تازہ ترین

حکومت آئی ایل او کنونشن سی 176 کوتسلیم کرے

Hakomat ILO Convention C-176 Ko Tasleem kary
  • محمد قیصر چوہان
  • دسمبر 16, 2023
  • 2:12 شام

مائن ایکٹ 1923ءکا 100 سال ہو چکا ہے اس میں ترامیم کی جائیںاور مائننگ کے شعبے کو انڈسٹری کا درجہ دیکر مائنز انسپکٹروں کی تعداد کو بڑھایا جائے ،کانکنوں کو حفاظتی آلات ،صحت، تعلیم سمیت دیگر سہولیات فراہم کی جائیں-

مائننگ کے شعبے سے وابستہ کان کنوں سمیت محنت کش طبقے کو قوانین محنت، اجتماعی سوداکاری،غےر منظم ورکروں کو منظم اور پیشہ ورانہ صحت و سلامتی کے بارے مےں شعور اور آگاہی دینے کے مشن پر گامزن آل پاکستان لےبر فےڈرےشن ، پاکستان سینٹرل مائنزلیبر فیڈریشن کے عہدےدار اورماسٹر ٹرینر عبدالحلیم خان کا شمار پاکستان کے بہترین لیبر لیڈر میں ہوتا ہے ۔کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے عبدالحلیم خان پبلک سےکٹراورمائنز ورکرز سمیت محنت کشوںکے مفادات اور حقوق کے تحفظ کی جنگ جرا ¿ت، بہادری اور استقامت کے ساتھ لڑرہے ہیں۔انہوں نے اپنی زندگی ٹریڈ یونین اورمزدوروں کی خدمت کیلئے وقف کر رکھی ہے۔ وہ محنت کشوں کا معیار زندگی بلند کرنے کیلئے کوشاں ہیں ۔ گزشتہ دنوں ”واضح رہے‘ کیلئے پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے سیکرٹری ایجوکیشن اورماسٹر ٹرینر عبدالحلیم خان سے کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں ایک نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس میں ہونے والے گفتگو قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔

سوال: آپ کے نزدیک بلوچستان کی مائنز میں حادثات کی بنیادی وجہ کیا ہے؟

عبدالحلیم خان:بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 60 سے زائد معدنیات نکالی جا رہی ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کا روز گار وابستہ ہے۔کول مائننگ کاشمار دنیا کے مشکل اور خطرناک ترین کاموں میں ہوتا ہے ،بلوچستان میں کول مائننگ بہت ہی مشکل ترین کام ہے کیونکہ یہاں کوئلے کی کانیں 4 ہزار سے6 ہزار فٹ تک گہری ہیں جس میں متھن گیس سمیت دیگر گیسوں کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں کان کن شہید ہو تے ہیں ،کان کی گہرائی جتنی زیادہ ہو گی اس میںکان کنوں کی صحت و سلامتی کے حوالے سے حالات اتنے ہی زیادہ خراب ہوں گے،اور پھربلوچستان میں غیر قانونی مائننگ کی وجہ سے بھی حادثات رونما ہوتے ہیں ،مسلم باغ ، شاہرگ ، ڈیگاری ،مچھ ، چمالنگ ، دکی میں غیر قانونی مائننگ جاری ہے۔دنیا بھر میں مائننگ میں جدید مشنری استعمال کی جا رہی ہے لیکن پاکستان میں ابھی تک پرانے طریقوں سے ہی مائنز سے کوئلہ نکالاجاتا ہے، بلوچستان کی مائنز سے سالانہ 45 لاکھ ٹن کوئلہ نکالا جاتا ہے۔ٹھیکیدار اور پیٹی ٹھیکیداری سسٹم کی وجہ سے جدید حفاظتی آلات کے بغیر مائن میں اترنے والے کان کنوں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہیں،مائننگ بالخصوص کول مائننگ مشکل اور خطرناک ترین کام ہے جس میں صحت و سلامتی کے اصولوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے حادثات رونما ہوتے ہیں۔ کوئلہ نکالنے کے ہنر سے نا آشنا کان کنوں کی وجہ سے بھی بعض حادثات ہوتے ہیں ،ناقص الیکڑک وائرنگ ،خراب ریلوے ٹریک،ٹرالی کی رسی ٹوٹنے، سیفٹی بیلٹ استعمال نہ کرنے اور سفیدے کی لکڑی ٹوٹنے کے سبب مائن کی چھت گرنے کے سبب حادثات رونما ہوتے ہیں۔

مائننگ کے شعبے میں تین اسٹیک ہولڈر زہیں ،ایک حکومت ،دوسرامائن مالک اور تیسرا کان کن ،ان تینوں کی غفلت کے باعث حادثات رونما ہوتے ہیں ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ بعض مائنز میں ورکرزمائن کے اندر سیگریٹ پیتے ہیں مائن میں چونکہ مختلف گیس موجود ہوتی ہیں اس لیے سیگریٹ سلگانے کیلئے لائٹر یا ماچس کے استعمال سے بھی حادثات رونماہوتے ہیں ۔گزشتہ پندرہ برسوں میں ہزاروں مائن ورکرز مختلف حادثات کے نتیجے میں شہید ہو چکے ہیں۔مائنز میں ہونے والے حادثات کے نتیجے میں پاکستان میں ہر سال300 کے قریب کان کنوں کی اموات ہوتی ہے اور 3 ہزار سے زائد محنت کش زخمی ہوتے ہیں جن میں سے درجن سے زائد معذور ہو جاتے ہیں۔فےڈرےشن ہذا کے رےکارڈ کے مطابق گذشتہ سال 287 کانکن شہےد ہو چکے ہےں اور موجودہ سال ( 2023) مےں اب تک 143 کانکن جاں بحق ہوئے ہےں جو کہ دنےا مےں مائننگ اےکسڈنٹ کے لحاظ سے بہت زےادہ ہےں۔ اس گھمبےر صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے ان ورکروں کی ڈےٹا اکٹھا کرنا شروع کےا اور ان حادثات کو کم کرنے کےلئے شعور و آگاہی کا سلسلہ شروع کےا تاکہ ےہ حادثات کم سے کم ہو سکے اور قرآن مےں ہے کہ جس نے اےک جان بچائی گوےا اس نے پوری انسانےت کو بچاےا۔

سوال:حادثات کی روک تھام کیلئے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟

عبدالحلیم خان:حکومتی اداروں کا فرض ہے کہ وہ مائن ایکٹ 1923 جس کے 100 پور ے ہو چکے ہےں ان کواپ ڈیڈ کےا جائے اور ان پر سختی سے عمل کرائے ۔محکمہ مائنز بلوچستان کے پاس مائن کا معائنہ کرنے کیلئے مائنز انسپکٹروں کی کمی ہے، مائنز انسپکٹرز کی تعداد بڑھائی جائے ۔جس مائن میں حادثہ ہو اس مائن مالک پر ایف آئی آر درج کی جائے اور اس کو کم از کم ایک سال کی جیل کی سزا سنائی جائے ۔حادثات کی روک تھام کیلئے کول مائنز میں سفیدے کی لکڑی کے بجائے کیکر کی لکڑی استعمال کی جائے ،الیکڑک وائر نگ کو محفوظ بنایا جائے ،کوئلے سے بھری ٹرالی کھینچنے کیلئے کمزور رسی کی بجائے امپورٹڈ رسی استعمال کی جائے ،سیفٹی بیلٹ کا استعمال یقینی بنایا جائے۔ حادثات کی روک تھام کیلئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے، مائن ورکرز کی صحت وسلامتی کو یقینی بنانے کیلئے بلوچستان کی کول مائنز میں کمیونیکیشن کا جدید انتظام نافذ کیا جائے،کوئلے کی کان میں کام کرنے والے محنت کشوں کو تحفظ فراہم کرنے کیلئے جو اقدامات درکارہیں ان میں پرسنل پروٹیکٹو ایکوئپمنٹ کام کی مخصوص ضرورت کے مطابق جیسے مائننگ شوز، گمبوٹس، ہیلمٹ، سیفٹی بیلٹ، سیفٹی ہارنس، سیفٹی ہک،ہاتھوں کے دستانے ،حفاظتی چشمے ، خود ساختہ سانس لینے کا سامان،زیر زمین کوئلے کی کانوں میں کام کرنے کیلئے کیپ لیمپ،ریسٹ شیلٹر، فرسٹ ایڈ سٹیشن اور فرسٹ ایڈ روم اور مائن اسٹیشن،مائن میں استعمال ہونے والی مشینیں، مائنز میں کام کی کیلئے روشنی اور پانی کے چھڑکاو ¿ کا انتظام،مائن میں گیسوں کی موجودگی کا پتہ لگانے کیلئے ڈیجیٹل ڈیٹیکٹرز، کارکنوں کی حفاظت کیلئے مناسب وینٹیلیشن کا انتظام کیا جائے تاکہ حادثات کی روک تھام ممکن بنائی جا سکے۔

اس کے علاوہ کسی بھی مائن میں کام کیلئے جانے سے قبل مائن ورکرزکا مکمل میڈیکل چیک اپ کیا جائے،ان کی ویکسی نیشن کی جائے۔ مائن ورکرز کو پینے کا صاف پانی فراہم کیا جائے۔واش روم، صحت مند کھانے کی فراہمی یقینی بنائے جائے۔آٹھ گھنٹے اقات کارپر سختی سے عمل کرایا جائے۔سولر سسٹم لگاکر دیئے جائیں۔ مائنز کا ٹھیکہ سیاسی بنیادوں کی بجائے اُوپن ٹینڈرز کی صورت میں دیا جائے ۔مائن مالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ مائن کی اچھی طرح انسپکشن یقینی بنائے اس کے بعد ورکرز کو کام کیلئے مائن میں اتارا جائے ۔مائن ایکٹ کے مطابق مائن ڈائزئن کی جائے ،ہوائی کا راستہ بائی 7 یا 7بائی 6 بنایا جائے۔مائنز انسپکٹر وینٹیلیشن سسٹم سمیت مشینری اور اوزار چیک کرنے سمیت کوئلے کی کانوں میں حفاظتی اقدامات کے نفاذ کو یقینی بنانے کیلئے اپنا کردارایمانداری سے ادا کریں تو حادثات میں کمی ممکن ہے،حفاظتی تدابیر اختیار کرکے ہی حادثات کی روک تھام کی جاسکتی ہے اور قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع روکا جاسکتا ہے۔ان کے علاوہ کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کیلئے کام کی جگہ کے قریب رہائش کی سہولیات، کینٹین، ریسٹ شیلٹرز ،پینے کیلئے صاف پانی کی فراہمی،کوئلہ کانوں کے مختلف حصوں میںڈسپنسری کی سطح سے لےکربڑے ہسپتالوں تک مختلف طبی اداروں کے ذریعے ملازمین اور ان کے اہل خانہ کو مفت طبی سہولیات، کان کنوںکے بچوں کیلئے سکول،کارکنوں کی رہائشی کالونیوں کے قریب تفریحی اور کھیلوں کی سہولیات موجود ہیں تاکہ کارکنوں اور ان کے خاندانوں کی اچھی صحت کو یقینی بنایا جا سکے۔

Hakomat ILO Convention C-176 Ko Tasleem kary

سوال: کان کنوں کے حالات کس طرح بہتر ہو سکتے ہیں ،آپ کیا تجاویز دیں گے؟

عبدالحلیم خان:مائن ورکرز کومائن مالکان سے اپنے حقوق لینے کیلئے خود کھڑا ہونا ہو گا۔مائن ورکرز کسی بھی کان میں کام کرنے سے پہلے مائن منیجر کے ساتھ کنٹریکٹ سائن کرتے ہوئے اس چیز کو یقینی بنائیں کی اس میں ای او بی آئی میں رجسٹریشن ، اقات کار ،مدت ملازمت کا تعین ،صحت و صلامتی کے اصولوں کے تحت کانکنی کیلئے مخصوص آلات کی فراہمی کو یقینی بنائیں،کان کن شارٹ ٹرم کا فائدہ نظر نداز کرکے لانگ ٹرم کی پالیسی اپنائیں، تب جا کر مائن ورکرزکے حالات میں بہتری آئے گے۔

سوال:مائنز ورکرز سوشل سیکورٹی اور ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی)سے کس طرح مستفید ہو سکتے ہیں؟

عبدالحلیم خان:ہر صوبے میں مائنز ایکٹ کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے مائنز کی الاٹمنٹ کی جا رہی ہے ،مائن مالکان اور ٹھیکیدار کان کنوں کی ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی) میں رجسٹریشن نہیں کراتے جو مزدوروں کے ساتھ ظلم کے مترادف ہے۔لہٰذا مائن الاٹمنٹ کے وقت یہ شر ائط ر کھی جائے کہ مائنزکمپنی اپنے ورکرز کی ایمپلائیز اولڈ ایج بینیفٹ انسٹی ٹیوشن (ای او بی آئی)میں رجسٹریشن یقینی بنائے گی اور ورکرز ویلفیئر فنڈ میںدو فیصدٹیکس کی ادائیگی بھی کرے گی جو مائنزکمپنی ویلفیئر فنڈ اور ای او بی آئی میں کنٹربیوشن دو فیصد ٹیکس ادا نہیں کرتی ان کی الاٹمنٹ فوری طور پر منسوخ کی جائے۔

سوال: کول مائنز میںہونے والے حادثے کی صورت میں کاکنوں کو جلد ریسکیو نہیں کیا جاتا جس کے نتیجے میں ہلاکتوں میں اضافہ ہوتا ہے ، اس حوالے سے آپ کیا تجاویز دیں گے؟

عبدالحلیم خان:وفاقی حکومت تمام صوبائی حکومتوں کو پابند کرے کہ وہ مائن میں حادثے کی صورت میں کان کنوں کی زندگیاں بچانے کیلئے صوبائی محکمہ مائن کونئی ایمبولینسوں سمیت جدید سہولتوں سے لیس کرے،ریسکیو ٹیموں کو جدید تربیت دی جائے اور تمام ضروری آلات سے لیس کیا جائے،مائنز ورکرز کو حادثات سے بچنے اور حفاظتی تدابیر کے متعلق آگاہی دینے کیلئے مختلف ورکشاپس کااہتمام کیا جائے اور کان کنوں کو ریسکیو کے مختلف مراحل کے متعلق ٹریننگ بھی دی جائے تاکہ وہ ان تکنیکی مہارتوں کو بروئے کار لاکرحادثے کی صورت میں متبادل راستوں سے ریسکیو کا کام بخوبی طور پر انجام دیکر قیمتی جانیں بچانے میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

سوال: مائننگ کے شعبے سمیت محنت کشوں کے حوالے سے آپ حکومت سے کیا مطالبہ کرتے ہیں؟

عبدالحلیم خان:پاکستان میں انگریز سرکار کا بنایا ہو مائن ایکٹ 1923 لاگو ہے لیکن اس پر بھی عمل نہیں ہو رہا ۔ ایک صدی گزر جانے کے بعد اب حکومت کو مائن کے شعبے کیلئے نئی قانون سازی کرنی چاہیے اور ساتھ ہی حکومت مائننگ کے شعبے کو صنعت کا درجہ دے۔مائننگ کا شعبہ تمام صنعتی تقاضے پورے کرتا ہے لہٰذا حکومت مائننگ کے شعبے کو صنعت کا درجہ دے ۔ مائن ورکرز کی صحت وسلامتی کو یقینی بنانے کیلئے پاکستانی حکومت آئی ایل او کنونشن C-176 کو فوری طور پر تسلیم کرے،اب تک دنیا کے 34 ممالک نے اس کنونشن کو تسلیم کیا ہے۔ پاکستان میں لیبر قوانین زیادہ ہیں انہیں یکجا کرنے کی ضرورت ہے،جیسا کہ مائننگ ا یکٹ ، فیکٹری ایکٹ ،ای او بی آئی ایکٹ ،سوشل سیکورٹی ، ڈبلیو ڈبلیو ایف ایکٹ ، انڈسٹریل ریلشنز ایکٹ وغیرہ جبکہ ورکرز کو قوانین بارے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے اُن کا استحصال ہو رہا ہے۔علاوہ ازیں محنت کشوں کیلئے نئی لیبر پالیسی بنائی جائے ، لیبر قوانین کو ’اپ گریڈ‘ کرنا ہوگا کیونکہ اب دنیا ڈیجیٹلائزیشن کی جانب بڑھ رہی ہے لہٰذا سائبر سیف سپیس، فری لانسنگ، ورک فرام ہوم و دیگر معاملات سمیت آئی ٹی سے منسلک شعبوں میں کام کرنے والوں کے حقوق کو بھی تحفظ دیا جا ئے،وفاقی و صوبائی حکومتیںمزدوروں کی ’سوشل پروٹیکشن‘ یقینی بنائیں، مزدوروں کوسوشل سکیورٹی میں رجسٹرڈ کیا جائے،مزدور کو سرکاری مقرر کردہ کم از کم تنخواہ دلائی جائے، مزدوروں کے بچوں کو ٹیلنٹ سکالرشپ کا حصول یقینی بنایا جائے،محنت کش طبقے کی فلاح وبہبود کو یقینی بنانے کیلئے وفاقی وصوبائی حکومتیں پریوینشن اینڈ پروٹیکشن سٹرٹیجی پر کام کر یں۔ مزدور مشین نہیں انسان ہے جسے سکون بھی چاہیے لہٰذا 8 گھنٹے کام، 8 گھنٹے آرام اور 8 گھنٹے گھر یلو زندگی کے دیگر معاملات مگر افسوس ہے کہ مزدوروں سے بہت زیادہ وقت کام لیا جاتا ہے جس سے ان کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔محفوظ اور صحت مند ورکنگ کنڈیشن کام کیلئے بنیادی حیثیت رکھتی ہے، کان کنی سے وابستہ مزدوروں سمیت صنعتی یونٹس اور کارخانوں کے محنت کشوں کو لیبر قوانین، کلیکٹیو بارگینگ اورپیشہ ورانہ صحت و سلامتی کے بارے میں شعور اور آگاہی دینے کی اشد ضرورت ہے۔

Hakomat ILO Convention C-176 Ko Tasleem kary

سوال: چائلڈ لیبر کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟

عبدالحلیم خان:غربت، جہالت، تعلیمی فقدان، کم علمی، کم عقلی اور دیگر کئی عوامل کی وجہ سے پندرہ سال سے کم عمر کے بچے گھروں، فیکٹریوں، ورکشاپ اور مائنز میں مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ پندرہ سال سے کم عمر بچوں سے جبری مشقت کروانا قانون کی سنگین ترین خلاف ورزی ہے،بچوں سے جبری مشقت کرانے کیخلاف قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں بچے آج بھی مزدوری کرنے پر مجبور ہیں لہٰذا چائلڈ لیبر کے خاتمے کے حوالے سے قوانین پر عمل درآمد کیلئے زیرو ٹالرنس کی پالیسی اپنائی جائے۔چائلڈ لیبرکے خاتمے کیلئے ہر صوبے نے اپنے قوانین اور سزائیں مقرر کر رکھی ہیں، تاہم قومی پالیسی تشکیل دے کر ہی چائلڈ لیبر کے ناسور کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔جبری مشقت کا شکار بچوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں تعلیم ، رہائش اور خوراک کی بنیادی سہولیات فراہم کرکے معاشرے کا مفید شہری بنایا جا سکتا ہے،مزدور بچوں کےلئے ٹیکنیکل ایجوکیشن کے خصوصی ادارے قائم کئے جائیں تاکہ وہ ہنر مند بن کر اپنے خاندان کی کفالت بھی کر سکیں اور معاشرے کے ایک باشعور فرد کے طور پر ابھر کر سامنے آسکیں۔

سوال:پاکستان کی موجودہ صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ محنت کش طبقے کی حالت زار پر کیا تبصرہ کریں گے؟

عبدالحلیم خان:تاریخ ساز مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان کی وجہ سے محنت کش طبقہ خون کے آنسو رو رہا ہے۔موجودہ حالات میں محنت کشوں کیلئے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا محال ہوگیا ہے۔لیبر قوانین اور سماجی تحفظ کے قوانین کا اطلاق فارمل سیکٹر کے مزدوروں پر بھی مکمل نہیں ہے جبکہ انفارمل سیکٹر جو کہ تعداد کے اعتبار سے فارمل سیکٹر سے پانچ گنا زیادہ ہے لیبر قوانین اور سماجی بہبود کے قوانین سے مکمل محروم ہیں ان کے بچے تعلیم سے محروم اور مریض علاج سے محروم ہیں دیہاڑی لگ گئی تو رات کی روٹی کھا لیتے ہیں دیہاڑی نہ لگے تو ان کے بچے بھوک سے بلکتے رہتے ہیں۔کام کرنے والی جگہ پرمزدوروں کیلئے صحت و سلامتی کا انتظام نہ ہونے اور حفاظتی آلات کی عدم فراہمی کی وجہ سے آئے روز کوئلے کی کانوں، بجلی کے کھمبوں، گٹروں کے اندر اور دوسرے خطرناک کاموں میں انسانی جانوں کاضیاع ہورہا ہے۔سات کروڑ سے زائد محنت کش ٹھیکیداری نظام میں جکڑے ہوئے ہیں ، ٹھیکیداری نظام غلامی اور استحصال کی جدید شکل ہے اس نظام کی وجہ سے محنت کش طبقہ سسک سسک کر مر رہا ہے۔

سوال:آپ کے خیال میںمحنت کش طبقے کی حالت کس طرح بہتر بنائی جا سکتی ہے؟

عبدالحلیم خان: مزدوروں کی تمام تنظیمیں اور قیادت اپنے اپنے دائروں سے نکل کر مزدور کی خوشحالی، ان کے بچوں کی تعلیم اور علاج ومعالجہ کی سہولت، ان کی عزت نفس کے تحفظ اور انہیں غربت، افلاس، بے روزگاری سے نجات دلانے کیلئے متحد ہو کر کام کرنے پر آمادہ ہو جائیں۔ اب وقت ہے کہ مزدور لیڈر شپ سنبھل جائے اور محنت کش طبقے کے مفاد کی خاطر اپنے چھوٹے چھوٹے دائروں سے باہر نکل کر قومی دھارے میں شامل ہو کر ایک بڑی جدوجہد شروع کریں ، جب تک 76 سال سے مسلط حکمرانوں کو مسترد نہیں کیا جاتا اور سرمایہ داری، جاگیرداری اور افسر شاہی کے اس ٹرائیکا سے نجات حاصل کرکے ایماندار ، دیانتدار ، مخلص اور خدمتگار قیادت کا انتخاب نہیں کیا جاتا،اس وقت تک مزدوروں کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور نہ ہی محنت کش طبقے کی خوشحالی ممکن ہے۔

سوال: دنیا بھر میں محنت کش طبقہ ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرتاہے ، کیا پاکستانی محنت کشوں کو ملکی سیاست میں حصہ لینا چاہیے؟

عبدالحلیم خان:پاکستان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی ہے کہ محنت کش طبقے کی پارلیمنٹ میں نمائندگی نہیں ہے۔ملکی سیاست اور پارلیمنٹ پر سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کا قبضہ ہے۔ مزدور کسان جب کسی جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ، جرنیلوں ، ججوں اور بیورو کریٹس زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو مزدوروں اورکسانوں کی آنے والے نسلوں کا مستقبل تاریک ہوجاتا ہے۔انگریزوں نے اپنی خدمت اور یہاں کے مظلوم اور محکوم عوام کو اپنی غلامی میں جکڑے رکھنے کیلئے ایک جاگیردار طبقہ اور دوسرا نو دولتی طبقہ پروان چڑھایا۔ ایک قوم کو غلام رکھنے کیلئے افسر شاہی کی تربیت کی اور اب یہی ٹرائیکاگزشتہ 76 سال سے پاکستان پر مسلط ہے ۔محنت کشوں کی نمائندہ تنظیموں کے عہدیداران سیاست کے رموز کو عام پارلیمانی سیاسی قائدین سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں کیوں کے مزدور قیادت کا براہ راست تعلق عام انسانوں سے ہوتاہے اور عام شہری کی ضروریات، ان کی محرومیوں، ان کو درپیش مسائل سے آگاہی کے سبب محنت کشوں کے لیڈر ہی عوام کے حقیقی نمائندہ بن سکتے ہیں۔سیاسی جماعتیں غریب مزدوروں کے ووٹ سے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچ کر غریب مزدور کو بھول جاتی ہیں ۔جاگیردارورں ،سرمایا داروں اور بیوروکریسی نے ملکرمحنت کش طبقے کیلئے سیاست کو شجر ممنوعہ قرار دیا ہے۔ پاکستان میں رائج جمہوری نظام جمہوریت کی توہین ہے ، دراصل یہ جمہوریت کے لبادھے میں مافیاز اور آمریت کا قائم کردہ ایک استحصالی نظام ہے۔

اس نظام نے پاکستان کے مزدور سمیت عام آدمی کو پارلیمنٹ سے دور رکھا ہوا ہے۔پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن 76 سال سے کبھی زرعی پالیسی نہیں بن سکی اور نہ ہی کوئی کسان پارلیمنٹ کا حصہ بنا ہے۔مزدوروں، کسانوں اور غریب عوام کو سیاسی عمل سے دور رکھنا ایک مستقل پالیسی کا حصہ ہے۔مزدور اور کسان جب تک سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنیں گے اور اس ٹرائیکا کے تسلط کو توڑنے کے اپنی ووٹ کی طاقت کو مجتمع کرکے اس کے ذریعے ایک دیانتدار قیادت کا انتخاب نہیں کریں گے محنت کشوں کے حالات نہیں بدلیں گے۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان