تازہ ترین

حیات فاروقی کی حسین جھلکیاں (پہلا حصہ)

hayat e farooqui ki haseen jhalkiyan part 1
  • واضح رہے
  • اپریل 30, 2021
  • 2:18 صبح

حضرت عمرؓ جب نبی آخر الزمان حضرت محمدؐ کی دعا سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے تو صحابہ خود کو مضبوط اور محفوظ سمجھنے لگے تھے

ایک موقع پر حضور اقدسؐ نے ارشاد فرمایا: عمر بن خطاب اہل جنت کے چراغ ہیں۔ (فضائل الصحابہ لأ حمد بن حنبل: ۱/۴۶۸)

حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: میرے پاس جبرئیلؑ تشریف لائے اور فرمایا: عمر کے اسلام قبول کرنے کی وجہ سے آسمان والوں نے بھی خوشیاں منائی ہیں۔ (المستدرک ۳/۸۴)۔

حافظ عماد الدین ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: میرے لئے اللہ کے مال میں سے صرف دو جوڑے لینا حلال ہے، ایک موسم سرما اور دوسرا موسم گرما کیلئے اور میرے گھر والوں کی خوراک ایسے قریشی آدمی کی سی ہونی چاہیئے جو ان میں زیادہ مالدار نہ ہو، پھر بھی مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں۔۔۔۔۔

آپؓ جب کسی کو عامل مقرر فرماتے تو اس کیلئے ایک عہد نامہ لکھتے اور اس پر مہاجرین کی شہادتیں رقم کرواتے، اور اس پر یہ شرط عائد کرتے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوگا، عمدہ اور لذیذ کھانا نہیں کھائے گا، باریک لباس نہیں پہنے گا، اپنا دروازہ حاجت مندوں سے بند نہیں کرے گا، اگر کوئی اس کے خلاف کرتا تو اس پر سزا جاری کی جاتی۔

کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی آپ سے بات چیت کرتا اور ایک دو کلمے جھوٹ بول لیتا تو آپؓ فرماتے: اس کو روکو، اس کو روکو، پس وہ آدمی کہتا: اللہ کی قسم! جب تک میں ان سے حق اور سچ بولتا رہا تو انہوں نے مجھے روکنے کا حکم نہیں دیا۔

حضرت عمرؓ خلیفہ ہونے کے باوجود ایسا اونی جبہ استعمال کرتے جس میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوتے، اور کسی جگہ چمڑے کا پیوند بھی لگا ہوتا تھا۔ آپ بازاروں میں گشت کرتے اس حال میں کہ آپ کے کندھے پر ’’درہ‘‘ ہوتا تھا اور اس سے آپ لوگوں کو تنبیہ کرتے۔۔۔۔۔

حضرت انسؓ فرماتے ہیں: حضرت عمر بن الخطابؓ کے دو کندھوں کے درمیان چار پیوند لگے ہوئے تھے، اور ان کے تہہ بند پر چمڑے کا پیوند تھا، آپؓ ایک مرتبہ منبر پر خطبہ دے رہے تھے اور آپ کی چادر میں بارہ پیوند لگے ہوئے تھے۔

آپؓ نے اپنے حج میں سولہ دینا خرچ کئے اور پھر اپنے بیٹے سے فرمایا: ہم نے فضول خرچی کی ہے۔

آپؓ کسی چیز کا سایہ نہیں لیتے تھے سوائے اس کے کہ اپنی چادر کو درخت پر ڈال دیتے اور اس کے نیچے بیٹھ جایا کرتے، آپ کیلئے نہ خیمہ لگایا جاتا اور نہ قبہ بنایا جاتا۔

جب بیت المقدس کی فتح کیلئے شام آئے تو ایک خاکستری اونٹ پر سوار تھے، آپ نے اپنی دونوں ٹانگوں کو پالان کے دونوں طرف رکاب نہ ہونے کی وجہ سے چپکا رکھا تھا، آپ کے نیچے مینڈھے کی اون کا کپڑا بچھا ہوا تھا، جب اترتے تو وہی آپ کا بچھونا بن جاتا، آپ کے تھیلے میں چھال بھری ہوئی تھی جب سوتے تو وہی آپ کا تکیہ بن جاتا، آپ کی قمیض کھردرے کپڑے کی تھی اور اس کا گریبان پھٹ چکا تھا۔

جب کسی جگہ پڑاؤ کرتے تو فرماتے: بستی کے سردار کو میرے پاس بلاؤ۔ لوگ بلا کر لاتے۔ آپؓ اس سے فرماتے: میری قمیض لے جاؤ، اسے دھو دو اور سلا دو، اور ایک قمیض مجھے عاریۃً دے دو۔

حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ مشکیزہ اپنے کندھے پر اٹھایا ہوا تھا، جب اس کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا: میرا نفس خود پسندی کا شکار ہوگیا تھا، میں نے چاہا کہ اسے ذلیل کروں۔

آپؓ لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے تھے اور پھر گھر میں داخل ہوجاتے تھے، پھر صبح تک نماز میں مشغول رہتے، وفات تک آپ مسلسل پے در پے روزے رکھتے رہے۔

عام الرمادہ کے زمانے میں صرف روٹی اور زیتون کا تیل استعمال فرماتے، یہاں تک کہ آپ کی جلد سیاہ پڑگئی تھی، فرماتے تھے: میں بہت ہی برا والی ہوں گا اگر خود تو سیر ہو جاؤں اور لوگ بھوکے رہیں، آپؓ کے چہرہ مبارک پر بکثرت رونے کی وجہ سے دو سیاہ لکیریں پڑگئی تھیں۔

قرآن کریم کی آیت سنتے اور غش کھا کر گر پڑتے، پھر آپ کو اٹھا کر گھر لے جایا جاتا، کئی کئی دن تک عیادت کی جاتی لیکن خوف الہٰی کے سوا کوئی مرض نہ ہوتا تھا۔ (تاریخ ابن کثیر ۴/۱۳۶)

(جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے