تازہ ترین

رسول اللہ ﷺ کی سیاسی زندگی

rasool allah ki siyasi zindagi
  • واضح رہے
  • جولائی 5, 2021
  • 3:42 شام

سرور کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سیرت و سنت کے حوالے سے ایک اجتماعی نظام دیا، جسے نظام خلافت کہتے ہیں

آپؐ ایک مکمل ضابطہ حیات لے کر اس جہان رنگ و بو میں تشریف لائے۔ سرکار دوجہاںؐ نے انفرادی و اجتماعی زندگی کا مکمل نمونہ بن کر دکھایا۔ آپؐ کی اپنی مبارک حیات کے پہلے سانس سے لے کر آخری سانس تک کے وہ تمام نشیب و فراز ایک ہی سیرت میں یکجا، مکمل اور قابل اتباع ہیں اور اللہ کا یہ احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے حضرت محمد ؐ کو مبعوث فرمایا۔

جب آقائے نامدار کو مبعوث کیا گیا تو اس وقت دنیا تاریکی، جہالت، ابتری و ذلت کے انتہائی پر آشوب دور سے گز رہی تھی۔ یونانی فلسفہ اپنی نا پائیدار اقدار کا ماتم کر رہا تھا، رومی سلطنت روبہ زوال تھی، ایران اور چین اپنی اپنی ثقافت و تہذیب کو خانہ جنگی کے ہاتھوں رسوا ہوتا دیکھ رہے تھے۔ ہندوستان میں آریہ قبائل اور گوتم بدھ کی تحریک آخری ہچکیاں لے رہی تھی۔ ترکستان اور حبشہ میں بھی ساری دنیا کی طرح اخلاقی پستی کا دور دورہ تھا۔

عرب کی حالت زار تو اس سے بھی دگرگوں تھی۔ سیاسی تہذیب و تمدن کا تو شعور ہی نہ تھا، عرب وحدت مرکزیت سے آشنا نہیں تھے، وہاں ہمیشہ لا قانونیت،باہمی جنگ و جدل کا دور دورہ رہا۔ اتحاد، تنظیم، قومیت کا شعور حکم و اطاعت وغیرہ جن پر اجتماعی اور سیاسی زندگی کی راہیں استوار ہوتی ہیں، ان کے ہاں کہیں بھی نہ پائی جاتی تھیں۔

قبائل بھی اپنے اندرونی خلفشار کے ہاتھوں تہذیب و تمدن سے نا آشنا تھے۔ سیاسی وحدت یا بیرونی تہذیبوں سے آشنائی و رابطہ دور کی بات تھی۔ نبی پاکؐ کی الہامی تعلیمات سے عرب ایک رشتہ وحدت میں پرو دئیے گئے اور وہ قوم جو باہمی جنگ و جدل، ظلم و زیادتی کے علاوہ کسی تہذیب سے آشنا نہ تھی، جہان بانی کے مرتبے پر فائز کر دی گئی۔

یہ سب اس بناء پر تھا کہ اسلام نے دنیاوی بادشاہت کے برعکس حاکمیت اقتدار اعلیٰ کا ایک نیا تصور پیش کیا جس کی بنیاد خدائے لم یزل کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت تھی۔ یہ ایک ایسا تفصیلی موضوع ہے، جس کئی جلدیں لکھی جاسکتی ہیں، بلکہ لکھی جا چکی ہیں، اس مختصر مضمون میں اس کے کچھ خدوخال بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔

سیاست بھی انسانی سوسائٹی کا ایک بہت اہم شعبہ ہے۔ سیاست کسے کہتے ہیں؟ قوم کی اجتماعی قیادت کرنا، ان کے لیے نظام حکومت قائم کرنا، اس نظام حکومت کا نظم اچھے طریقے سے چلانا اور اجتماعی معاملات میں قوم کی راہنمائی کرنا، اسے سیاست کہتے ہیں۔

حضرات انبیاء کرامؑ نے اس شعبے میں بھی وحی الٰہی کی بنیاد پر انسانیت کی راہنمائی کی، اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں بہت سے انبیاء کرامؑ کا تذکرہ فرمایا ہے جو اپنے اپنے دور میں وقت کے حکمران بھی تھے اور دینی و مذہبی معاملات میں قائد بھی تھے۔

رسول اللہؐ کے سوا پوری نسل انسانی میں کوئی ہستی ایسی نہیں ہے کہ جس کی شخصیت اس قدر جامع ہو کہ زندگی کے ہر شعبے میں اس سے راہنمائی ملتی ہو، یہ جناب رسول اللہؐ کا معجزہ۔ سیرت پاک میں انسانی زندگی کے ہر کردار کا نمونہ ملتا ہے۔

آپ ایک سیاسی لیڈر بھی تھے کہ مختلف قبائل کے وفود آپ کے پاس آتے تھے، جن سے آپ مذاکرات اور گفتگو فرماتے تھے۔ آپ اپنی ریاست کے سب سے بڑے سفارت کار بھی تھے کہ آپؐ دوسری قوموں کے ساتھ تعلقات اور معاملات کو بھی نبھاتے تھے۔ نبی کریمؐ اپنی ریاست کے منتظم اعلیٰ بھی تھے کہ ریاست کے داخلی معاملات کے متعلق فیصلے بھی آپؐ خود فرمایا کرتے تھے۔

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاء کلما ھلک نبی خلفہ نبی وانہ لا نبی بعدی وسیکون بعدی خلفاء‘‘ کہ بنی اسرائیل کے انبیاء اپنی قوموں کے پیغمبر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی قائد بھی تھے، جب ایک نبی دنیا سے تشریف لے جاتے تو دوسرے نبی ان کی جگہ آجاتے جیسے حضرت موسٰیؑ کی جگہ حضرت یوشع بن نونؑ نے لی، بنی اسرائیل میں یہ تسلسل چلتا رہا۔

جناب نبی کریمؐ بھی اسی طرح اپنی قوم کے سیاسی قائد تھے، رسول اللہؐ نہ صرف امتِ مسلمہ کے قائد تھے بلکہ آپ نسلِ انسانی کے بھی سب سے بڑے سیاسی قائد تھے۔ رسول اللہؐ نے اس حدیث میں یہ بات فرمائی ’’لا نبی بعدی‘‘ کہ پہلے انبیاء میں تو تسلسل تھا اور نبوت جاری تھی، لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔

سوال یہ ہوا کہ جب آپ کے بعد نبی کوئی نہیں آئے گا تو یہ خلا کون پُر کرے گا، آپؐ اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اس لیے آپؐ کے بعد سیاسی قیادت کا مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ پھر آپ نے فرمایا: ’’فسیکون بعدی خلفاء‘‘ کہ میرے بعد یہ منصب اور ذمہ داری خلفاء نبھائیں گے، یعنی میرے بعد خلافت کا نظام ہوگا اور خلفاء کا سلسلہ ہوگا، جو نبوی ذمہ داریوں کو سنبھالیں گے اور خلفائے راشدین نے بحسن و خوبی یہ ذمہ داری نبھائی۔

رسول اللہؐ نے جہاں زندگی کے باقی شعبوں میں رہنمائی کی ہے وہاں آپ نے اپنی امت کی سیاسی قیادت بھی کی، آنحضرتؐ نے اپنی سیرت و سنت کے حوالے سے اجتماعی نظام دیا ہے جسے نظام خلافت کہتے ہیں۔

جناب رسول اللہؐ کی ساری زندگی اس نظام کی تعلیم و تکمیل کے مراحل پر مشتمل ہے، جبکہ خلافت کا یہ نظام اپنی آب و تاب کے ساتھ خلافت راشدہ کے دور میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ جناب نبی کریمؐ نے دنیا کو ایک حکومتی نظام دیا، حکومتی نظام کو چلانے کے لیے رہنما اصول دیئے اور اس کے لیے قیادت تیار کی۔

سربراہِ مملکت اور نظام حکومت کے حوالے سے دو بنیادی اصولوں پر روشنی ڈالنا ضروی ہوگا۔

(1) پہلا یہ کہ حاکم وقت کا معیارِ زندگی معاشرے کے ایک عام آدمی کے معیارِ زندگی کے مطابق ہونا چاہیے۔

(2) دوسرا اصول یہ کہ معاشرے کے ہر فرد، بالخصوص اصحابِ علم و دانش کو حاکم وقت کے احتساب کا حق ہونا چاہیے۔ حاکم وقت کو اپنی رعیت کی نظر میں کیسا ہونا چاہیے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے طرز زندگی سے خود بھی اِس کی مثال پیش کی اور آپؐ کے بعد اصحابِ خلافت راشدہ نے بھی اسی طرز کا معیارِ زندگی برقرار رکھا۔ جناب رسالت مآب نے اپنے دور کے سب سے کمزور طبقے کے برابر اپنا معیارِ زندگی رکھا۔

رسول اللہؐ کے گھر میں کئی کئی دن تک آگ نہیں جلتی تھی، ام المؤمنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ خاندان نبوت میں ہم نے معمولی قسم کی کھجوریں تین دن مسلسل پیٹ بھر کر کھائی ہوں۔

سوال یہ ہے کہ اگر آپؐ چاہتے تو کیا زندگی کی سہولتیں حاصل نہ کر سکتے تھے؟ لیکن نبی کریمؐ نے ایک پیغمبر ہوتے ہوئے، کمانڈر انچیف ہوتے ہوئے، چیف جسٹس ہوتے ہوئے، منتظم اعلیٰ ہوتے ہوئے اور حاکم وقت ہوتے ہوئے اپنا معیارِ زندگی معاشرے کے عام طبقے کے برابر رکھا۔

خیال فرمائیے کہ اِس معاملے میں رسول اللہؐ کس قدر حساس تھے کہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ حضورؐ کا ہم سب کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا تھا کہ کسی اور خاوند کا اپنی بیوی کے ساتھ نہ ہوتا ہوگا، حضورؐ نے خود فرمایا کہ میں اپنے گھر والوں کے معاملے میں تم سب سے بہتر ہوں۔

ناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے کے ہر فرد کو احتساب کا حق دیا۔ ایک مرتبہ ایک صحابیؓ کو باتوں باتوں میں حضورؐ نے چھڑی مار دی، جس سے اس کے جسم پر خراش آگئی تو اس نے کہا کہ یا رسول اللہؐ میں آپ سے بدلہ لوں گا۔

آپ نے اس کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے فوراً چھڑی اس کے ہاتھ میں دے دی اور اپنی کمر آگے کر دی۔ جب حضرت ابوبکرؓ حضورؐ کے جانشین کے طور پر خلیفہ بنے اور مسجد نبوی میں آئے تو پہلا خطبہ یہ ارشاد فرمایا کہ لوگو! میں تم پر امیر بنا دیا گیا ہوں لیکن میں تم میں سے بہتر نہیں ہوں۔

رسول اقدسؐ کے بعد احتساب کے اس تصور کو خلفائے اسلام نے قائم رکھا۔ آج کے نظام سیاست میں اور رسول اللہؐ کے عطا کردہ اسلامی سیاسی نظام میں ایک بنیادی فرق ہے۔ حاکم وقت اگر کوئی بات یا عمل حق کے خلاف کر رہا ہو یا نا انصافی کر رہا ہو تو اسے اِس طرز عمل سے روکنے کو آج کی دنیا ہر شہری کا حق قرار دیتی ہے۔

لیکن حاکم وقت کے خلاف تنقید کرنا اسے اس کی غلطی پر ٹوکنا اور اس کی غلط بات کی نشاندہی کرنا، اسلام نے اسے حق نہیں بلکہ ذمہ داری قرار دیا ہے۔ اسلام کے اور آج کے مروجہ نظام سیاست میں یہ فرق ہے۔

حق تو اختیاری ہوتا ہے کہ کوئی اپنا حق استعمال کرے یا نہ کرے لیکن رسول اللہؐ نے یہ اختیار نہیں دیا بلکہ بالخصوص علماء کے حوالے سے یہ فرمایا کہ غلط بات کو غلط کہنا پڑے گا۔ نبی کریمؐ نے فرمایا کہ جو عالم ایک ظالم حکمران کے ظلم کو دیکھ کر خاموش رہے وہ اپنی ذمہ داری سے گریز کر رہا ہے، جناب نبی کریمؐ نے اسے جہاد قرار دیا ’’افضل الجھاد کلمۃ حق عند سلطان جائر‘‘ کہ سب سے بہتر جہاد ظالم حکمران کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔

جناب نبی کریمؐ نے ان لوگوں کو جو ظالم حکمرانوں کے سامنے حق بات کہنے کا حوصلہ نہ کریں، شیطان کا ساتھی قرار دیا۔ حضورؐ نے فرمایا کہ جو میرے منبر بیٹھتا ہے اور ظالم کے ظلم کو ظلم نہیں کہتا ’’شیطان أخرس‘‘ وہ گونگا شیطان ہے۔ لیکن اس میں نکتہ یہ ہے کہ بھلائی کی بات ایسے انداز سے کہی جائے کہ جس میں خیرخواہی ہو۔

جناب نبی کریمؐ نے حکمرانوں کی غلطیوں کو درست کرنے کو دین قرار دیا اور اسے جہاد کا درجہ دیا۔ جس حکومت اور سیاست میں یہ احتساب کا یہ نظام قائم ہو جائے، وہاں حکمراں کے بگڑنے کے امکانات تقریباً معدوم ہو جاتے ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے