تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (چھٹا حصہ)

Aurangzeb Alamgir ki siyasi soojh boojh part 6
  • واضح رہے
  • مارچ 24, 2021
  • 10:25 شام

اورنگزیب کے دورِ حکومت میں ہندو یا راجپوت منتظمین کی تعداد کسی بھی مغل بادشاہ کے دور کے مقابلے میں سب سے زیادہ رہی

حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر ان ہندوؤں کا تقرر یا تو اورنگزیب خود کرتا تھا یا پھر کسی شہزادے یا امیر کی سفارش پر کرتا تھا۔ ایک دفعہ ایک اعلیٰ افسر نے اس سے شکایت کی کہ فلاں فلاں غیر مسلم امیر کو بخشی کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔

اس پر اورنگزیب نے جواب دیا۔۔۔۔۔

"مذہب کا اس عہدے سے کوئی تعلق نہیں اور اس قسم کی چیزوں میں تعصب کی کوئی جگہ نہیں ہے۔ اس کے بعد کلام پاک کی یہ آیت پڑھی لکم دینکم ولی دین۔"

اور پھر اس کے بعد کہا کہ درخواست دہندہ کی بات کو مان لیا جائے تو ہم کو اپنی پوری رعایا اور راجاؤں کو تباہ کرنا پڑے گا، چنانچہ اس نے ان سے بغیر کسی قسم کے تعصب برتتے ہوئے ان کو حکومت میں نہ صرف اعلیٰ عہدے دیئے بلکہ لگاتار ترقیاں بھی دیتا رہا اور انہیں بار بار اعلیٰ عہدے دیتا اور اور بغاوت کے باوجود ان کی غلطیوں سے درگزر کرتے ہوئے انہیں معاف کرتا رہا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پانچواں حصہ)

جسونت سنگھ کی زندگی کی پوری کارکردگی اور اورنگزیب کا اس کے ساتھ حسن سلوک ایک تاریخی شہادت ہے۔ اس سلسلے میں ماثر عالمگیری سے جو فہرست تیار ہوتی ہے اس کی ایک اجمالی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

(1)  جسونت سنگھ کو ترقی دی گئی اور شمشیر و خلعت عطا کیا گیا۔

(2)  1058ھ (مطابق 1674ء) راجہ راج سنگھ کو خلعت و شمشیر عطا کی گئی۔

(3)  جیجو کے زمیندار پرتھوی سنگھ کو کمانڈر بنا کر کر 1058ھ بمطابق 1674ء کابل بھیجا گیا تاکہ لودھی خاں کے افغانوں کے خلاف وہ جنگ کرے۔ اس سال بکرو سنگھ گوالیاری کو خلعت اور سونے کے سامان سے سجا ہوا ایک گھوڑا عنایت کیا اور تھانیداری کے منصب سے نوازا گیا۔

(4)  راجہ رام سنگھ، راجہ کی کیرت سنگھ بھورشیہ، رخ ناتھ سنگھ اور بیرم دیوسسودیہ کو انعام کے ساتھ ان کے عہدوں میں بھی ترقی دی گئی۔

(5)  رگھوناتھ سسودیہ کو تین صدی کا منصب اور ایک ہزار روپیہ انعام دیا گیا۔ راجہ راج سنگھ کو مزید ترقی دے کر اس کے منصب میں ایک ہزار روپیہ کا اضافہ کیا گیا۔ کنور کشن سنگھ ولد رام کو خلعت دیئے گئے۔ اور سات سات ہاتھی اور منقش خنجر عطا ہوئے، جسونت سنگھ بھوپٹ کو بھی خلعت عطا ہوا۔

(6)  1084ھ (1673ء) مان سنگھ، ماہان سنگھ اتوپ سنگھ، جو راجہ رائے سنگھ کے لڑکے تھے، راجہ کے مرنے کے بعد انہیں دربار میں بلانے کی سعادت بخشی، خلعت کے ساتھ ساتھ منصب بھی عطا ہوئے۔

(7)  1090ھ (1679ء) اندر سنگھ کو بے حد نوازا گیا اور دربار میں اسد خاں وزیر اعظم کو حکم دیا گیا کہ وہ اندر سنگھ کے ماتھے پر قشقہ کھینچے۔ بعد میں اندر سنگھ، مہماج سنگھ، رنگوناتھ اور محکم سنگھ کو تھانے داریاں کے عہدوں پر مامور کیا گیا۔

(8)  1092ھ (1681ء) میں اودت سنگھ بہدوریا کو چتوڑ کے اہم قلعہ کا تھانیدار مقرر کیا گیا۔ رائے سنگھ، پرتھوی سنگھ کو خلعت فاخرہ کے ساتھ ساتھ دو ہزار روپیہ انعام بھی دیا گیا۔

(9)  راجہ رام سنگھ کے مرنے کے بعد اس کے لڑکے بھوشن سنگھ کو باپ کے عہدے پر فائز کیا گیا۔

(10)  شہزادہ اکبر کے خلاف جب شہزادہ محمد معظم بھیجا گیا تو تین امیر، اندر سنگھ، رام سنگھ اور سنجان سنگھ کو اس کی مدد کے لئے بھیجا گیا۔

(11)  1092ھ (1681ء) راجہ مدھانہ کو ترقی دی گئی کی گئی، اسے غور بند کی تھانیداری پر فائز کیا گیا۔

(12)  جمناجی جو کھڑک گڑھ کا ذمیندار تھا اور شمبھوجی کے امراء میں سے تھا اسے خلعت عطا کیا۔ کالی بھٹ کے زمیندار پرتاپ سنگھ کے لڑکے مکرم سنگھ کو خلعت دیا گیا اور اسے اجازت دی گئی کہ وہ اپنی ذمینداری میں چلا جائے۔

(13)  جادورائی دکنی کے بھائی جگد رائی کو خلعت فاخرہ عطا ہوا۔ مان سنگھ، پسر روپ سنگھ جو منڈل پور کا فوجدار تھا مزید ترقی دے کر بدھنور کا فوجدار مقرر کیا گیا۔ ماہا سنگھ کے لڑکے رفعت سنگھ کو اس کے باپ کی وفات کے بعد راجہ کا خطاب دیا گیا۔

(14)  جنن سنگھ کے بھائی ہری سنگھ کو جوگڑھ کا زمیندار تھا خلعت فاخرہ عطا ہوا۔

(15)  منوہر داس کے لڑکے کشور درس کو شعلا پور کا زمکندار مقرر کیا گیا۔ اور یہ تقرر عالمگیر کی حکومت کے 27ویں سال میں ہوا۔

(16)  1095ھ (1682ء) سکھر کے زمیندار پدم ناٹک دربار میں حاضر ہوا، خلعت فاخرہ کے ساتھ منقش خنجر بھی عطا ہوا۔ میکش سنگھ کو چندر ریرا کی زمینداری پر فائز کیا گیا۔ دلیپ سنگھ بندیلہ، راجہ اودت سنگھ اور اس کے ملازمین کو ہاتھیوں کے ساتھ ساتھ خلعت فاخرہ بھی عطا کئے گئے اور ان کے مناصب میں بھی ترقیاں دی گئیں۔

(17)  1096ھ (1683ء) چاندوا کے رام سنگھ نے جب بغاوت کی تو کشن چند چاندوا نے اسے شکست دی۔ کشن سنگھ کو انعام و اکرام سے نوازا گیا۔

(18)  جسونت سنگھ کو خلعت، نقارہ اور ہاتھی عنایت کئے گئے، اسی سال محکم سنگھ کو بھی انعام و اکرام سے نوازا گیا۔

(19)  راجہ انوپ سنگھ کو بیک وقت سکھر کی فوجداری اور قلعہ داری مرحمت کی گئی۔

(20)  1103ھ (1690ء) اودت سنگھ کو راجہ کا خطاب دیا گیا۔

(21)  کہاتاؤ کے زمیندار رام چندر کو دو ہزاری یک صد پنجاه سوار دواسپہ کا منصب دیا گیا۔ ڈونڈی راؤ کو تربیت خاں نے دربار میں بھیجا اسے یک ہزاری پنج صدی کا منصب دیا گیا اور کوہ نہا دیو کی تھانیداری پر فائض کیا گیا۔ راجہ کلیان سنگھ جو بہدا کا زمیندار تھا جب دربار میں حاضر ہوا تو اسے دو صدی دوصدی سوار کے عہدے پر فائز کیا گیا اس سے پہلے وہ اس سے کم تر عہدہ پر فائز تھا۔

(22)  1108ھ میں سروپ سنگھ سپر راجہ اودت سنگھ کو یک ہزاری کے منصب پر فائز کیا گیا اس کا سابق عہده شش صدی شش صدی سوار تھا۔

(23)  قلعہ چنچی کی فتح کے بعد دلپت سنگھ کو سہ ہزاری سوار پنخ صدی کے عہدہ پر فائزہ کیا گیا۔ بھاگو بنجارہ چہار ہزار سوار کے عہدے پر فائز ہوا۔اس نے بغاوت کی، گرفتار ہو کر دربار میں لایا گیا۔ اسے معاف کر کے اس کے عہدے پر بحال کیا گیا۔

(24)  درگا داس راٹھور کی غلطیوں کو معاف کیا گیا، اسے سہ ہزاری پانصد سوار کے منصب پر فائز کیا گیا۔

(25)  ہدایت کیتی بھولا ناتھ پسر چنبل مل کو اس کے باپ کی جگہ وقائع نویس مقرر کیا گیا۔

(26)  راجہ مان سنگھ پسر راجہ روپ سنگھ کو اس کے باپ کے عہدہ پر پانصدی مقرر کیا گیا۔

(27)  راجہ رام سنگھ کے دونوں لڑکوں اندر سنگھ اور بہادر سنگھ کو جن کے عہدہ دو ہزاری سوار تھے، مزید ترقی دے کر دونوں کو دو ہزاری پانصد سوار بنادیا گیا۔

(28)  1111ھ میں ستارہ کے قلعہ کی فتح کے بعد کئی ہندو امراء کو ترقیاں دی گئیں۔ راجہ چندر کو جو تھانیدار تھا دو ہزاری سه ہزار سوار کا منصب دیا گیا۔

(29)  ستر سال بندیلہ کو قلعہء اعظم تارہ دکن کا قلعہ دار مقرر کیا گیا، یہ قلعہ جنگی نقطہ نگاہ سے بے حد اہم علم تھا۔

(30)  دکن میں کہیلینا کے قلعہ پر حملہ کے وقت راجہ جے سنگھ دوم مکمل کرنے والی افواج کا ایک اعلی افسر مقرر کیا گیا۔ جو جو امراء واکن کیرا کے قلعہ پر حملہ کرنے کے لیے بلائے گئے تھے ان میں راؤ دلپت سنگھ اور رام سنگھ کے نام قابل ذکر ہیں۔ قلعہ کی فتح کے بعد ان لوگوں کو انعام و اکرام کے ساتھ ساتھ منصب بھی عطا ہوئے۔

(31)  1115ھ میں راجہ اندر سنگھ کو مزید ترقی دے کر سہ ہزاری دو ہزار سوار بنا دیا گیا۔

یہ وہ امراء یا افسر تھے جو سہ ہزاری عہدوں تک تھے ان کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہے، لیکن اجمالی طور سے ان کا ذکر کیا گیا۔ ان مختلف عہدوں کے علاوہ عظیم ترین منصب جو پوری مغلیہ تاریخ میں اس سے پہلے کسی بھی ہندو امیر کو نہ ملا وہ منصب راجہ مرزا جے سنگھ کا تھا۔ عہد عالمگیری میں اسے ہفت ہزاری کے عہدے پر فائز کیا گیا۔

اکبر کے عہد میں یہ عہدہ صرف شہزادوں کے لیے مخصوص تھا۔ راجہ مرزا جے سنگھ وہ واحد ہندو امیر تھا جس کو اورنگزیب تخلیہ میں ہتھیار سجے ہوئے کے ساتھ بلا لیتا تھا۔ اورنگزیب اسے ایک دفعہ انعام کے طور پر ایک کروڑ درم بھی دیئے تھے۔

اسی طرح ایک بڑی کثیر رقم کنول لال سنگھ پسر راجہ راج سنگھ کو بطور انعام عطا کی گئی، یہ اس موقع پر دی گئی تھی جب عالمگیر دارا کے خلاف دہلی روانہ ہونے والا تھا اور ساموگڑھ کا معرکہ سر ہوچکا تھا۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے