تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (دوسرا حصہ)

aurangzeb alamgir ki siyasi soojh boojh part 5
  • واضح رہے
  • فروری 16, 2021
  • 11:25 شام

ہندوؤں کے سازشی عناصر نے اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں بھی سر اٹھایا، جسے اس نے کمال حکمتِ عملی سے کچل کر رکھ دیا تھا

ملک میں امن کیلئے محی الدین محمد (عالمگیر) نے مغل پالیسیوں کو جاری رکھا۔ جیسا کہ اکبر نے سلطنت مغلیہ کی بنیادوں کو استوار کرنے اور ہندوستان میں امن وامان برقرار رکھنے کیلئے جو کچھ چاہا وہ سب کچھ کیا۔ راجپوتوں کو راجپوتوں سے لڑوایا بھی اور تباہ بھی انہی کے ہاتھوں سے کرایا اور نہایت عقلمندی سے ‘‘تقسیم کرو اور حکومت کرو’’ فارمولے کا استعمال کیا۔

اورنگزیب عالمگیر کو بھی سلطنت کا استحکام دیگر بادشاہوں کی طرح کرنا تھا اور یہ استحکام امن و امان ہی کے ذریعے ممکن تھا۔ اس نے اپنے عہد میں جو کچھ کیا اس کی سیاسی بصیرت اور حکمت عملی پر مبنی تھا اور اس طرح وہ ہند کی مختلف ذاتوں، فرقوں اور درجنوں ہی نہیں سینکڑوں مذہب میں بٹی ہوئی رعایا پر 50 سال کامیابی سے حکومت کر گیا۔

البتہ اورنگزیب کی حکومت کے 12ویں سال میں ہندوؤں نے اپنی بہ طینیتی کا مظاہرہ کرنا شروع کیا، جو وہ صدیوں سے مختلف مسلمان بادشاہوں کے ادوار میں کرتے چلے آرہے تھے۔ عالمگیر کے ابتدائی دور میں ہندوؤں نے دارا کی ناکامی کے بعد جس تحریک کو شروع کیا وہ ہندو مت کا پرچار تھی۔ یہ تحریک دارا سلطنت سے دور دراز علاقوں میں ایک تحریک کے طور پر شروع کی گئی۔ اس کا زیادہ تر زور ٹھٹھہ ملتان اور بنارس میں تھا۔ اورنگزیب کی حکومت کا بارہواں سال تھا کہ بادشاہ کو پتا لگا کہ ہندو اپنے مذہب کا پرچار ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کر رہے ہیں۔

Aurangzeb Alamgir ki siyasi soojh boojh part 2

بادشاہ کو بتایا گیا کہ صوبہ ٹھٹھہ ملتان بالخصوص بنارس میں بطالت نشان برہمن مدارس میں استاد کی حیثیت سے اشتعال پیدا کر رہے ہیں۔ ان علاقوں میں چرواہے اور دیگر طالبان دور دور کی مسافت طے کر کے ان علوم کو سیکھنے کے لئے آرہے ہیں اور انسانوں کے ان گروہ کو وہ گمراہ کر رہے ہیں چنانچہ احکام اسلام کل صوبہ جات کے ناظمین کو صادر ہوئے اور ہندوؤں کی اس تحریک کو سختی سے کچل دیا گیا۔

کیونکہ اس کے پس پردہ حکومت وقت کے خلاف سازش تھی اور یہ اس وجہ سے اور ہوا کہ اورنگزیب نے عام طور سے عوام کو اور خاص طور سے غیر مسلموں کو مکمل طور سے اپنے مذہبی امور کی بجا آوری کی مکمل اجازت دی ہوئی تھی۔ چنانچہ جب ان کو وہ آزادی مل گئی جو شاہ جہاں کے عہد میں مفقود تھی انہوں نے مغل حکومت کے خلاف اپنی عبادت گاہوں کو سازش کے اڈوں میں تبدیل کردیا۔ یہ آزادی ان کو اکبر کے دور میں بھی نہ دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پہلا حصہ)

عالمگیر نے جب ان کو کھل کر یہ آزادی دی اور وہ بھی تقریباً سو سال کے بعد ان کو نصیب ہوئی تھی تو سب سے پہلے انہوں نے حکومت وقت کو ہی اپنی ان سازشوں کا شکار بنانے کی کوشش کی اور ان کی عبادت گاہیں حکومت وقت کے خلاف بغاوتوں کی آماجگاہ بن کر رہ گئیں۔ جب بادشاہ کو ہندوؤں کی اس سازش کا علم ہوا تو اس نے حکماً انہیں عبادت گاہوں میں داخل ہونے سے روک دیا۔

اس عہد کے مشہور منادر مثلاً متھرا میں کیشو رائے کا مندر، بنارس میں ویشوناتھ کا مندر اور سومناتھ میں دیگر منادر تھے، جو عبادت گاہ تو بالکل نہ تھے بلکہ سازشوں کے اڈے اور بادشاہ کے جاسوسوں کی پہنچ سے دور سلطنت کی تباہی کے فتنہ ان جگہوں پر جنم لے رہے تھے، لہٰذا ان کو ختم کرنے کیلئے عالمگیر نے بذات خود قدم اٹھایا اور ایسی عبادت گاہیں مکمل طور سے بند کرنے کا حکم دیا گیا۔

متھرا کے مندر کیشو رائے کے متعلق جو تاریخی شواہد ملتے ہیں اس میں اس مندر کی تباہی کی ایک پوری کہانی ہے۔ فتوحات عالمگیری میں اس مندر کے انہدام کے سلسلے میں شہادت موجود ہے۔ فتوحات کی تحریر کے مطابق یہ مندر بیر سنگھ بندیلہ نے متھرا میں تعمیر کرایا تھا اور اورنگزیب کے حکم پر اسے گرایا گیا۔

(جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے