تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پہلا حصہ)

Aurangzeb Alamgir ki siyasi soojh boojh part 4
  • واضح رہے
  • فروری 13, 2021
  • 9:48 شام

محی الدین محمد (اورنگزیب عالمگیر) کے دور میں سابقہ مغلیہ ادوار کے برخلاف ایک مندر بھی نہیں گرایا گیا اور ہندو راجکماریوں کو اپنے حرم کی زینت بھی بنایا

پورے مغل دور میں صرف تین بادشاہ ایسے گزرے ہیں جو پیدائشی سپاہی جنرل اور سپہ سالار کی حیثیت سے پہچانے جاسکتے ہیں، ان میں پہلا ظہیر الدین بابر، دوسرا شہاب الدین شاہ جہاں اور تیسرا محی الدین (اورنگزیب عالمگیر) تھا۔

تاریخ ہند میں ایسے تاریخ سازوں کی کمی نہیں جنہوں نے تعصب اور ذہنی بے راہ روی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حقیقت حال کو بالائے طاق رکھا اور ایسے عجیب و غریب واقعات کی اختراع کی جس کا سچائی سے کوئی لینا دینا نہ تھا۔ انہوں نے اورنگزیب عالمگیر کو مغلیہ سلطنت کا زبردستی ذمہ دار ٹھہرایا اور اس پر عیاش، رنگین مزاج اور ظالم ہونے جیسی طرح طرح کی تہمتیں لگائیں، جن کا عالمگیر سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ تھا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ اورنگزیب عالمگیر نے مغلیہ سلطنت کی بہت سی خرابیوں کو دور کیا اور اسلامی نظریات کو فروغ دے کر موسیقی، سرکاری طور پر مصوری، جھک کر تسلیمات کی بجا آوری سمیت کئی ایسے کاموں کو ممنوع قرار دیا، جو اسلامی اور اخلاقی اقدار کے خلاف تھے۔ اسی کی بدولت درباری ماحول میں بادشاہ کی بے جا خوشامد کے رحجانات میں واضح کمی آئی۔

Aurangzeb Alamgir ki siyasi soojh boojh part 1

عالمگیر کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب یہ بھی تھا کہ اس سے پہلے تمام مغل حکمراں اپنے امرا کی مدد سے تخت نشین ہوتے رہے تھے، مگر عالمگیر واحد مغل حکمران تھا جس نے جو کچھ بھی کامیابی حاصل کی وہ اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور اپنے زورِ بازو کے بل بوتے پر حاصل کی اور کبھی بھی کسی بھی امیر کی مدد یا اعانت کا زیر بار نہ رہا۔

اورنگزیب اپنے والد شاہ جہاں کے دیئے ہوئے لقب عالمگیر سے یکم رمضان المبارک 1069ھ مطابق 13 مئی 1568ء کو برسر آرائی سلطنت ہوا اور 1707ء تک تقریباً پچاس سال تک حکومت کرتا رہا۔ حکومت کے دوران ہی اس کی مملکت کی سرحدیں چاروں طرف پھیلنا شروع ہوگئیں۔

کشمیر سے لے کر راس کماری تک اور کابل سے لے کر آسام تک وہ ایک وسیع و عریض مملکت کا سربراہ رہا۔ اس وسیع سلطنت میں سوائے جنوبی علاقوں یعنی دکن کے پورے ملک میں امن و امان کی فضا قائم رہی۔ ایک بوڑھے شخص کا جب کہ وہ ادھیڑ عمر میں تخت نشین ہوا تھا اتنی بڑی عمر تک اتنے بڑے وسیع اور عریض خطہ میں تنہا حکومت کرنا ہی اس کی عظمت و شوکت کی دلیل ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اورنگزیب کے پورے عہد میں کوئی علاقہ سلطنت مغلیہ سے الگ نہیں ہوا۔ فتوحات مسلسل جاری رہیں اور سلطنت کی وسعتیں پھیلتی چلی گئیں اور اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ یہاں تک کہ ہند کی پوری تاریخ میں کسی بھی بادشاہ نے اتنی وسیع وعریض سلطنت پر اتنے طویل عرصے تک حکمرانی نہیں کی۔

جن پالیسیوں کی وجہ سے مورخین اپنی اپن  ذہنی استعداد کے مطابق عالمگیر کو سلطنت مغلیہ کے زوال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں اس میں اس کا ہندوؤں کے ساتھ سلوک، مرہٹوں کے ساتھ تعلقات، سکھ اور راجپوتوں کے ساتھ روابط اور دکن کی پالیسی وغیرہ شامل ہے۔

پہلا الزام عالمگیر پر یہ لگایا جاتا ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ اس کا سلوک بہتر نہ تھا اور اپنی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی وفاداریوں کو دشمنیوں میں تبدیل کرلیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اورنگزیب کی پالیسی اپنے پیشرو بادشاہوں سے بالکل مختلف تھی۔

Aurangzeb Alamgir ki siyasi soojh boojh part 1

وقتاً فوقتاً عالمگیر کی سات بیویوں میں سے پانچ ہندو تھیں۔ اس کے عہد میں مشہور راجپوت خاندان سسودیہ راجپوتوں کے اس غرور کو بھی توڑ دیا گیا کہ وه مغل حرم میں اپنی کسی راجکماری کو نہیں دیتے تھے۔ اسی خاندان کی ایک راجکماری سے اورنگ زیب نے شادی کی اور اسے اودھے پوری محل کا خطاب دیا۔ اس کے دور میں ایک بھی مندر نہیں کرایا گیا۔

اس کے برعکس اگر اکبر کے دورِ حکومت کا سرسری جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس نے اپنے دور میں کسی بھی مندر کو بنانے کی اجازت ہی نہیں دی۔ ہندوؤں سے سختی کے معاملے میں جہانگیر اور شاه جہاں، اکبر سے بھی ایک قدم آگے تھے۔ ان دونوں کے ادوار حکومت میں اول تو مندر بنانے کی اجازت ہی نہیں دی گئی اور اگر دی گئی تو کسی سیاسی مسئلہ کے تحت ایک دو مندروں کی تعمیر ہوئی۔

اس کے بر خلاف کئی سو منادر کو، جو زیادہ تر سیاسی گٹھ جوڑ اور حکومت کے خلاف ایک اڈہ بن چکے تھے، ڈھوا کر زمین کے برابر کر دیا گیا۔ شاہ جہاں کی ہندو پالیسی اپنے تمام پیشرو اور اپنے بعد آنے والے بادشاہوں سے زیادہ منفی نوعیت کی تھی۔ اس نے خود کو ہمیشہ ہندوؤں سے دور رکھا اور کبھی انہیں منہ نہیں لگایا، نہ خود کسی ہندو عورت سے پوری زندگی شادی کی اور نہ ہی کسی ہندو لونڈی کو اپنے حرم کی زینت بنایا۔

یہی نہیں، شاہ جہان نے مغلیہ دور کی اس رسم کو بھی توڑ دیا کہ اپنے کسی شہزادے کی پہلی شادی کسی بھی ہندو راجکماری سے نہیں کرائی، حالانکہ اکبر کے زمانے سے ہی دستور سا بن گیا تھا کہ شہزادوں کی پہلی شادی عموماً کسی راجکماری کی جاتی تھی۔ اس کے دور میں انگنت مندروں کو گرایا گیا اور اپنے دور میں کسی بھی ہندو امیر کو ہفت ہزاری کا کوئی عہدہ نہیں دیا۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے