تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (آٹھواں حصہ)

aurangzeb alamgir ki siyasi soojh boojh part 8
  • واضح رہے
  • اپریل 10, 2021
  • 12:38 صبح

تاریخ نویسوں کے مطابق مغلوں کی جگہ اگر ہندوستان میں ہندوؤں کی حکومت ہوتی تو سکھ ان کے ساتھ بھی وہی کرتے جو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کیا

جیسا کہ گزشتہ قسط میں تحریر کیا جاچکا کہ گرو ہر رائے نے اپنے لڑکے رام رائے کو شاہی دربار میں بھیج دیا تھا، لیکن جب گرو کا انتقال ہوا تو رام رائے کی غیر حاضری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کی سوتیلی ماں کرشن کور نے اپنے لڑکے ہر کشن کو، جس کی عمر محض 5 برس تھی، گرو بنوا دیا۔

اس انتخاب کو رام رائے نے تسلیم نہ کیا۔ معاملہ اورنگزیب کے سامنے پیش ہوا۔ بادشاہ نے سکھوں کی دلگیری کیلئے اکثریت کا خیال رکھتے ہوئے ہر کرشن کو گرو بنانے کی منظوری دی۔ اس پر بھی رام رائے نے احتجاج کیا۔ اورنگزیب نے اس کی خواہشات کا بھی احترام کیا اور اسے وادیٔ دون میں ایک جاگیر دی، جس میں دھامہ والی، چامہ ساری ترتاوالی، پنڈت واڑی، گھڑ بڑا، سیان والا اور راج پور سات گاؤں شامل تھے۔ یہاں استھان تعمیر کرایا گیا، جس کی وجہ سے وادیٔ دون کو آج ڈیرہ دون کہا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (ساتواں حصہ)

دونوں سوتیلے بھائیوں میں آپسی چپقلش پھر بھی جاری رہی۔ بڑے بھائی رام رائے کی ضد پر بادشاہ نے ہرکشن کو دہلی آکر ملاقات کرنے کی دعوت دی، تاکہ تنازع کو حل کیا جاسکے۔ تاہم قسمت کو یہ منظور نہ تھا، گرو ہر کشن اور عالمگیر کی ملاقات نہ ہوسکی۔گرو دہلی آنے کے بعد چیچک میں مبتلا ہوکر 1664 میں موت کے منہ میں چلے گئے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب سکھ مذہب ہندوستان میں کم و بیش تمام علاقوں میں پھیل چکا تھا۔ اس دور میں شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جہاں سکھوں کے گوردوارے نہ ہوں اور چیلے بڑی تعداد میں موجود نہ رہتے ہوں۔بہرحال گرو ہر کشن کی موت کے بعد سکھوں میں پھر جھگڑا شروع ہوگیا۔ سکھوں کی اکثریت نے گرو ہر گوبند کے چھوٹے لڑکے تیغ بہادر کو گرو بنا دیا۔ تیغ بہادر کے خلاف بھی رام رائے نے احتجاج شروع کردیا اور جب مخالفت زیادہ بڑھ گئی تو تیغ بہادر اپنے کنبے کو لے کر ایک لمبے سفر پر روانہ ہوگئے تاکہ وہ سکھ مذہب کی پرچار دیگر علاقوں میں بھی کرسکیں۔

رام رائے کی ریشہ دوانیوں کے خوف سے تیغ بہادر آسام آگئے اور یہاں مغل فوج میں شمولیت اختیار کرکے مغل کمانڈر راجہ رام کے دستے سے منسلک ہوگئے، لیکن اپنی عادات کی وجہ سے وہ راجہ رام کو بھی ایک آنکھ نہ بھائے اور آخرکار آنند پور چلے گئے۔

تیغ بہادر مسلمان بادشاہ کو بہتر نہیں سمجھتے تھے اور اس منصب کا حقدار خود کو گردانتے تھے،یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنا لقب ’’سچا بادشاہ‘‘ تھا اور یہ وہی لقب تھا جس کو ان سے پہلے دو سکھ گروؤں ہر رائے اور ارجن سے اختیار کیاتھا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (چھٹا حصہ)

تاہم غرور اور تکبر میں وہ اس قدر آگے نکل گئےتھے کہ خود کو مافوق الفطرت سمجھنے لگے۔حالانکہ جھگڑا صرف یہ تھا کہ گرو کی گدی کون حاصل کرے، لیکن گرو تیغ بہادر نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنالیا۔ ان کے مخالفین رام رائے اور دھرمل نے گرو تیغ بہادر سے مطالبہ کیا کہ اگر وہ گرو ہیں تو کوئی کرامت دکھائیں۔ گرو تیغ بہادر نے یہ سوانگ بھرا کہ انہیں ایسا منتر آتا ہے جس سے تلوار کا وار بے اثر ہوجاتا ہے۔

چنانچہ جب ان سے یہ منتر اپنے اوپر آزمانے کیلئے کہا گیا تو وہ راضی ہوگئے اور جب تلوار کا وار ان کی گردن پر آزمایا گیا تو ان کی گردن کٹ کر دور جاگری۔یوں سکھوں کے مابین گدی کے حصول اور اختلافات کے نتیجے میں ان کے گرو کی جان چلی گئی۔اس کے بعد 1675 میں گوبند سنگھ کو گرو  تسلیم کیا گیا۔ انہوں نے ابتدا سے ہی سکھوں کو فوجی ترتیب کی طرف راغب کیا اور اسے مذہب کیلئے ضروری قرار دیا۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گرو نانک کی انسانیت کی تعلیم حاصل کرنے والی قوم دنیاوی لذات کے حصول اور دشمنیوں کی وجہ سے تعصب کا شکار ہوگئی اور طاقت حاصل کرنے کیلئے وہ مغلوں کے دشمن  ہوگئے۔گرو گوبند سنگھ کی عسکری مذہبی تعلیم کے بعد سکھوں کی مسلمانوں سے مخاصمت اتنی بڑھ گئی کہ پنجاب میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوگیا۔گرو گوبند سنگھ کی تبلیغ مسلمانوں کے خلاف نفرت کے بدترین اظہار میں صرف ہوئی۔

گرو گوبند سنگھ نے جب پہاڑی راجاؤں کی بادشاہ سے وفا داری پر اپنے گروہ کے ساتھ مل کر ان کے علاقوں کو لوٹنا شروع کیا تو کہلوار اور جیسمل اور دیگر پہاڑی راجاؤں نے عالمگیر سے مدد کی درخواست کی۔ نتیجتاً گرو کو آنند پور میں محصور کردیا گیا۔ لیکن وہ یہاں سے فرار ہوکر چمکور چلے گئے، جہاں انہیں مغل افسر نبی خاں نے حملہ کرکے گرفتار کیا۔ سیاسی زندگی میں اپنی کارکردگی کے سبب گرو گوبند سنگھ کو سخت ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اور وہ سخت ذہنی اور مالی مصیبت میں گرفتار ہوئے۔ گرو کی مالی حالت اس قدر ابتر ہوگئی تھی کہ انہوں نے امداد کیلئے اورنگزیب کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پانچواں حصہ)

انہوں نے اورنگزیب کو منظوم فارسی میں درخواست لکھ کر بھیجی، جس میں انہوں نے بادشاہ کی شان میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیئے۔ گرو گوبند کی مسلم دشمنی سے واقف ہونے کے باوجود عالمگیر نے جوابی خط میں ان کی عزت و تکریم کی۔

اورنگزیب عالمگیر کے عہد میں بادشاہ کی عظمت، جلال اور قوت نے سکھ قوم کو زیادہ سر اٹھانے نہ دیا اور انہیں کوئی ایساموقع میسر نہ آیا کہ وہ بادشاہ کیلئے پریشانی پیدا کرتے، بعد کے حالات کا اگر بالتفصیل مطالعہ کیا جائے تو صرف پنجاب میں سکھ قوم کی پوری تاریخ مسلمانوں کے قتل اور اقتدار کی کشمکش میں لتھڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ انہیں جب بھی موقع ملا انہوں نے اپنے سابقہ آقاؤں کے احسانات فراموش کرکے محسن کشی کی اور اپنی ذہنی کج روی کا پورا پورا مظاہرہ  کیا۔

معظم شاہ بہادر اول نے عالمگیر کے بعد تخت نشین ہونے کے بعدسکھوں کے ساتھ جس طرح کا برتاؤ کیا وہ پوشیدہ امر نہیں ہے۔ اس نے جاگیروں کے علاوہ ایک تلوار بھی گرو گوبند سنگھ کو پیش کی، جو حضرت حسین ؓ کی یادگارتھی۔ اور یہ تلوار ابھی تک آنند پور میں موجود ہے۔ سکھ اس تلوار کی بے حد عزت کرتے ہیں۔ اس میں مندرجہ ذیل عبارت موجود ہے:

نصر من اللہ و فتح قریب

اسی تلوار کے دوسری طرف تحریر ہے:

لا فتح الا علی لا سیف الا ذوالفقار۔ تحفہ امت علیؓ، فاطمہؓ، حسنؓ حسینؓ۔

سکھ جب بھی آنند پورآتے ہیں اس تلوار کو سجدہ کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے