تازہ ترین

حیات فاروقی کی حسین جھلکیاں (تیسرا حصہ)

hayat e farooqui ki haseen jhalkiyan part 3
  • واضح رہے
  • مئی 16, 2021
  • 4:18 شام

حضرت عمرؓ کی فہم و فراست، ایثار و ہمدردی، عدل و انصاف کے چند واقعے اس قسط میں شامل کئے گئے ہیں، جو جذبہ ایمانی کی روشن مثال ہیں

فراست ایمانی

ایک مرتبہ قبیلہ مذحج کا وفد آیا اس میں اشترنخعی بھی تھا، حضرت عمرؓ اشتر کی طرف نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ پھر دریافت فرمایا: یہ شخص کون ہے؟ قبیلہ مذحج کے ایک آدمی نے جواب دیا یہ ہمارا آدمی ہے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: خدا اس کو ہلاک کرے اور امت محمدیہ کو اس کے شر سے محفوظ فرمائے۔ ٹھیک بیسں سال بعد حضرت عثمانؓ کی شہادت کا سانحہ پیش آیا، جس میں یہ پیش پیش تھا۔ (کرامات صحابہ)

امین المؤمنین رونے لگے

عمرؓ بن خطاب مدینہ میں لوگوں کو کھانا کھلا رہے تھے اور ہاتھ میں عصا لئے ہوئے ان میں گھوم رہے تھے تو ایک شخص سے گزرے جو بائیں ہاتھ سے کھا رہا تھا۔ اُس سے آپؓ نے کہا اے اللہ کے بندے اپنے داہنے ہاتھ سے کھا! اس نے کہا کہ اے اللہ کے بندے وہ کام میں (آچکا) ہے، تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔

آپ نے آخر وہ کس کام میں لگا؟ تو اس نے کہا کہ جنگ موتہ میں اس پر حملہ ہوا۔ پھر حضرت عمرؓ اس کے پاس بیٹھ کر رونے لگے اور اس سے پوچھنا شروع کیا کہ کون تجھے وضو کراتا ہے، کون تیرا سر اور کپڑے دھوتا ہے۔ کون ایسا اور ایسا کرتا ہے۔ پھر ایک خادم کو بلایا اور اس کیلئے ایک سواری اور کھانے کا حکم دیا، جو اس کیلئے بہتر اور مناسب تھا۔ یہاں تک کہ اصحاب محمدؐ کی آوازیں بلند ہوگئیں، جو اُس شخص کلے ساتھ اُن کی محبت اور مسلمانوں کے امور میں ان کا اہتمام دیکھ کر ان کیلئے دعا کر رہے تھے۔

بڑھیا کی خدمت

حضرت طلحہ بن عبید اللہ فرماتے ہیں: ایک رات حضرت عمرؓ تاریکی میں نکلے اور ایک گھر میں داخل ہوگئے۔ جب صبح ہوئی تو میں اس گھر کی طرف گیا، دیکھا کہ وہاں ایک نابینا و اپاہج بڑھیا بیٹھی ہوئی ہے، میں نے اس سے پوچھا: اس شخص کا کیا ماجرا ہے جو تمہارے پاس آتا ہے؟ اس نے کہا: وہ اتنی مدت سے میری خبر گیری کر رہا ہے، میری ضروریات میرے پاس پہنچاتا ہے اور مجھ سے تکلیف کو دور کرتا ہے۔ (البدایہ والنہایہ: ۷/۱۵۶)

چلچلاتی دھوپ میں

حضرت عثمانؓ کے ایک آزاد کردہ بیان کرتے ہیں: میں حضرت عثمانؓ کے ساتھ ان کے کچھ مال کے سلسلہ میں ایک سخت گرمی کے دن (مدینہ طیبہ کی جانب شرق کے ایک مقام) عالیہ میں تھا، کہ عثمانؓ نے ایک (دور سے آنے والے) شخص کو دیکھا جو کہ دو جوان اونٹوں کو ہنکاتا ہوا آرہا ہے اور حال یہ ہے تھا کہ زمین کے اوپر سخت حرارت کی وجہ سے پروانوں کی مانند چنگاریاں اٹھی ہوئی نظر آرہی ہیں۔

حضرت عثمانؓ نے کہا: کیا ہوا اس شخص کو (ایسی سخت فضا میں چلا آ رہا ہے) اس کو ٹھنڈا وقت ہو جانے تک شہر میں ٹھہرنا چاہیئے تھا، پھر شام میں نکلتا۔ وہ شخص کچھ اور قریب ہوا تو مجھ سے کہا: دیکھ تو سہی یہ کون ہے؟ میں نے غور سے دیکھا اور کہا: ایک ایسا شخص نظر آرہا ہے جو اپنی چادر کو سر پر عمامہ کے طور پر باندھے ہوئے ہے۔ پھر وہ اور قریب ہوا تو حضرت عثمانؓ نے کہا؛ پھر دیکھ۔ میں نے دیکھا وہ تو عمرؓ بن خطاب ہیں۔

میں نے حضرت عثمانؓ سے کہا: یہ تو امیر المؤمنینؓ ہیں۔ تو حضرت عثمانؓ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اپنا سر دروازے سے باہر نکالا ہی تھا کہ لُو کا ایک جھونکا لگا تو پھر سر کو اندر کرلیا۔ جب حضرت عمرؓ ان کے برابر آگئے تو اُن سے کہا ایسے وقت میں کس چیز نے آپ کو باہر نکالا؟ تو فرمایا صدقہ کے اونٹوں میں سے دو اونٹ پیچھے رہ گئے تھے، باقی سب آگئے بڑھ گئے تھے تو میں نے ارادہ کیا کہ ان کو محافظوں تک پہنچا دوں اور مجھے ڈر لگا کہ اگر یہ دونوں ضائع ہوگئے تو ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ مجھ سے باز پرس کرے گا۔

پھر حضرت عثمانؓ نے کہا امیر المؤمنین آپ پانی اور سایہ کی طرف آجایئے یہ کام ہمارے سپرد کر دیجئے۔ مگر آپ نے انکار کردیا اور جواب دیا کہ تم سایہ کی طرف واپس جاؤ اور خود آگے چل دیئے۔ (ازالۃ الخفاء: ۲/۵۴۵)

اے علیؓ! یہ کھجور کھاؤ گے؟

حضرت علیؓ نے ایک رات خواب دیکھا کہ گویا میں نے صبح کی نماز حضورؐ کے پیچھے پڑھی اور نماز کے بعد حضورؐ محراب سے کمر لگاکر بیٹھ گئے، ایک لڑکی کھجوروں کا طباق لے کر آئی اور وہ حضورؐ کے سامنے رکھ دیا۔ آپؐ نے طباق سے ایک کھجور اٹھائی اور فرمایا:

’’اے علیؓ! یہ کھجور کھاؤ گے؟‘‘ میں نے کہا ہاں یا رسول اللہؐ! پھر آپؐ نے ہاتھ بڑھایا اور کھجور میرے منہ میں ڈال دی، پھر دوسری کھجور اٹھائی اور پوچھا: ’’اے علیؓ! کھجور کھاؤ گے؟‘‘ میں نے عرض کیا: ہاں یا رسول اللہؐ! تو آپؐ نے ہاتھ بڑھایا اور کھجور میرے منہ میں ڈال دی۔ اس کے بعد میں بیدار ہوا تو منہ میں مٹھاس کا اثر باقی تھا، میں نے وضو کیا، مسجد نبویؐ میں آیا، حضرت عمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی، نماز کے بعد حضرت عمرؓ محراب سے کمر لگاکر بیٹھ گئے۔

میں نے ارادہ کیا کہ ان سے رات کا خواب بیان کروں تو ایک عورت آئی، ہاتھ میں کھجوروں کا ایک طباق تھا، اس نے وہ طباق حضرت عمرؓ کے سامنے رکھ دیا۔ حضرت عمرؓ نے ایک کھجور اٹھائی اور پوچھا اے علیؓ! کھجور کھاؤ گے؟ میں نے اثبات میں جواب دیا تو آپؓ نے کھجور میرے منہ میں ڈال دی، پھر دوسری کھجور لی اور اسی طرح پوچھا تو میں نے کہا ہاں! آپؓ نے اس کو بھی میرے منہ میں رکھ دیا، پھر ان اصحابؓ میں تقسیم کرنا شروع کردیں جو دائیں بائیں بیٹھے تھے، میں خواہش رکھتا تھا وہ اور دیں، تو حضرت عمرؓ نے فرمایا:

میرے بھائی! رات کو حضورؐ نے تمہیں دو کھجوروں سے زیادہ دیا ہوتا تو میں بھی دیتا، میں متعجب ہوا اور خیال کیا کہ جو کچھ میں نے رات خواب دیکھا ان کو کیسے معلوم ہوگیا؟ تو آپؓ نے فرمایا: ابو الحسن! مومن دین کے نور سے دیکھتا ہے۔ (ازالۃ الخفاء: ۴/۹۴)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے