تازہ ترین

اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی اسٹیج پر جمہوری کٹھ پتلی تماشا

establishment k siyasi stage par jhamhuri kathputli tamasha
  • محمد قیصر چوہان
  • جنوری 3, 2024
  • 1:22 شام

آٹھ فروری کو الیکشن کا بگل بجتے ہی اسٹیبلشمنٹ کے سجائے سیاسی اسٹیج پر جمہوری کٹھ پتلی تماشا شروع ہوگیا ہے۔

عام انتخابات کے انعقاد کے مختلف مراحل آہستہ آہستہ مکمل ہورہے ہیں، اسی سلسلے میں گزشتہ سال کے خاتمے کے ساتھ ہی کاغذات نامزدگی کی جانچ پڑتال کا عمل بھی مکمل ہو گیا۔ کاغذاتِ نامزدگی منظور یا مسترد کیے جانے کے خلاف اپیل 3 جنوری تک کی گئیں ہیںان اپیلوں پر انتخابی ٹریبونل 10 جنوری تک فیصلہ کریں گے۔ امیدوار اپنے کاغذات 12 جنوری تک واپس لے سکیں گے۔ 13 جنوری کو امیداروں کو انتخابی نشان الاٹ کیے جائیں گے۔ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے کاغذات کی جانچ پڑتال کے لیے 13 جنوری کی تاریخ مقرر ہے۔مختلف سیاسی جماعتوں کے اعتراضات کے باوجود یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کا راستہ ہموار ہورہا ہے۔ قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے لیے اٹھائیں ہزار سے زائد امیدوار میدان میں اتر چکے ہیں۔ امیدواروں کی دلچسپی دیکھ کر بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ملک میں انتخابات کا ماحول بن گیا ہے۔انتخابات کے انعقاد کے بارے میں شکوک و شبہات ابھی تک قائم ہیں۔ سب سے اہم نکتہ امن و امان کا ہے،دہشت گردی کے پے در پے واقعات کے باوجود انتخابات کی تیاریاں تیزی سے جاری ہیں۔امیدواروں کے کاغذات نامزدگی کی چھان بین اور منظوری کا عمل مکمل ہونے کے ساتھ ہی ملک بھر میں نارمل، انتہائی حساس اور حساس پولنگ اسٹیشنوں کی درجہ بندی بھی مکمل کرلی گئی۔ ذرائع کے مطابق ملک بھر میں قائم پولنگ اسٹیشنوں کو اے، بی اور سی کیٹگری میں تقسیم کر دیا ہے جس کے تحت پورے ملک کے ساڑھے 92 ہز ار پولنگ اسٹیشنوں میں سے ساڑھے 42 ہز ار کو نارمل، 32 ہزار 508 کو حساس اور ساڑھے 17 ہزار سے زائد کو انتہائی حساس قرار دیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں کی کیمروں سے نگرانی کا فیصلہ کیا ہے۔ بدامنی کے خدشات کے پیش نظر ملک بھر میں 17ہزار 500 سے زائد انتہائی حساس پولنگ اسٹیشنوں پر سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جائیں گے جن سے پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹنگ، گنتی اور نتائج کی تیاری کی نگرانی بھی ہوگی۔پاک فوج نے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کو مطلوبہ اور ضروری تعاون فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پر امن الیکشن کے انعقاد کے لیے مجموعی طور پر 6 لاکھ اہلکارمانگے ہیں۔

الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے لیے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے نامزد امیدواروں کا ڈیٹا جاری کر دیا۔1024 اُمیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد اور 6 ہزار449 کے منظور کیے گئے ،پاکستان تحریک انصاف کے380 امیدواروں کے کاغذات مسترد ہوئے۔ُی ٹی آئینے کاغذات نامزدگی مسترد کرنے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کرنے کا اعلان کر دیا۔پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کی جانب سے بائیکاٹ کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا انتخابات کے بائیکاٹ کا کوئی ارادہ نہیں،کچھ بھی ہوجائے الیکشن میں بھرپور حصہ لیں گے۔ انتخابی عمل پر جس جماعت کو سب سے زیادہ اعتراضات ہیں وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) ہے جس کے بانی عمران خان سمیت380 امیدواروںکے کاغذاتِ نامزدگی مسترد ہوگئے ہیں۔ عمران خان نے لاہور اور میانوالی سے کاغذاتِ نامزدگی جمع کرائے تھے اور ان دونوں شہروں سے ان کے کاغذات مسترد ہوگئے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے رہنما میاں نصیر نے لاہور کے حلقہ این اے 122 سے عمران خان کے کاغذات نامزدگی پر اعتراض کیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کے تجویزکنندہ اور تائیدکنندہ این اے 122 سے نہیں ہیں اور وہ توشہ خانہ کیس میں نا اہل بھی ہیں اس لیے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ریٹرننگ آفیسر (آر او) نے دو روز پہلے کاغذاتِ نامزدگی پر اعتراض پر فیصلہ سنایا۔ آر او کے مطابق، عمران خان سزا یافتہ ہیں۔ اسی طرح این اے 89 میانوالی سے بھی بانی پی ٹی آئی کے کاغذاتِ نامزدگی سزا یافتہ اور نااہل ہونے کی بنیاد پر مسترد ہوئے۔ اب ان کی جگہ این اے 89 سے کورنگ امیدوار لامیا نیازی الیکشن لڑ سکیں گی۔

قبل از انتخابات سیاسی انجینئرنگ کے کھیل نے الیکشن کو پہلے ہی بہت حد تک متنازع بنا دیا ہے۔انتظامی افسروں کو ریٹرننگ اور ڈپٹی ریٹرننگ آفیسر مقرر کرنے کے بعد انتخابات کی شفافیت اور غیر جانب داری کا عقدہ بھی کھل چکا ہے ۔ الیکشن کا ہونا اہم ضرور ہے مگر اس سے بھی زیادہ اہم ان کی شفافیت ہوتی ہے۔ یہ امر اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے تاکہ انتخابی عمل سے نہ صرف انتخابی ساکھ بلکہ سیاسی اور جمہوری نظام کی ساکھ بھی بحال ہو اور ملک سیاسی و معاشی استحکام کی طرف بڑھ سکے۔تاہم اب تک اگر دیکھا جائے تو نگران حکومتیں اپنی شفافیت قائم نہیں کرسکی ہیں۔ محض پی ٹی آئی نہیںبلکہ پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی سمیت کئی فریقین نگرانوں کی شفافیت پر سوالات اٹھا رہے ہیں ، ا نتظامی افسران تو ہر لحاظ سے ماتحت رہتے ہیں اور وہ یقینی طور پر انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہوں گے۔تحریک انصاف تو کھڈے لائن لگے گی ہی، باقی جماعتیں بھی اپنی خیر منائیں۔ البتہ مسلم لیگ( ن)، استحکام پاکستان پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی وغیرہ کے لیے میدان صاف ہوگا۔ایم کیو ایم پاکستان، جمعیت علماءاسلام، عوامی نیشنل پارٹی بھی اسٹیبلشمنٹ کے اس سیاہ کھیل کا حصہ ہیں۔بلوچستان کے قوم پرستوں کے سروں پر نواز لیگ اور بلوچستان عوامی پارٹی حاوی رکھی جا ئیں گی۔ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج کچھ بھی ہوں اور کسی کو بھی اقتدار ملے ،ایک بات واضح ہے کہ ملک میں انتخابات کا یہ عمل سیاسی اور معاشی استحکام کا سبب نہیں بن سکے گا۔ ان انتخابات کے نتیجے میں ایک کمزور، لاچار اور بے بس حکومت بنے گی جس کے ہاتھ پیر بندھے ہوں گے، اس کے پاس بڑے فیصلوں کی طاقت نہیں ہوگی اور حکومتی اکثریت بھی چند اتحادی جماعتوں کی مرہونِ منت ہوگی۔

establishment k siyasi stage par jhamhuri kathputli tamasha

انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے تین سطحوں پر کام ہوتا ہے ۔اول پری پول، دوئم الیکشن ڈے اور شفاف نتائج کو یقینی بنانا، سوئم حکومتی تشکیل کے لیے پوسٹ پول مراحل۔ ہماری انتخابی تاریخ میں ہمیشہ سے پری پول رگنگ کے معاملا ت کو برتری حاصل رہی ہے، اس امر کا خاتمہ کیسے ممکن ہوسکے گا؟کیونکہ ابھی تک کے جو حالات ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو انتخابات سے پہلے جس انداز میں نئی سیاسی جماعتیں تشکیل دی گئی ہیں یا ایک جماعت مسلم لیگ (ن) کو سہولت دی جارہی ہے، یا ایک جماعت میں موجود لوگوں کو اپنی جماعت چھوڑنے پر مجبور کیا جارہا ہے، یا انتخابی عمل میں شرکت سے روکا جارہا ہے تو ایسے میں انتخابات کی شفافیت پر یقیناً سوالات اٹھیں گے۔ خاص طور پر ہمارے ہاں انتخابات کے تناظر میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بھی بہت سے سوالات اٹھتے ہیں، اور اگر انتخابات کا عمل شفاف نہیں ہوتا تو تنقید کا ایک بڑا پہلو ہمیں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کی صورت میں نظر آتا ہے۔ دوسری طرف ہماری انتخابی روایت یہ رہی ہے کہ یہاں سیاسی جماعتیں انتخاب ہارنے کے بعد انتخابی نتائج کو قبول نہیں کرتیں اور انتخابی دھاندلی پر سیاسی میدان حکومت مخالف ایجنڈے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ دوسرا اگر ہم کو انتخابات کی شفافیت کو یقینی نہیں بنانا تو پھر یہ ساری سیاسی اور جمہوری مشق بے معنی بن کر رہ جائے گی۔ اس لیے موجودہ حالات میں انتخابات کی شفافیت ہمارا بنیادی اور ترجیحی مسئلہ ہونا چاہیے، اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پاکستان کا سیاسی بحران مزید بڑھے گا۔

پاکستان کی سیاست مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کا کھیل بن چکی ہے، لیکن جب تک منتخب سیاسی اداروں کو آئین کے مطابق بالادستی حاصل نہیں ہوگی۔ پاکستان میں سیاسی استحکام قائم نہیں ہوسکتا۔ ہر سطح پر اس بات کا ادراک ہونے کے باوجود سیاسی اداروں کی بالادستی قائم نہیں ہوسکی ہے۔ انتخابات میں دھاندلی سے لے کر سیاسی انجینئرنگ اور ہارس ٹریڈنگ کی گندگی تک سارے مسائل کے ذمے دار اسٹیبلشمنٹ ہے۔ جس طرح موجودہ انتخابات سے قبل جو کھیل کھیلا گیا ہے اس نے انتخابات اور اس کی ساکھ مشکوک کردی ہے بلکہ یہ انتخابات پہلی بار انتہائی جبر کے ماحول میں ہورہے ہیں۔ گزشتہ دنوں میں پی ٹی آئی کے اندرونی انتخابات (انٹرا پارٹی الیکشن) پر اٹھنے والے الیکشن کمیشن کے سوالات اوراس کی روشنی میں بلے کا انتخابی نشان واپس لینے کا اقدام اس کی قیادت نے پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کردیاجہاں جسٹس کامران حیات میاں خیل پر مشتمل سنگل بینچ نے سماعت کے بعدتین صفحات پر مشتمل حکم نامے میں انٹرا پارٹی الیکشن کالعدم قرار دینے اور بلے کا نشان واپس لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کردیااور فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ رٹ پٹیشن کو موسم سرما کی تعطیلات کے بعد ڈویڑن بینچ کے سامنے سماعت کیلئے رکھا جائیگا۔عدالتی حکم نامے میں الیکشن کمیشن کو پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ ویب سائٹ پر ڈالنے اور انتخابی نشان بحال کرنے کی بھی ہدایت کی گئی۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ سیاسی جماعت کو انتخابی نشان سے محروم کرنا اس کے ووٹروں کی حق تلفی ہے ،اگر پارٹی سے انتخابی نشان واپس لے لیا جائے تو پھر کیا رہ جاتا ہے۔پشاور ہائی کورٹ کی جانب سے الیکشن کمیشن کے فیصلے کی معطلی ایک ریلیف ہے۔ اس کے باوجود کیا تمام جماعتوں کو آزادی سے انتخابات میں حصہ لینے کا موقع حاصل رہے گا؟ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔تحریک انصاف کو پہلے اسٹیبلشمنٹ نے مقبول بنانے کے لیے بڑی جدو جہد کی ،اس کو اقتدار دلایا اب پی ٹی آئی کو دیوار سے لگا دیا گیا ہے۔حالانکہ الیکشن کمیشن نے حکم جاری کیا ہے کہ تحریک انصاف سمیت کسی سیاسی جماعت کے امیدوار کو الیکشن لڑنے کے حق سے محروم نہ کیا جائے ،اپنے حکم نامے میں الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کو لیول پلیئنگ فیلڈ مہیا کی جائے تاکہ وہ آزادی سے انتخابات میں حصہ لے سکیں۔

establishment k siyasi stage par jhamhuri kathputli tamasha

ہماری انتخابی تاریخ سیاسی انجینئرنگ کے کھیل سے بھری پڑی ہے۔ لیکن اس بار کھیل میں کئی نئے پہلوسامنے آئے ہیں۔ اس وقت ہم بطور قوم اور صحافی پری پول رگنگ (قبل الز پولنگ، دھاندلی)کے مراحل دیکھ رہے ہیں، جبکہ انتخابات کے دن اور ان کے نتائج کے بعد حکومت سازی کے مراحل میں جو کھیل کھیلا جائے گا وہ بھی سب کو دیکھنے کو ملے گا۔ لیکن پری پول رگنگ کے عمل نے پورے انتخابی عمل کو ہی مشکوک بنادیا ہے۔ پہلے تو انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کو واضح پیغام دے دیا گیا تھا کہ ان کے لیے کوئی سیاسی راستہ موجود نہیں، اور جو لوگ بھی پی ٹی آئی سے وابستہ ہیں وہ کوئی نئی سیاسی جماعت تلاش کرلیں، اور اس کی تلاش میں ان کو کسی مشکل کا سامنا ہے تو اس میں بھی ان کو سہولت دینے کا پورا منصوبہ تیار کیا گیا۔ اس منصوبے کے تحت ہی پنجاب میں جہانگیر ترین اور علیم خان کی قیادت میں استحکام پاکستان پارٹی اور کے پی کے میں پرویز خٹک کی قیادت میں پی ٹی آئی پارلیمنٹرین نامی سیاسی جماعتیں تشکیل دی گئیں اور پی ٹی آئی کے لوگوں کو صاف طور پر پیغام دیا گیا کہ وہ ان جماعتوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرکے پی ٹی آئی اور عمران خان سے دست برداری کا فیصلہ کرلیں، یہی عمل ان کے لیے سودمند ہوگا۔ دوسری جانب انتخابات کے شیڈول کے بعد جو منظر ہم نے پنجاب میں کاغذاتِ نامزدگی کے دوران دیکھا وہ یقینی طور پر خوفناک تھا،پی ٹی آئی کے وہ امیدوار جو انتخاب لڑنا چاہتے ہیں یا ان کے گھر والے (جن میں عورتیں بھی شامل ہیں) اپنے بیٹوں، خاوند اور بھائیوں یا والدین کے کاغذات جمع کروانا چاہتے تھے ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا، گرفتار کیا گیا، ڈرایا اور دھمکایا گیا، کاغذات چھینے گئے یا الیکشن کمیشن کے عملے نے کاغذات ہی وصول کرنے سے انکار کردیا، یا وہ کمرہ چھوڑ کر چلے گئے، اور جس انداز سے سفیدکپڑوں میں ملبوس پولیس اہلکاروں نے امیدواروں اور ان کے گھر والوں کو ہراساں کیا وہ واقعی قابل مذمت ہے۔ بالخصوص ریاستی مشینری، الیکشن کمیشن کے عملے، نگران حکومت اور پولیس کا رویہ انتہائی قابل مذمت ہے۔ جس نے بھی یہ حکمت عملی ترتیب دی ہے۔وہ خود ریاست کے لیے جگ ہنسائی کا سبب بنا ہے۔کیونکہ پورے ریاستی نظام کو خاصی سبکی کا سامنا کرنا پڑا، اور اس معاملے میں سپریم کورٹ کو بھی مداخلت کرنا پڑی، اور اس کے فیصلے کے باوجود پی ٹی آئی کے بہت لوگوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ کاغذاتِ نامزدگی جمع کرانے کے دوران جو حکمت عملی اختیار کی گئی اس سے تو پورا انتخابی عمل ہی مشکوک ہوگیا ہے۔

اگر پی ٹی آئی کو بلے کا نشان نہیں ملتا تو اس کے نتیجے میں ا ±س کے حمایت یافتہ تمام امیدوار آزاد سطح پر الیکشن لڑیں گے اور ان کا انتخابی نشان ایک نہیں بلکہ ہر ایک کا مختلف ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ اگر پی ٹی آئی کو بلے کے نشان پر عدالتوں سے بھی ریلیف نہیں ملتا تو کیا وہ کسی چھوٹی جماعت کے ساتھ الحاق کرکے اس کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑے گی۔ اس وقت ایک کوشش یہ بھی ہورہی ہے کہ پی ٹی آئی کو اس حد تک دباﺅ میں رکھا جائے یا اسے سیاسی طور پر زچ کیا جائے کہ وہ ان انتخابات کے بائیکاٹ کا ہی اعلان کردے تاکہ نوازشریف کی سیاسی مشکل کم ہوجائے۔ کیونکہ نوازشریف اپنی سیاسی ”قبولیت“ کے باوجود عملی طور پر سیاسی میدان میں مقبولیت کے بحران کا شکار ہیں۔ محض نوازشریف ہی نہیں بلکہ عمران خان مخالف تمام سیاسی جماعتیں جو کچھ پی ٹی آئی کے ساتھ ہورہا ہے اس پر خاموش ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ پی ٹی آئی یا اس کے ووٹرز پر جتنا دباﺅ ہوگا اس کا سیاسی فائدہ اس وقت ان کو ہی ہوگا، اور عمران خان کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بنیادی طور پر کوشش یہ کی جارہی ہے کہ پی ٹی آئی انتخابی مہم بھی آزادانہ طور پر نہ چلا سکے اور اس کے امیدواروں پر خوف اور دباﺅ ہو،کیونکہ اس کے بیشتر امیدواروں پر سیاسی مقدمات ہیں، اگر وہ سامنے آتے ہیں تو ان کو گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اسی وجہ سے پی ٹی آئی نے کئی وکلا کو بھی سیاسی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ ان کو اس جبر کا مقابلہ کیا جا سکےجو اس کے رہنماﺅں اور کارکنوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ اگلے مرحلے میں جہاں امیدواروں کو گرفتار کیا جاسکتا ہے وہیں ووٹرز کی سطح پر بھی یہی منصوبہ ہے کہ لوگوں میں خوف وہراس پیدا کیا جائے تاکہ وہ ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن نہ آئیں اور گھر پر ہی بیٹھیں اس لیے اس بات کی بھی کوشش ہے کہ انتخابات کا جوش وخروش قائم نہ ہوسکے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ پری پول رگنگ کے معاملات میں سرفہرست پنجاب ہے۔ پنجاب کی پوری بیوروکریسی، نگران حکومت، وفاقی نگران حکومت اور انتظامیہ اور اس کی بیوروکریسی مسلم لیگ (ن) کی حمایت میں متحد نظر آتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے والوں پر خصوصی توجہ یا ان کو پروٹوکول دیا جارہا ہے۔ اس وجہ سے پیپلزپارٹی بھی نالاں نظر آتی ہے۔ اس پورے کھیل میں ہمیں الیکشن کمیشن کا کردار سب سے خراب ہے۔

اس کا اعتراف سپریم کورٹ کے ججوں نے بھی کیا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر پوری انتظامی مشینری نوازشریف کی عملی سہولت کاری میں کردار ادا کررہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ انتخابات قوم کے ساتھ ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں کیونکہ طے کر لیا گیا ہے کہ انتخابات کے نام پر اپنی مرضی اور پسند کے افراد اور جماعتوں کو سامنے لانا ہے۔ اس سارے مصنوعی انتخابی سیاسی ڈرامے کی طاقتور اور فیصلہ کن ادارے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟کیا یہ عمل سے سیاسی اور معاشی استحکام حاصل ہوسکے گا؟ یا اس وقت سیاست میں جو گہری تقسیم اور نفرت کا کھیل نمایاں نظر آرہا ہے اس میں کوئی کمی آسکے گی؟ اس وقت تو ایسا لگتا ہے کہ بہ حالت مجبوری انتخابات کی طرف بڑھا جارہا ہے، کیونکہ عالمی دباﺅ ہے کہ انتخابات کا راستہ اختیار کرکے نظام کو جمہوریت کی چھتری کے نیچے لانا ہے۔ اسی بنیاد پر انتخابات کا کھیل سجایا جارہا ہے، لیکن اس کھیل کے نتائج کے حصول میں کئی محاذوں پر مشکلات کا سامنا ہے۔ انتخابات کا یہ عمل پاکستان ایک بحران کی طرف دھکیل رہا ہے۔ اس وقت ہمارے سیاسی، جمہوری، آئینی، قانونی، معاشی، سیکورٹی، داخلی وخارجی حالات ہیں وہ اس بات کا تقاضا کرتے تھے کہ ہمیں ایک مضبوط سیاسی نظام کی طرف بڑھنا چاہیے۔ انتخابات کا راستہ اسی بنیاد پر اختیار کیا جاتا ہے کہ ہم سیاسی تلخیوں کو بھول کر نئے مینڈیٹ کے ساتھ نئی سیاسی قیادت کا انتخاب کریں۔ نئی قیادت جس کے پاس پانچ برس کا واضح مینڈیٹ ہو اور وہ اس کو بنیاد بناکر سیاسی سطح پر جو تلخیاں ہیں ان کو کم کرکے سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف پیش رفت کرے۔ کیونکہ انتخابات اور نئی حکومت کی مدد سے ہم عالمی سطح پر بھی دنیا کا اعتماد اور بالخصوص عالمی اداروں کا اعتمادبھی حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان نئے حالات میں نئی حکمت عملی کے تحت درست سمت میں پیش قدمی کررہا ہے۔

اس وقت ہمیں سیاسی و معاشی استحکام کے لیے سیاسی تلخیوں کو کم کرکے سب کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنا تھا، مگر اب ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی کی حمایت اور مخالفت میں اورسیاسی دشمنی کا یہ کھیل کسی موجودہ حالات سے زیادہ برے حالات کی طرف دھکیلے گا۔سیاسی حالات کتنے سنگین ہیں اس کا اندازہ صرف بلوچ خواتین کے احتجاجی مارچ کا تربت سے اسلام آباد پہنچنا ہے۔ پرامن احتجاج کرنے والی مظلوم بلوچ خواتین کے ساتھ ظالمانہ سلوک سیاسی عدم استحکام کے سبب کی چغلی کھا رہا ہے۔ یہ مظلوم بلوچ خواتین وہ ہیں جن کے باپ، بیٹے یا بھائی جبری گمشدگی کا شکار ہو کر لاپتا کردیے گئے ہیں۔ لاپتا افراد کا مطلب یہ ہے کہ پولیس اور عسکری ادارے ماورائے آئین پاکستان کے شہریوں کو بغیر عدالت میں پیش کیے اپنی حراست میں یا تعذیب خانوں میں رکھتے ہیں، ان پر تشدد کرتے ہیں انہیں ماورائے عدالت قتل کرکے ان کی لاش کہیں پھینک دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے اور صرف بلوچستان کا مسئلہ نہیں ہے لیکن مقتدر ادارے بلوچوں کو مفتوحہ دشمن علاقے کا باشندہ سمجھتے ہیں۔ ایسے واقعات کے نتیجے میں انتخابات کے ذریعے بھی کس طرح یقین کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں عادلانہ اور منصفانہ طرزِ حکومت ہے۔ آئین و قانون کی پاس داری تو سب کے لیے ہونی چاہیے۔ ملک میں قانونی مساوات اور یکساں انصاف کا کلچر ہی ہماری قومی بقا اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔

establishment k siyasi stage par jhamhuri kathputli tamasha

پاکستان کی سیاسی تاریخ یہ ہے کہ اس کے قیام کی مدت کا نصف حصہ براہ راست فوجی مارشل لا کے اقتدار میں گزرا ہے۔ باقی عرصے میں عسکری اداروں پر سیاسی بالادستی قائم نہیں ہوسکی اور یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المیہ ریاست کے اداروں کے حقوق و فرائض اور اختیار کا تعین دستور کرتا ہے۔ آزادی کے اعلامیے میں برطانیہ نے اقتدار دستور ساز اسمبلی کے سپرد کیا، دستور کی تیاری کے بعد ڈومینین اسٹیٹس سے آزادی حاصل ہوجائے گی اور پاکستان ایک خود مختار ریاست ہوگا۔ المیہ یہ ہوا کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح بہت جلد وفات پا گئے اور پہلے وزیراعظم اور قائد کے دست راست لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں پراسرار طاقتوں نے شہید کردیا۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ لیاقت علی خان راولپنڈی کے جلسے میں دستور کے متعلق کوئی اعلان کرنے والے تھے۔ اس سے قبل دستور ساز اسمبلی نے قرارداد مقاصد منظور کرلی تھی جس میں ملت اسلامیہ پاکستان کے نمائندہ ادارے دستور ساز اسمبلی نے اعلان کردیا تھا کہ اقتدار اعلیٰ ربّ کائنات کو حاصل ہے۔ جس کی نیابت عوام کو حاصل ہے جو اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعے حکومت کریں گے۔ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد برطانوی نوآبادی کے وارثوں نے سازش شروع کردی اور حکومتوں کے گرانے اور بنانے کا کھیل شروع ہوگیا۔ اس دوران بھی سیاسی قیادت نے 1956ءمیں دستور نافذ کردیا، لیکن اس کے مطابق عام انتخابات کی نوبت آنے سے قبل ہی انگریزی نوآبادیات کے وارثوں بیوروکریسی اور فوجی جنرلوں کے ایک گروہ نے جس کی سربراہی بیوروکریسی کے غلام محمد اور اسکندر مرزا، فوج کی نمائندگی جنرل ایوب خان کررہے تھے۔ دستور ساز اسمبلی کو تحلیل اور وزیراعظم خواجہ ناظم الدین کو برطرف کردیا۔ دستور ساز اسمبلی کی برطرفی کے خلاف اس وقت کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان درخواست لے کر عدلیہ کے روبرو گئے۔

لیکن اس وقت کے عدلیہ کے سربراہ جسٹس منیر نے عدلیہ کو بھی اسی سازشی ٹولے میں شامل کردیا اور حکومت کے اختیارات غصب کرنے کے لیے نظریہ ضرورت کا ہتھیار جابروں کے حوالے کردیا۔ اس دن پاکستان میں سیاسی اداروں پر عسکری ادارے کی بالادستی کا آغاز ہوا۔ حالانکہ ہر فوجی اپنی ملازمت کا آغاز کرنے سے پہلے دستور سے وفاداری کا حلف ا ±ٹھاتا ہے اور اس بات کا بھی عہد کرتا ہے کہ وہ سیاسی امور میں مداخلت نہیں کرے گا لیکن تقریباً ہر فوجی سربراہ نے اپنے عہد کو توڑا ہے۔ سیاسی امور میں مداخلت کی ہے یہاں تک کہ دستور کو منسوخ کیا، یا معطل کیا، یا اپنی سیاسی ضروریات کے تحت اس میں ترمیم و اضافہ کیا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں آئین اور دستور کی بالادستی قائم نہیں ہوسکی اور اس کا آغاز پہلے فوجی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان نے 56ءکے دستور کو توڑ کر کیا۔ جنرل ایوب خان نے 1962ءمیں اپنا دستور بنایا لیکن ان کے جانشین جنرل یحییٰ خان نے بھی اپنے پیش رو جنرل کے دستور کو منسوخ کردیا اور نئی دستور ساز اسمبلی کے لیے پہلی بار بالغ رائے دہی کے ذریعے نئے انتخابات کا اعلان کردیا۔ وہ بھی اس بارے میں سنجیدہ نہیں تھے کہ پاکستان کا نظام حکمرانی دستور کے مطابق قائم ہو۔ دستور کی عدم موجودگی اور فوجی آمریت سقوط مشرقی پاکستان کا سبب بن گئی۔ آج ہم 1973ءکے دستور کے تحت قومی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن 1973ئکے متفقہ دستور کی تشکیل کے بعد بھی ہماری تاریخ بہت المناک ہے۔ پہلے بااختیار سیاسی حکمران ذوالفقار علی بھٹو نے دستور کی تشکیل کے بعد بنیادی حقوق کی شقیں معطل کردیں۔ دستور میں اپنی ذاتی مصلحتوں کے تحت ترمیم کا اختیار لینے کے لیے انتخابات میں دھاندلی کا راستہ اختیار کیا، حالانکہ وہ بلاشرکت غیرے ایک مقبول سیاسی رہنما تھے، انتخابات میں ان کی جماعت کی کامیابی نوشتہ دیوار تھی، لیکن مکمل اختیار کی خواہش ان کے زوال کا سبب بن گئی اور ملک ایک بار پھر فوجی مارشل لا کے شکنجے میں آگیا۔ اس کے بعد سے پاکستان کی سیاست غیر منتخب اداروں کا کھیل بن گئی ہے۔

بدقسمتی سے پاکستان میں جرنیل ہر طرح کے احتساب سے بلند ہیں۔ دنیا میں کئی ملکوں کی افواج ہیں جنہوں نے اپنی قوموں کی جنگ آزادی لڑ کر ملک میں مرکزیت حاصل کی ہے۔ ترکی کی فوج نے ملک کی جنگ آزادی لڑی ہے۔ چناں چہ ترکی میں فوج بالادست ہے تو یہ بات غلط ہونے کے باوجود سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن تحریک پاکستان کے وقت کوئی ملک ہی نہیں تھا چناں چہ پاکستان کی کوئی فوج بھی نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جرنیلوں یا فوج کا ملک کی تحریک آزادی میں کوئی کردار نہیں اس کے باوجود پاکستانی جرنیل پورے ملک پر قابض ہوگئے ہیں۔ ملک کی سیاست ان کے قبضے میں ہے۔ خارجہ پالیسی ان کے قبضے میں ہے۔ داخلہ پالیسی ان کے قبضے میں ہے۔ معیشت ان کے قبضے میں ہے۔ عدالتیں ان کے قبضے میں ہیں۔ ذرائع ابلاغ ان کے قبضے میں ہیں۔ پاکستان پر جرنیلوں کا یہ قبضہ دیکھ کر خیال ہوتا ہے کہ پاکستان جرنیلوں کی بیگمات کو جہیز میں ملا ہے۔ چناں چہ جرنیل اسی وجہ سے پاکستان کے مالک ہیں۔پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا اور اسے اسلام کا قلعہ بننا تھا پاک سرزمین پر اللہ کی حاکمیت قائم ہونا تھی مگر جرنیلوں نے ملک کے نظریے سے غداری کرتے ہوئے پاکستان پر اپنی حاکمیت قائم کی۔جرنیلوں کی آمریت نے پاکستان کو چوں چوں کا مربہ بنادیا۔ پاکستان نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم، ہم ا ±دھر کے رہے نہ اِدھر کے رہے کی ٹھوس مثال ہے۔جرنیلوں ، ججوں ، سیاست دانوں ، بیوروکریٹس اور میڈیا مالکان کے گٹھ جوڑ کی وجہ سے ملک کے معاشی حالات اتنے خراب ہیں کہ تقریباً ملک کی آدھی آبادی خط غربت سے نیچے پڑی ہے۔ جن لوگوں کے پاس باضابطہ روزگار ہے ان کی کمر ہوش ربا مہنگائی نے توڑ دی ہے۔ پاکستانی جرنیل اگر بھارت فتح کرتے یا کم سے کم کشمیر ہی بھارت سے چھین لیتے تو ان کی بالادستی قابل فہم ہوتی۔ مگر جرنیلوں نے تو اس کے برعکس آدھا ملک ہی گنوا دیا۔ 1971ءکے بحران میں پورا ملک جرنیلوں کے ہاتھ میں تھا۔

شیخ مجیب جرنیلوں کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات جیت چکے تھے، چناں چہ اقتدار ان کے حوالے کردیا جانا چاہیے تھا مگر جرنیل ملک و قوم کی تقدیر سے کھیلتے رہے۔ چناں چہ انہوں نے اقتدار اکثریتی پارٹی کو دینے کے بجائے پاکستان بنانے والے بنگالیوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کردیا۔ اس بحران میں فوجی آپریشن کرنے والے جنرل نیازی کا دماغ اس حد تک خراب کیا کہ انہوں نے اعلان کیا کہ ہم بنگالی عورتوں کا اس بڑے پیمانے پر ریپ کریں گے کہ بنگالیوں کی نسل بدل کر رہ جائے گی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد حکومت پاکستان نے جو حمودالرحمن کمیشن بنایا اس نے جنرل یحییٰ سمیت چھے اعلیٰ فوجی افسروں کے کورٹ مارشل کی سفارش کی مگر بدقسمتی سے کسی کا بھی کورٹ مارشل نہ ہوسکا اور جرنیل ملک توڑ کر بھی احتساب سے بالا تر رہے۔بدقسمتی سے جرنیلوں نے پاکستان کے پورے سیاسی نظام کو مذاق بنادیا ہے۔ انتخابات ہوتے ہیں تو جعلی، پوری قوم کو پہلے ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ اس بار کون سی جماعت فتح یاب ہوگی اور کون ملک کا وزیراعظم بنے گا۔ حد تو یہ ہے کہ جرنیل بلدیاتی اداروں کی سطح کی سیاست کو کنٹرول کررہے ہیں۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کو اکثریت حاصل تھی مگر خفیہ اداروں نے مرتضیٰ وہاب کو شہر پر میئر کی حیثیت سے مسلط کردیا۔بدقسمتی سے ملک کی پوری سیاسی قیادت پر بھی جرنیلوں کی مہر لگی ہوئی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جنرل ایوب کے پروردہ تھے اور وہ جنرل ایوب کو ڈیڈی کہا کرتے تھے۔ میاں نواز شریف خود جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی کی تخلیق ہیں۔ الطاف حسین کو بھی جنرل ضیا الحق نے الطاف حسین بنایا۔ عمران خان بھی جرنیلوں کا لگایا ہوا پودا تھے۔ ملک کے سارے الیکٹیبلز جرنیلوں کی مٹھی میں ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو صرف جرنیلوں ہی کا نہیں ان کے سیاسی ایجنٹوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ اس کے بغیر پاکستان کو ”اسلامی پاکستان“ کیا ”ترقی یافتہ پاکستان“ بھی نہیں بنایا جاسکتا۔قومی سیاسی بحران عروج پر ہے اس بات پر تقریباً اتفاق ہوگیا ہے کہ پاکستان کے سیاسی بحران اور ناکام طرز حکمرانی اور عوام کے حالات کی خرابی کا سبب سیاسی اداروں پر عسکری ادارے کی بالادستی اور سیاسی امور میں مداخلت ہے۔ جو دستور اور آئین کے خلاف ہے۔ اس بات پر بھی رائے عامہ میں اتفاق پایا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی قیادت اور سیاسی امور میں مداخلت کرتی ہے۔ عدالتوں کے اکثر سیاسی فیصلے اسٹیبلشمنٹ کے دباﺅکے تحت ہوتے ہیں۔ جو آئین اور قانون کے خلاف ہیں۔ پاکستان کا آئین توڑنے والے جرنیلوں اورپی سی او کے تحت حلف اٹھانے والے ججوں کا احتساب کئے بغیر ملکی ترقی و خوشحالی اور آئین وقانون کی حکمرانی ممکن نہیں۔

محمد قیصر چوہان

سینئر صحافی،مصنف اورنیشنل وانٹرنیشنل امور،سپورٹس سمیت دیگر موضوعات پر لکھتے ہیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتے ہیں۔

محمد قیصر چوہان