محض اس استحصال کو طوالت دینے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب مسئلہ فلسطین 1948 میں اسرائیل کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی یہ تنازعہ وجود میں آیا تھا۔ اسرائیل کی بنیاد رکھنے والوں کے درمیان یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ فلسطینی اپنے گھروں کو واپس آّئیں گے، انھیں اپنی جگہوں پر لوٹنے کا حق ہو گا لیکن اس کے تناظر میں فلسطینی اپنی سر زمین پر واپس نہیں آسکے۔

عالمی جنگ میں عرب ممالک سلطنت عثمانیہ کے خلاف برطانوی اتحاد کی حمایت پر اس شرط پر شامل ہوئے کہ جنگ میں جیت کی صورت میں انھیں آزادی دے دی جائے گی، مگر جنگ کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں تیل کے ذخائر پر نظر رکھنے والی طاقتوں نے خطے کو اپنی مرضی کے مطابق بانٹنا شروع کردیا اور نئی سرحدی تقسیم کی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد فلسطین کے علاقے کو تقسیم کر کے یہاں یہودی مملکت کی بنیاد رکھی گئی اور کئی وعدوں کے سائے میں فلسطینیوں کو وہاں سے بے دخل کردیا گیا۔مشرقی یروشلم جو جھگڑے کی بنیاد تھی اس پر طے ہوا تھا کہ مسجد اقصیٰ مشرقی یروشلم میں ہی رہے گی اور طے کیا جائے گا کہ یہ علاقہ اسرائیلی کنٹرول میں رہے گا یا آزاد رہے گا۔ اس دوران کئی تبدیلیاں ہوئیں جس سے فلسطینیوں کو ان کا حق نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے وہ چھاپہ مار جنگ پر اتر آئے۔مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان میں ریفرنڈم، اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ہوگیا جبکہ دیوار برلن کی ٹوٹ پھوٹ میں دلچسپی اور دیوار برہمن کے دوام کے لیے حیلے بہانے تراشے گئے، تیل کے کنوو ¿ں کے لیے طاقت اور انسانی خون کے لیے مصلحت اپنائی گئی۔اقوام متحدہ کے چارٹر کی منظوری دیتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا گیا تھا کہ اب دنیا کو جنگوں کی بھینٹ نہیں چڑھنے دیا جائے گا اورکسی کو یہ حق نہیں پہنچتاکہ وہ لاٹھی کی بنیاد پر دوسروں کے حق کو تلف کرے، لیکن اقوام متحدہ کے دہرے معیار نے اس ادارے کی ساکھ کے آگے ایک بڑا سا سوالیہ نشان لگا رکھا ہے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان