تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (ساتواں حصہ)

Aurangzeb Alamgir ki siyasi soojh boojh part 7
  • واضح رہے
  • مارچ 31, 2021
  • 10:31 شام

سکھوں کے ابتدائی 3 گروؤں کے بعد سکھ مذہب میں سیاست کا عنصر غالب آگیا اور اس حوالے سے عہد عالمگیری میں کئی مسائل پیدا ہوئے

عالمگیر کے عہد میں ہندوؤں کو اس قدر مراعات ملیں اس سے پہلے کسی بھی عہد میں اس قسم کی مراعات غیرمسلموں کو ملنے کا تصور بھی نہیں تھا۔ اس نے ان کی مسلسل شورشوں یعنی جسونت سنگھ کی غداریوں، شیوا جی کی بربریت، ست نامیوں کی بغاوت، جاٹوں کی مجرمانہ حرکات کے باوجود ان سب کو معاف کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (دوسرا حصہ)

یہ سب ایک سوچی سمجھی اسکیموں کے تحت ہوا اور جس کا مقصد اورنگ زیب کو نقصان پہنچانے کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ تاہم بادشاہ نے غیر مسلموں خصوصاً ہندوؤں سے ایسا سلوک روا رکھا جس سے سلطنت میں خلفشار اور بربریت نہ پھیلے اور اس نے ہندوؤں کو وہ مراعات دیں جو انہوں نے برہمنوں کے راج میں بھی حاصل نہیں کی تھیں اور تاریخ ہند میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔

عہد عالمگیری میں سکھ مذہب پھیلا

بادشاہ نے سکھوں کا بہت خیال رکھا اور ان کے گروؤں کی عزت و اکرام کیا۔ یہی نہیں کئی مواقع پر ان کے آپسی اختلافات ختم کرانے کی بھی کوششیں کیں، جس میں وہ خود ہی سکھ مذہب کے پیروکاروں کی نظر میں بُرے بن گئے۔

گرونانک، جنہوں نے سکھ مذہب کی بنیاد رکھی 1469ء میں پیدا ہوئے۔ ان کی تعلیم کا لب لباب یہ تھا کہ قوموں کو آپس میں اختلافات ختم کر کے ایک متحدہ قوم کی حیثیت سے سچائی کو اختیار کرنا چاہیے۔ گرونانک کے بعد گرو اوگد ہوئے جنہوں نے گرو نانک کے اصولوں کی ترویج کی اور اسے اپنایا اور سیاسی معاملات سے خود کو الگ رکھا۔ مذہبی لحاظ سے انہوں نے کسی بھی اختلاف کی بنیاد نہ رکھی۔ گرو اوگد کے بعد گرو امرداس نے گدی سنبھالی لیکن ان کا بھی تعلق سیاست سے زیادہ اپنے مذہبی امور کی بجا آوری پر ہی رہا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (تیسرا حصہ)

گرو امرداس کے تعلقات بڑے بڑے ہندو زمینداروں سے تھے لیکن انہوں نے ان مراسم کو دوستانہ تعلقات سے زیادہ آگے نہ بڑھنے دیا۔ ان کا انتقال 1574ء میں ہوا، ان کی جگہ ان کا داماد درام داس گرو بنا۔ اپنی زندگی میں گرو درام داس نے ہندو راجاؤں اور زمینداروں سے تعلقات استوار کئے اور 1581ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی جگہ ان کے چھوٹے لڑکے ارجن گروہ ہوئے۔

ارجن پہلے سکھ گرو تھے جنھوں نے پاکباز زندگی اور مذہبی امور سے روانگی سے زیادہ دنیوی زندگی کی طرف رغبت کا زیادہ اظہار کیا اور اپنے گروہ کو سیاسی تنظیم دینی شروع کر دی اور اسے ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے ابھارا۔

انہوں نے حکم دیا کہ ان کا ہر چیلہ اپنی آمدنی کا دسواں حصہ جسے وہ ”دسونتھ" کہتے تھے گرو فنڈ میں جمع کرے، چنانچہ ایک کثیر رقم ہر ماہ گرو فنڈ میں جمع ہوگئی، جس سے سیاسی اور فوجی اعتبار سے سکھوں کی اعلیٰ پیمانہ پر جماعت بندی ہوسکی اور سیاسی اعتبار سے مضبوطی پیدا ہوگئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (چوتھا حصہ)

چنانچه 1589ء میں گرو ارجن نے امرتسر جو کہ صرف ایک تالاب تھا، کے بیچوں بیچ ایک مشہور گردوارہ کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد انہوں نے منظم طریقے سے پنجاب میں اپنے مذہب کہ تبلیغ شروع کردی اور لوگوں نے ان کے مذہب کو قبول کرنا شروع کردیا۔

واضح رہے کہ یہ ساری صورتحال عہد عالمگیری سے لگ بھگ ایک صدی پہلے کی تھی۔ پہلے تین سکھ گردوں کی کارکردگی اور تعلیم پرامن تھی۔ انہوں نے سیاست میں کسی قسم کا حصہ لیا نہ ہی اس میں دلچسپی کا اظہار کیا۔ ان کا کام محض یہ تھا کہ گرونانک کی دی ہوئی تعلیم کی تبلیغ کریں اور لوگوں کو اپنے طور سے نیکی کا راستہ دکھائیں۔

گرو ارجن کی کارکردگی ان تینوں گروؤں سے مختلف تھی۔ انہوں نے طاقت حاصل کرنے کے لیے مقامی زمینداروں کے باہمی اختلافات میں مداخلت کرنا شروع کر دی اور امرتسر تالاب جہاں اب گردوارہ بن گیا تھا، کے چاروں طرف عمارات بنوانا شروع کر دیں اور گرو کی دنیوی عظمت کو بڑھانے کی کوششیں شروع کر دیں اور اپنا لقب ”سچا بادشاه" رکھا اور اپنے لوگوں کے ذریعہ مقامی طور سے ٹیکس وصول کرنا شروع کردیا، جس پر خود ان کے بڑے بھائی پرتھوی سنگھ کو خدشات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پانچواں حصہ)

بہرحال آپسی اختلافات اور پنجاب میں وزارت مال کے ایک افسر چاند لعل کی جانب سے گرو ارجن کو اس قدر اذیت پہنچائی گئی کہ انہوں نے تنگ آکر خودکشی کرلی۔

گرو ارجن کی خودکشی کے بعد ہرگوبند سنگھ کو سکھوں کا گرو تسلیم کرلیا گیا، جو مغل حکومت میں ملازم تھے اور بعدازاں ان پر شاہی افواج کیلئے مختص رقم میں خورد برد کا الزام بھی لگا، جس کے نتیجے میں انہوں نے گوالیار کے قلعہ میں 12 برس قید کاٹی۔ ان کے پیروکاروں کی عقیدت کو دیکھتے ہوئے انہیں رہائی دی گئی، بعدازاں 1645ء میں وہ مر گئے۔

Aurangzeb Alamgir ki siyasi soojh boojh part 7

گرو ہر گوبند سنگھ کے بعد گرو ہر رائی سکھوں کے گرو ٹھہرے، وہ ایک سپاہی تھے اور 22 ہزار افواج ہمہ وقت ان کے ساتھ ہوا کرتی تھی۔ وہ دارا کے دوست تھے اور مصیبت کے وقت انہوں نے دارا کی ہر قسم کی مدد بھی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (چھٹا حصہ)

اورنگ زیب کی افواج جب لاہور میں داخل ہوئی تو انہوں نے راہ میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ ان کی ان شرانگیزیوں کے باوجود اورنگ زیب نے انہیں معاف کردیا اور گرو کو حکم دیا کہ وہ اپنے لڑکے رام رائے کو دربار میں بھیجے۔ 15 سالہ رام رائے کو دربار میں عزت بخشی گئی۔ گرو ہر رائی کے خلاف اورنگ زیب کے پاس کئی درخواستیں بھیجی گئیں تو بادشاہ نے گرو کو ایک مراسلہ تحریر کیا، جس میں اس نے لکھا۔۔۔۔۔۔۔

"ہم نانک کے گھرانے کو بت پرست کافروں کی طرح نہیں سمجھتے، کیونکہ نانک عارف باللہ اور صلح کل تھے۔ ان میں ہندوؤں والی ضد نہ تھی۔ انہوں نے مکہ معظّمہ کا حج کیا اور بہت چلہ کشی کی۔ نیز اسلامی ممالک میں کئی سال پھر کر مسلمانوں کے ساتھ محبت پیدا کی، انہوں نے دوئی کو دور کیا۔ امید ہے کہ آپ بھی اس راستے پر گامزن ہوں گے ۔ آپ سے ملنے کو جی چاہتا ہے ضرور درشن دیں گے۔"

(جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے