سعودی عر ب اور چین سمیت دیگر دوست ممالک نے اسٹیبلشمنٹ کو پاکستان کی مالی امداد کا جو اشارہ دے رکھا ہے اس کےلئے شرط یہ باندھی گئی تھی کہ ایسا سیاسی چہرہ لایا جائے جو لانگ ٹرم معاشی پالیسی کی ضمانت دے۔اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ نے پھر سے ایک سیاسی اسٹیج سجا دیا ہے ،اسٹیبلشمنٹ کے سجائے اس سیاسی اسٹیج پر بھگوڑے میاںنواز شریف کی واپسی بڑی دھوم دھام سے ہو چکی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی اسٹیج پر کٹھ پتلی جمہورت کا رقص پھر سے شروع ہونے والا ہے ۔گزشتہ دنوں صدر مملکت عارف علوی نے اپنے اس انٹرویو میں کہا تھا کہ جنوری کے آخری ہفتے میں انتخابات کا یقین نہیں لیکن امید ہے کہ عدلیہ مزید ملتوی نہیں ہونے دے گی۔اس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 8 فروری 2024 کو ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا اعلان کردیا ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی تک ملک میں انتخابی فضا نہیں بن سکی اعلان کے مطابق انتخابات میں اب محض تین ماہ کا وقت باقی رہ گیا ہے مگر کوئی انتخابی گہما گہمی کہیں دکھائی نہیں دے رہی بلکہ اکثر سیاسی جماعتو ں کی طرف سے الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری اور انتخابات کے جنوری میں انعقاد سے متعلق خدشات اور شکایات سنائی دے رہی ہیں جن کا جواز اس لیے موجود ہے کہ الیکشن کمیشن کا ماضی کا کردار اور طرز عمل حکومتی اور مقتدر قوتوں کے آلہ کار کا رہا ہے۔
بدلتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے،کے مترادف اشتہاری مجرم نواز شریف 21 اکتوبر کووطن واپس آئے توسیدھا جیل جانے کے بجائے مینار پاکستان پہنچے اور مسلم لیگ (ن) کے جلسے سے خطاب کیا۔نواز شریف کوکل تک 10 سال کی سزا سنانے والا جج بشیر آج نواز شریف کی حفاظت کا ضامن بنچکا، دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ ”بقول شخصے نواز شریف نے جس عدالت کا کل تمسخر ا ±ڑایا تھا“، آج ا ±سی عدالت نے بلا حیل و حجت ضمانت دے دی ہے۔یہ پاکستانی ” انصاف “کے نظام کے منہ پر ذور دار طمانچہ کے مترادف ہے۔نوازشریف کی سیاسی واپسی کا اسٹیج بڑی دھوم سے سجایا گیا تھا۔ نوازشریف چار سال کے بعد واپس آئے۔ وہ علاج کرانے کے نام پر بیرونِ ملک بھجوائے گئے تھے، اور عدالت میں یقین دہانی کرائی گئی کہ جیسے ہی ان کے معالج نے تسلی کرائی کہ وہ سفر کے قابل ہیں وہ واپس آجائیں گے۔ ان کی وطن واپسی بتا رہی ہے کہ اپنے معالج کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی تسلی پر وطن واپس آئے ہیں۔فطری بات ہے کہ عمران خان کو سیاسی طور پر دیوار سے لگانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کو ایک بڑی سیاسی قیادت درکار تھی،2018 ءمیں یہ کھیل نوازشریف کی مخالفت اور عمران خان کی حمایت کیلئے کھیلا گیا تھا، اور اب 2023ءمیں عمران خان کی مخالفت اور نوازشریف کی حمایت کیلئے کھیلا جارہا ہے۔ کچھ نہیں بدلا بس کردار بدلے ہیں، کہانی وہی پرانی ہے، اور اسی بنیاد پر ہماری قومی سیاست کو آگے چلانے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ نوازشریف کی واپسی میں یقینی طور پر ڈیل کا پہلو نمایاں ہے جس کی جھلک ان کے استقبال کے انتظامی معاملات سمیت اسٹیبلشمنٹ اور نگران حکومت کی معاونت کی صورت میں دیکھی جاچکی ہے۔ میاں نواز شریف اب چونکہ شاہی مہمان تھے تو سرکار کے نمک خوار افسران نے سلوٹ مار کر اور ائرپورٹ پر ہی بائیو میٹرک سے مستقبل کے وزیر اعظم میاں نواز شریف کی تصدیق کا سامان کیا۔ ہیلی کاپٹر اپنے مہمان کو لے کر مینار پاکستان پر جا ا ±ترا تو وہاں جنت کے متمنی اور نواز شریف کے شیدائیوں نے استقبال کیا تو مریم نواز نے چمٹ کر اپنے والد کی وطن واپسی کا خیر مقدم کیا۔
اسٹیبلشمنٹ ایک بار پھر پاکستانی قوم بیانیے کی قیدی بنانے میں مصروف ہے ۔ ملک کے تمام ادارے ذرائع ابلاغ نام نہاد دانشور سب ایک پیج پر ہیں اور یہ پیج پاکستانی قوم کو دھوکا دینے والا پیج ہے۔ قوم کو ایک بار پھر بتایا جارہا ہے کہ تین مرتبہ ناکام ہونے والی شخصیت ملک کی معیشت کو سدھار دے گی، خوشحالی لائے گی اور وہ شخصیت میاں نواز شریف کی ہے۔ میاں نواز شریف کو جب پہلی مرتبہ لانچ کیا گیا تھا تو قوم کو یقین دلا دیا گیا تھا کہ اب اس کی مشکلات دور ہوجائیں گی۔ ملک کو چھوٹی برائی بڑی برائی کے بیانیے میں الجھا دیا گیا تھا۔ پھر ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں تین دفعہ یہ چھوٹی برائی اس ملک پر مسلط ہوئی اور بڑی سے بڑی برائی کو بھی پیچھے چھوڑ دیا گیا جسے بڑی برائی کہا جاتا تھا وہ پیپلز پارٹی تھی اس خطاب کو درست ثابت کرنے میں اس پارٹی کے بانی کے داماد آف زرداری نے بہت محنت کی اور قوم کو یقین دلا دیا گیا کہ وہ بڑی برائی اور مسلم لیگ چھوٹی برائی ہے۔ یہ کھیل کھیلنے والوں کی ذہنی سطح کا مشاہدہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ اس قسم کے جملے کہے جاتے تھے کہ نواز شریف کھاتا ہے لیکن ملک میں تو لگاتا ہے اور زرداری سب ملک سے باہر لے جاتا ہے یعنی قوم کو یہ بات ہضم کروادی گئی کہ قوم کی دولت کھانا جائز ہے۔بس جھگڑا ملک میلان اور باہر لے جانے کا ہے، دوچار کارخانے لگادو تو حلال ہوجائے گی اور سارا منافع خود ہی ہضم کرلو۔ پھر جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور جنرل پاشا کو تبدیلی سوجھی ۔چناں چہ قوم جو دو گروہوں کو پہلے ہی بدعنوان سمجھتی تھی اسے یقین دلا دیا گیا کہ عمران خان آکر سب سے جان چھڑا دے گا سارے چور جیلوں میں ہوں گے ملک خوشحال ہوجائے گا آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے گی پاکستانی پاسپورٹ کی عزت ہوگی، غرض جتنے خواب تھے دکھا دیے گئے لیکن جو چیز تیار کی گئی وہ ان دونوں گروہوں کے کرپٹ ترین لوگوں کو جمع کرکے تیار کی گئی لیکن سودا بیچنے والوں نے قوم کو یقین دلا دیا کہ یہی لوگ ملک کی قسمت بدل دیں گے۔
لیکن اسٹیبلشمنٹ کی یہ پیداوار جلد ہی اس ہی کی آنکھوں میں کھٹکنے لگی اور عمران خان نے بھی ثابت کیا کہ اب وہ ان دونوں قوتوں سے زیادہ اسٹیبلشمنٹ کے لئیے خطرناک ہیں اس کیلئے 9 مئی کرانا پڑا۔ اب میاں نواز شریف آئے تو انہوں نے بھی بڑے فخر سے کہا کہ ہم 28 مئی والے ہیں 9مئی والے نہیں۔ لیکن کیا یہ واقعہ ہے۔ پاکستان کی تاریخ ہمارے حکمرانوں کے مظالم آئین سے انحراف اور غیر قانونی اقدامات کی تاریخوں سے بھری پڑی ہے۔ 28 مئی کا دعویٰ کرنے۔ والوں نے واجپائی کا سرخ قالینوں سے استقبال کیا تھامیاں صاحب نے اپنے پورے سیاسی دور کے صرف ایک 28 مئی کا ذکر کیا، وہ سپریم کورٹ پر حملہ کرنے کی تاریخ 30 نومبر 1997ءکو بھول گئے، انہیں بتانا چاہیے تھا کہ ہم عدالت پر حملہ کرنے والے ہیں۔ 7 جون 2014ءکو ماڈل ٹاﺅن میں 14 لوگوں کے قتل کو بھول گئے، انہیں بتانا چاہیے تھا کہ ہم نہتے لوگوں پر فائرنگ کرنے والے ہیں۔ اس کو بھی چھوڑیں عدالت سے بددیانتی پر نااہل ہوئے کو کیوں بھول گئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ میاں صاحب کچھ نہیں بھولے افسوسناک امر یہ ہے کہ قوم ہی سب کچھ بھول جاتی ہے۔ اس میں خرابی اسٹیبلشمنٹ کی ہے یا ان سیاسی گروہوں کی یا پاکستانی قوم کی کہ وہ سب کچھ بھول جاتی ہے۔ آخر وہ بار بار ناکام ہونے والوں کو ملک کا نجات دہندہ کیوں تسلیم کرلیتی ہے۔ اب کہانیاں سنانے والوں سے شکوہ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ شکوہ تو اس قوم سے کیا جانا چاہیے کہ جو ہر بیانیے پر دل و جان سے فدا ہوجاتی ہے۔ ملک کے عدالتی نظام پر بھی کسی تبصرے کی ضرورت نہیں ۔ اس صورت حال پر تو بجا طور پر تبصرہ کیا گیا ہے کہ ملک کو نام نہاد انتخابات کے چکر میں کیوں ڈالا جائے۔ نگراں وزیراعظم کاکڑ سے استعفیٰ لے کر نواز شریف کو وزیراعظم بنادیا جائے اور کھیل ختم کیا جائے۔ پاکستانی قوم کو بکاﺅ میڈیا اور تمام اداروں نے یقین دلا دیا ہے کہ اب وہ خوشحالی کے راستے پر گامزن ہوجائے گی۔ اب سارے دلدر دور ہوجائیں گے لیکن جس روز میاں صاحب کی آمد ہوئی ہے اسی روز ان کے وزیر خزانہ اسحق ڈار نے اعلان کردیا ہے کہ معاشی حالات دو منٹ میں ٹھیک نہیں ہوں گے دس پندرہ سال لگیں گے۔ گویا ایجنڈا 15 سال کا ہے۔ بہرحال اب لوٹوں کے لڑھکنے کا موسم آرہا ہے اب پرانے کھلاڑیوں کے ذریعے نئی صف بندی ہورہی ہے اور قوم کو یقین ہو چلا ہے کہ مختلف پارٹیوں میں اور حکومتوں میں ناکام رہنے والے یہی لوگ ملک کو کامیاب بنائیں گے۔
اسٹیبلشمنٹ اپنے نئے سیاسی کرداروں کا انتخاب کررہی ہے۔ اس انتخاب کے بعد انتخابات کا سیاسی دربار بھی سجادیا جائے گا، اور ایک ایسی مخلوط حکومت بنانے کا کھیل نظر آرہا ہے جہاں طاقت کا مرکزحکومت نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہی ہوگی۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دیگر جماعتوں کی مدد یا اتحادی جماعتوں کی صورت میں حکومت تشکیل دی جائے گی۔ یہ حکومت مائنس ون ہوگی اور عمران خان کیلئے سیاسی راستے بند کیے جارہے ہیں۔ عمران خان کی جماعت کو بھی مکمل آزادی کے ساتھ انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یعنی پی ٹی آئی کے ہاتھ پیر باندھ کر انتخابات، اور انتخابی نتائج کے بعد حکومت کی تشکیل ظاہر کرتی ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کا کھیل پہلے کی طرف آج بھی جاری ہے۔ یہ فیصلہ کہ حکومت کس کی بنے گی ووٹرز نہیں کریں گے، بلکہ اسٹیبلشمنٹ ہی یہ طے کرے گی، اور عوام اس میں محض ایک دکھاوا ہوں گے۔ البتہ اس کھیل کا ایک مرکزی نکتہ پنجاب کا سیاسی میدان ہے۔ کیونکہ پنجاب کو ہی فیصلہ کرنا ہے کہ طاقت کا مرکز سیاسی طور پر کس کے پاس ہوگا۔ نوازشریف خود کو جہاں وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں وہیں ان کی کوشش ہوگی ان کی بیٹی مریم نواز کو پنجاب کی وزیراعلیٰ کے طور پر قبول کرلیا جائے۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ اس کھیل میں کیا ماضی کی طرح مرکز اور پنجاب بیک وقت مسلم لیگ (ن) کو ہی ملیں گے، یا یہاں کچھ اور ماڈل بناکر نوازشریف کو بھی کمزور رکھا جائے گا۔اس بار پیپلزپارٹی مرکز میں اپوزیشن کا کردار ادا کرتی نظر آ رہی ہے۔
اگرچہ نوازشریف نے اعلان کیا ہے کہ وہ پیپلزپارٹی سمیت پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں کو ساتھ ملا کر سیاست کریں گے، لیکن کیا ایسا کچھ ممکن ہوسکے گا؟ یا پیپلزپارٹی کوئی نیا کھیل سجائے گی؟ نوازشریف عملی طور پر پنجاب کی سیاست سے کسی بھی صورت دست بردار ہونے کیلئے تیار نہیں، اور اگر ا ±ن کو لگا کہ ا ±ن کی جماعت کے مقابلے میں کسی اور کو پنجاب کا اقتدار دینے کا کوئی بھی منصوبہ زیرغور ہے تو وہ پھر کس حد تک اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کھڑیں رہیںگے یہ خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں سیاسی ڈیل کے بعد نوازشریف کے سیاسی آپشن کم ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں کی جانب سے جو بھی سیاسی سہولت مل رہی ہے اس کی وجہ اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان موجود دوری ہے۔ نوازشریف اس بات پر بھی خوش ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو ہر صورت دیوار سے لگانا چاہتی ہے۔ سائفر کے معاملے پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی پر فردِ جرم عائد ہونا نوازشریف کے حق میں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سائفر کو بنیاد بناکر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی نااہلی کا منصوبہ آخری مراحل میں ہے۔مولانا فضل الرحمٰن کو اس بات کا بھی گلہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے ان کے مقابلے میں پرویز خٹک کو بھی کھڑا کردیا ہے۔
حالانکہ وہ چاہتے تھے کہ پی ٹی آئی کے منحرف ارکان کو جے یو آئی میں شامل کیا جاتا تاکہ ان کی سیاست کو مضبوطی مل سکتی۔ مگر لگتا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کو بھی کھل کھیلنے نہ دینے کی حکمت عملی کا حصہ ہے ،سب سے بڑی خبر یا پریشانی نئی نویلی جماعتوں جہانگیر ترین کی استحکام پاکستان پارٹی اور پی ٹی آئی پارلیمنٹرین پرویز خٹک کی ہے۔ انہیںلگتا ہے کہ ان کوعمران خان کی مخالفت میں سیاسی میدان میں تو اتار دیا گیا ہے مگر ہمان کیلئے جو سیاسی دربار سجانا تھا وہ ابھی تک نہیں سجایا گیا، بلکہ ان کے مقابلے میں اس وقت بھی توجہ کا مرکز نوازشریف ہی ہیں۔ استحکام پاکستان پارٹی کے بہت سے قریبی لوگوں کا موقف ہے کہ انہیں بلاوجہ اس جماعت کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے جبکہ حالت یہ ہے کہ ان کے پاس سوائے عمران خان کی مخالفت کے اور کچھ بھی نہیں ہے۔ یہی کیفیت خیبر پختون خوا کی سطح پر پرویز خٹک کی بھی ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ تنہا خیبر پختون خوا کی سطح پر عمران خان کی مقبولیت کو کم نہیں کرسکیں گے۔ ایم کیو ایم بھی کراچی اور حیدرآباد کی سطح پر اپنا کھویا ہوا مینڈیٹ اسٹیبلشمنٹ سے مانگ رہی ہے اور چاہتی ہے کہ کراچی کے اقتدار کا سہرا اسی کے سر پر دوبارہ سجایا جائے۔
اسٹیبلشمنٹ کے گملے میں اُگنے والے سیاست دانوں نے ایک بار پھر سے کٹھ پتلی تماشے کی تیاری شروع کردی ہے۔پاکستان میں ایک بار پھر سے ”دجال“ کے نظام ’جمہوریت“ کو مسلط کرنے کی تیاریاں کی جا رہیں ہیں۔حالانکہ کہتے ہیں کہ پاکستان کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کیا گیا ہے ۔اگر واقعی ایسا ہے تو پھر ”دجال“ کے نظام ’جمہوریت“ کی بجائے پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم ہونی چاہیے کیونکہ جمہوریت دراصل انسانوں کی اپنے جیسے انسانوں پر حاکمیت کا نام ہے جس میں ظاہری اور تقابلی اکثریت کی بنا پر بعض انسانوں کو اپنے جیسے دوسرے انسانوں پر اپنے قانون چلانے کا حق مل جاتا ہے۔ جبکہ اسلام انسانوں کی بجائے اللہ کی حاکمیت کا نام ہے جس میں تمام انسان اپنے خالق کی عطا کردہ شریعت کے سامنے مطیع وفرماں بردار ہوتے ہیں۔ اگر جمہوریت میں حاکمیت کے اس تصور کو دیکھا جائے تو وہاں انسانوں کا حاکم اعلیٰ اُصولی طورپر باز پرس سے بالا تصور کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی جمہوریتوں میں جمہوری سربراہوں اوربعض اوقات صدر جمہوریہ کو قانونی باز پرس سے استنثا کا اُصولی استحقاق حاصل ہوتا ہے جبکہ پاکستان کے اسلامی جمہوری نظام میں قانون سے بالاتر ہونے کا یہ استحقاق صدر کے ساتھ صوبائی گورنروں کو بھی حاصل ہے جسے دستور پاکستان کی دفعہ 248 ب میں بیان کیاگیا ہے۔ دوسری طرف اسلام کے سیاسی نظام ’خلافت‘ کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں اللہ کے احکام سے بالاہونے کا معمولی سا استحقاق بھی کسی کو حاصل نہیں۔ جمہوریت میں یہ حق کسی بھی ریاست کے اعلیٰ ترین عہدے کو حاصل ہے اور ریاست کے مختلف صوبوں کے گورنر حضرات کو بھی جبکہ اسلام میں خلیفہ راشد بھی اس استحقاق یعنی شرع سے بالاتری تو کجا، شریعت کی باز پرس سے بھی اپنے آپ کو بالا قرار نہیں دے سکتا۔
”جمہوریت‘ ‘ پوری دنیا میں دجال کا نظام رائج کرنے کے مشن پر گامزن تنظیموں فری میسن ،الومیناتی اور کمیٹی آف 300 کی اصطلاح ہے ،جو دوسری جنگ عظیم کے بعد متعارف کرائی گئی۔ جبکہ دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، جس میں بیت الخلاءجانے اور آنے سے لے کر دنیا کی امامت و قیادت تک کے اسلوب و آداب تفصیل سے سکھائے گئے ہیں۔ بدقسمتی سے آج اسلام کو بازیچہ اطفال بنا لیا گیا ہے۔ اس نام پر سیاست بھی ہو تی ہے اور اقتدار کے مزے بھی لوٹے جاتے ہیں، تاہم دین اسلام کے ساتھ اخلاص دکھائی نہیں دیتا جو انتہائی افسوس ناک ہے۔پاکستان کے تمام حکمران 76 برسوں کے دوران ملک میں اسلامی نظام حکومت قائم کرنے میں ناکام رہے۔ پاکستان میں جمہوریت، آمریت، صدارتی نظام، بار بار مارشل لاء، اسلامی سوشلزم، روشن خیالی، سب سے پہلے پاکستان اور ریاست مدینہ کا نام لے کر اس ریاست کے نام کی توہین کی گئی، پاکستان میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے تمام حکمرانوں نے اسلام کا راستہ روکا ہے۔ ملک میںسارے نظام آزمائے جاچکے اور سب ناکام ہوچکے۔پاکستان کا ایک ایک نظام ایک ایک ادارہ عالمی سازش کے تحت تباہ کردیا گیا ہے۔یہ سارا کام اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ ہی کرسکتے ہیں جو دنیا میں کہیں بھی اسلام کو نافذ ہوتا نہیں دیکھنا چاہتا۔دنیا میں واحد فلسفہ حیات اسلام ہی ہے جو انفرادی و اجتماعی فلاح و بہبود کا نظام عطا کر تا ہے جس میں حکمران و عوام سب کے سب اپنے خالق و مالک کے بندے ہیں اور سب ہی اللہ تعالی اور اللہ تعالیٰ کے آخری رسول حضرت محمدکے احکامات کے پابند ہیں۔ اسلام میں اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے جو سب کا خالق و مالک ہے۔ ملک اسی کا اور حق حکمرانی بھی اسی کو حاصل ہے۔ اہل ایمان میں سے جو صاحبان اختیار ہوں وہ اللہ کی نیابت کر تے ہیں، عوام اہل ایمان کو کتاب وسنت کے مطابق چلانے کے پابند اور سب سے پہلے خود عملی طور پر اس نظام کے مظہر ہونے چاہئیں۔
قرآن مجید کی آیت کریمہ کے مفہوم کی روشنی میں اللہ تعالیٰ واضح طور پر ارشاد فرما تا ہے کہ ”پوری کائنات کی بادشاہی صرف اللہ تعالی ہی کی ہے وہ جسے چاہے بہ طور اپنے نائب یا خلیفہ کے عطا فرما دے اور جسے چاہے محروم کر دے۔ یعنی یہ سب اسی کے اختیار میں ہے۔ اسی کے اختیار میں تمام تر بھلائی ہے یعنی جو قومیں اس کے قرآن اور پیغمبر اسلام کی اطاعت کر تی ہیں، انہیں دنیا کی سر فرازی اور آخرت کی فلاح و کام رانی عطا فرما دیتا ہے، جبکہ رُوگردانی کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے اس لیے کہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔“ آج اگر ہم امن، چین، سکون، عدل، انصاف حقوق انسانی اور تعمیر و ترقی کے خواہش مند ہیں تو پھر ہمیں اسی طرف رجوع کرنا ہوگا ،جس کا حکم اللہ تعالی نے اپنی کتاب قرآن حکیم میں دیا۔
عمران خان جب وزیر اعظم تھے تو وہ اپنے پسندیدہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے ساتھ ساتھ سینہ تان کر انھیں ”ڈیموکریٹ جنرل“ کہتے نہ تھکتے تھے۔ اور ایسے ہی ان کے فالوورز نے سوشل میڈیا پر فوج کی جمہوریت نوازی کے جھنڈے گاڑ رکھے تھے۔ اب یہ جماعت اس دور کو اپنا ”زمانہ جاہلیت“ کہتی ہے۔ اور کہتے ہیں کہ اب ہمیں سمجھ آئی ہے کہ سسٹم کیا ہوتا ہے؟ خدا کرے سیاست میں سرگرم عناصر کو سیاسی سوجھ بوجھ آجائے، ورنہ تو کل تک اسٹیبلشمنٹ کو للکارنے والے تو آج انھیں کے کندھوں پر بیٹھ کر اپنا قد اونچا کیے کھڑے ہیں۔
ہمارے باشعور نوجوانوں کیلئے پاکستانی سیاسی تاریخ کا سبق یہ ہے کہ اس ملک میں جاری سیاسی عمل موقع پرستی کے گرد گھومتا ہے۔ یہاں کچھ طبقے ہیں‘ جو حسبِ موقع ساری صورتِ حال کو اپنی گرفت میں رکھتے ہیں۔ اس کیلئے سیاست دانوں، مذہبی رہنماو ¿ں اور حکمرانوں کا گٹھ جوڑ بھی کروادیا جاتا ہے،جمہوریت کا ڈھونگ رچانے کیلئے الیکشن بھی کروا دیے جاتے ہیں، غریب عوام کے بجائے یہ طبقے اپنے مفادات کیلئے قانون سازی اور آئینی ترامیم بھی کرواتے رہتے ہیں۔ نظام کی تبدیلی کے بجائے عوام کو لنگرخانوں اور جان کی قیمت پر آٹے کے تھیلوں پر ٹرخایا جاتا ہے۔ ان سیاست دانوں کی اولادیں اربوں پتی، جبکہ ایک عام آدمی کے بچے پیدائشی آئی ایم ایف کے مقروض پیدا ہوتے ہیں۔ہمارا ملکی نظام آج تک کسی مثبت ا ±صول کا پابندنہیںبلکہ یہ کچھ مخصوص طبقوں کے مفادات، عوام دشمنی، مفاد پرستی اور موقع پرستی کی بنیادوں پرکھڑا ہے۔ آج کے باشعور نوجوانوں کواس نظام کی چھتری تلے قائم سیاسی نظام کے گھن چکر کا حصہ بننے کے بجائے مستقل بنیادوں پر تبدیلی نظام کی شعوری جدوجہد کے طریقوں کو اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ اپنانا ہوگا۔ ورنہ یہ کھیل تو قیامِ ملک سے لے کر تقسیم ملک سے ہوتا ہوا زوال کی طرف تیزی سے جاری ہے۔ اور اندیشہ ہے کہ موجودہ سیاسی بحران کا ڈراپ سین ملک کی رہی سہی توانائی کو بھی نچوڑ کے نہ رکھ دے۔لہٰذا پاکستان کی نوجوان نسل پاکستان میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت قائم کرنے کیلئے جدوجہد کرے ،کیونکہ پاکستان کی ترقی وخوشحالی جمہوریت میں نہیں بلکہ سود سے پاک اسلامی نظام ،جس میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیت ہو ،اس نظام میں پوشیدہ ہے۔