تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (نواں حصہ)

aurangzeb alamgir ki siyasi soojh boojh part 9
  • واضح رہے
  • اپریل 20, 2021
  • 4:33 شام

ہند میں قدیم بسنے والے اقوام کی ذہنیت کچھ عجیب سی نظر آتی ہے۔ ان میں ضد، مکاری اور خود غرضی کا پہلو بے حد نمایاں ہے

پوری تاریخ قدیم زمانے سے ایسے ہی حالات پر پھیلی ہوئی نظر آتی ہے۔ تاریخ قدیم سے ہی برہمنوں نے صرف خود کو ہندو جانا اور مانا۔ جبکہ ہندوؤں کے دیگر فرقوں کو اپنے سے کم تر سمجھتے ہوئے ذلیل تصور کیا۔

اس ذہنیت کے نتیجے میں ہندوؤں کی طرف سے پہلی شورش ست نامیوں کی شورش ہے، جسے بغاوت کا نام اس وجہ سے نہیں دیا جاسکتا کہ یہ شورش کسی سوچی سمجھی اسکیم کے تحت نہیں کی گئی تھی بلکہ مسلمانوں سے نفرت اور تنفر کی زیادتی اور وقتی اشتعال انگیز جذبہ کے تحت وقوع پذیر ہوئی اور یہ ایک وقتی حادثہ تھا جو شورش کی شکل اختیار کر گیا۔

ست نامی ایک گروہ کا نام ہے جو ہندوستان کے بالائی علاقوں کے رہنے والے تھے۔ بعد میں یہ لوگ تتر بتر ہوکر ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جاکر آباد ہوگئے اور ان کی ایک بڑی تعداد نارنول کے علاقے میں بس گئی تھی، ان کی حالت عجیب و غریب تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (آٹھواں حصہ)

یہ لوگ انتہائی گندے اور انواع و اقسام کی برائیوں میں مبتلا تھے۔ سفلی جادو ٹونہ ان میں عام تھا اور ذہنی طور سے شرپسند واقع ہوئے تھے۔

پاکی اور گندگی میں فرق میں ان میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا تھا، وہ کتے اور سور کو کاٹ کر کھانا پسند کرتے تھے۔ جادو ٹونہ ان کا مذہب تھا۔ یہ لوگ کبھی کبھی کاشتکاری بھی کر لیتے تھے۔

۱۶۷۲ء میں جب عالمگیر شمالی مغربی سرحدی صوبہ میں پٹھانوں کی شورش کو ختم کرکے واپس آرہا تھا اور حسن ابدال میں مقیم تھا۔ اس پر موقع پر نارنول میں ایک ست نامی کاشتکار اور ایک پیادہ فوجی سے جو کھیت کی نگہبانی کر رہا تھا، میں جھگڑا ہوگیا۔

نتیجتاً فوجی کے ہاتھوں سے اس ست نامی کا سر پھٹ گیا، ست نامیوں کی ایک جماعت جو چند ست نامیوں پر مشتمل تھی انہوں نے سپاہی کو اس قدر مارا کہ وہ ادھموا ہوگیا۔ اس واقعہ کا جب شقدار کو علم ہوا تو اس نے چند پیادوں کو اس جماعت کی گرفتاری کیلئے روانہ کیا، لیکن ان پیادوں کو بھی ان لوگوں نے بُری طرح مارا پیٹا اور ان سے ان کے ہتھیار وغیرہ بھی چھین لئے اور پھر وہ جتھوں کی صورت جمع ہونا شروع ہوگئے اور ان کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی اور یہ ہزاروں تک پہنچ گئے۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پانچواں حصہ)

ست نامیوں کی تعداد بڑھتے بڑھتے پانچ ہزار ہوگئی اور نارنول میں انہوں نے افراتفری مچانا شروع کردی۔ طاہر خاں فوجدار نے جب طاقت مقاومت نہ دیکھی تو عالمگیر کے پاس چلا گیا۔

اس سے پہلے کہ شاہی افواج نارنول پہنچتیں علاقے میں ان لوگوں نے بُری طرح تباہی مچا دی اور بقول جادو ناتھ سرکار ’’مساجد کو شہید کردیا اور اپنا انتظام قائم کیا۔‘‘ کسانوں اور کاشت کاروں سے مالیہ اور ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا۔

مقامی ہندو زمین داروں اور راجپوتوں نے بھی ان کا بھر پور ساتھ دینا شروع کردیا اور حکومت کو ما بعد اور دیگر ٹیکس دینے سے انکار کردیا۔ جادو ناتھ سرکار کی تحریر کے مطابق یہ بغاوت مذہبی حیثیت حاصل کرگئی اور خود اورنگزیب عالمگیر پر حملہ کرکے اس کو قتل کرنے کی سازش اور ہندوؤں کی آزادی کی جنگ میں تبدیل ہوگئی۔

واضح رہے کہ اس تمام صورتحال کے بننے تک عالمگیر حسن ابدال میں موجود تھا اور اس کی فوج چند ہزار سے زیادہ نہ تھی۔ لہٰذا اس نے کمال مہارت سے حالات کو سنبھالنے کی کوشش کی اور ایسا کوئی اقدام نہ اٹھایا کہ جس سے ہندوستان کے دیگر علاقوں یا راجاؤں پر ست نامیوں کی ابھرتی ہوئی تحریک کا اثر ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (دوسرا حصہ)

بہرحال طاہر خان فوجدار کے دہلی پہنچتے ہی عالمگیر نے، جو خود بھی اب دہلی پہنچ چکا تھا۔ ۱۵ مارچ ۱۶۷۳ء میں رعد انداز خاں کو فوج اور توپ خانہ کے ساتھ آگے روانہ کردیا، اس کے بعد حامد خاں کو خاص چوکی کی ایک جماعت کے پانچ سو گھڑ سواروں کے ساتھ اسفند یار بخشی اور دیگر مغل افسران کو شہزادہ اکبر کی قیادت میں ست نامیوں کی سرکوبی کیلئے روانہ کیا۔

خونزیر تصادم کے بعد مغل سپاہیوں نے ست نامیوں کو شکست فاش سے دوچار کیا۔ جس میں رعد انداز خاں، حامد خاں اور یحییٰ خاں نے اپنی بے مثال بہادری اور شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ ست نامیوں کا پورا کا پورا لشکر تباہ ہوگیا۔

بقول ایسر داس ناگران۔۔۔۔۔ ان میں سے دو ہزار قتل کر دیئے گئے، بیس ہزار کو گرفتار کرکے ماواء النہر (ایرانی علاقہ) بھیج دیا گیا، جہاں بطور غلام فروخت کر دیئے گئے۔ ان کے قبضے سے دو کروڑ روپیہ بھی برآمد ہوا۔ ان میں سے چند ہی ایسے افراد تھے جو بمشکل اپنی جان بچانے یا گرفتاری سے بچنے میں کامیاب ہوسکے۔

قابل فہم امر یہ ہے کہ ست نامیوں کی یہ شورش/ تحریک اگر کامیاب ہوجاتی تو جانبدار تاریخ دان اسے ہندوستان میں ہندوؤں کی آزادی کی جنگ کا نام دے دیتے، جسے اورنگزیب عالمگیر نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا اور بڑی دانشمندی سے ست نامیوں کے مقابلے پر درست وقت پر افواج روانہ کیں۔ یوں ست نامیوں کی شورش ان ہندوؤں کی خصلت کا جو ان کے فساد زدہ ذہنوں کا حصہ تھی، پہلا اور آخری باب تھا جو حصول اقتدار کی حسرت لئے بند ہوگیا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پہلا حصہ)

ست نامیوں کی اس شورش سے پہلے ۱۶۶۹ء یعنی اس صورتحال سے تین برس پہلے جاٹوں نے بھی حکومت کے خلاف ایک شورش بپا کی تھی اور یہ گوکلا چند جاٹ کی سرکردگی میں دسمبر کے مہینے میں ہوئی تھی۔ اس شورش کا مرکز پٹنہ تھا، جہاں کے فوجدار عبدالنبی کو جاٹوں نے دھوکہ سے قتل کردیا تھا۔

چنانچہ مغل فوجی کمانڈر حسن علی خاں نے شیخ رضی الدین پیشکار کے ساتھ مل کر گوکلا جاٹ پر حملہ کردیا اور اس کو اس کے تمام ساز و سامان سمیت تباہ کردیا۔ اسے شاہی دربار میں موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ یوں جاٹوں کی شورش کو بھی مغلوں نے نہایت سختی سے کچل دیا تھا۔

۱۶۸۸ء میں جب عالمگیر دکن کی مہم میں مصروف تھا تو پٹنہ میں راجہ رام نے چُپکے چُپکے لوٹ مار کرنا شروع کردی لیکن اس بغاوت کا حشر بھی وہی ہوا جو گوکلا جاٹ کا ہوا تھا، راجہ رام بھی ایک جھڑپ میں قتل کر دیا گیا۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے