تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (بارہواں حصہ)

aurangzeb alamgir ki siyasi soojh boojh part 12
  • واضح رہے
  • مئی 18, 2021
  • 4:02 شام

اورنگزیب عالمگیر نے ایک بھرپور، باوقار اور ایمان والی زندگی گزاری اور 90 برس کی عمر میں دار فانی سے کوچ کر گئے تھے

نواب بائی، دلرس بانو بیگم اور اورنگ آبادی محل ان کی بیگمات تھیں، جن سے ان کے 10 بچے تھے۔ 5 بیٹے بہادر شاہ، سلطان محمد اکبر، محمد اعظم شاہ، کام بخش، محمد سلطان اور پانچ بیٹیاں زیب النساء، زینت النساء، مہر النساء، بدر النساء، زبدۃ النساء تھیں۔ اورنگزیب کی وفات (1707ء) کے وقت ان کے تین لڑکے معظم شاہ، اعظم شاہ اور اور کام بخش زندہ تھے۔ معظم شاہ اپنے والد کے بعد سلطنت مغلیہ کا مالک بنا۔ معظم شاہ جوانی کے دور میں دکن کی مہمات میں عظیم جرنیلوں کے ہمراہ رہا اور شاندار فتوحات حاصل کیں۔

تاہم معظم شاہ میں ایک بہت بڑی کمزوری تھی کہ وہ لوگوں کے کہنے میں آجاتا تھا۔ یہ چیز عالمگیر جیسے مدبر اور ذہین بادشاہ کے جانشین ہونے کے سبب اچھی بات نہ تھی۔ معظم شاہ لوگوں پر بہت جلد اعتبار کرلیتا تھا اور ان لوگوں کو جنہیں وہ اپنا ہمدرد سمجھتا تھا، ان کی غلط رائے بھی محض انہیں خوش رکھنے کی غرض سے مان لیا کرتا تھا۔

وہ فطرتاً ایک نرم مزاج شخص تھا اور زائد العمری کے دور میں اسے جنگ و جدل سے دور رہنے میں اطمینان ملتا تھا۔ اس عمر میں آکر اس کا یہ ذہن بن چکا تھا کہ اگر لڑائی جھگڑے کے بجائے صلح صفائی اور لین دین سے کوئی مسئلہ حل ہوجائے تو یہ زیادہ بہتر ہے۔ حالانکہ ایسی مضبوط حکومت جو عالمگیر چھوڑ کر گئے تھے، اس کو سنبھالنے کیلئے ایک ایسے شخص کی ضرورت تھی جو بہادر، فیصلہ ساز، باتدبیر، حوصلہ مند اور سیاسی اونچ نیچ میں درجۂ اتم رکھتا ہوتا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (گیارہواں حصہ)

اب ذکر کرتے تھے ہیں دوسرے بیٹے اعظم شاہ کا، جو انتظامی اور عسکری امور کی سوجھ بوجھ میں معظم شاہ سے بہت بہتر تھا۔ اعظم شاہ فطرتاً سخت گیر، بروقت اور درست فیصلہ سازی کے حوالے سے شہرت رکھتا تھا۔ ایک جنرل کی حیثیت سے اس نے  جنگ کے دوران خود رائے سے زیادہ کام لیا، کسی بھی جنرل یا فوجی افسر کا مشورہ اسے اپنی رائے سے ہٹا نہیں سکتا تھا۔ ایک سپاہی کی حیثیت سے وہ بہترین شہہ سوار اور اچھا شمشیر زن تھا۔

فوج کے سپہ سالار کی حیثیت سے اس نے فوجی مہمات میں انفرادی طور سے نام پیدا کیا تھا۔ شدت سے جذباتی ہونے کی وجہ سے اپنے ساتھیوں اور ہمدردوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں ناکام رہا اور عین وقت پر جبکہ اس کو ان کی ضرورت تھی ان کی مدد سے محروم رہا۔ مثلاً تورانی امراء کے سربراہ محمد امین اور اس کے بھتیجے نظام الملک نے اعظم شاہ کی اسی جذباتیت کے سبب اس کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔

کام بخش اورنگزیب عالمگیر کا تیسرا لڑکا تھا، جو اس کی وفات کے بعد حیات تھا۔ اس کی طبعیت میں خود ستائی زیادہ تھی۔ ایک اچھا سپاہی اور بہترین منتظم تھا، لیکن تجربے میں دونوں بھائیوں کے مقابلے میں کم تر تھا۔ اپنی زود پسندی اور ہیجانی طبعیت کی وجہ سے وہ کسی بھی بڑے امیر یا جنرل کی توجہ و دلچسپیاں حاصل نہ سکا۔ یہ زیادہ تر اس کی شکی طبعیت کی وجہ سے تھا۔ جہاں ایک بھائی لوگوں پر زیادہ اعتبار کرنے والا تھا۔ وہیں ایک اور بھائی لوگوں پر غیر ضروری طور پر شک کرتا تھا۔ دیکھا جائے تو تینوں بھائی طبعیتاً اور فطرتاً ایک دوسرے مختلف تھے۔

واضح رہے کہ اورنگزیب عالمگیر کا انتقال تقریباً 90 برس کی عمر میں ہوا تھا۔ اس وقت اس کے پوتے بھی 45 برس سے زیادہ عمروں کے ہوگئے تھے۔ اس کے کئی پڑ پوتوں کی شادی بھی ہوچکی تھی۔ اس لئے حکومت کے حصول کی کشمکش میں جہاں عالمگیر کے بیٹوں کا ذکر لامحالا آتا ہے وہیں پر اس کے پوتوں کی پھرتیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (نواں حصہ)

اورنگزیب عالمگیر کے بعد مغل سلطنت کا وارث ہونے والے معظم شاہ کا بڑا بیٹا معز الدین ابتدا سے ہی اپنے داد عالمگیر کے ساتھ دکن میں رہا۔ وہ نڈر اور بہادر تھا۔ اور مہمات میں عالمگیر نے اسے مرہٹوں سے مقابلے کیلئے بھیجا تھا، لیکن معظم شاہ کی 5 سالہ حکومت کے دوران عیاشی اور آرام طلبی کی زندگی نے اس کی یہ تمام صفات چھین لی تھیں۔

معظم شاہ کا دوسرا لڑا عظم الشان تمام نوجوان شہزادوں میں سب سے زیادہ بہادر تھا۔ عالمگیر کے عہد میں وہ بنگال کا گورنر تھا اور مختلف جنگوں میں اس نے بڑا نام پیدا کیا۔ معظم شاہ کی کامیابی مکمل طور پر شہزادہ عظیم کی قابلیت اور جنگی صلاحیتوں پر مبنی تھی۔

دوسری طرف اعظم شاہ کا پہلا لڑکا بیدار بخت ایک اچھا سپاہی اور فوجی مہمات کا اس کو کافی تجربہ تھا۔ اعظم شاہ کی فوج کا وہ ایسا قابل اعتماد جنرل ہو سکتا تھا، جس سے کسی قسم کی غداری کی کوئی امید نہیں رکھی جا سکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ شمالی ہند پر حملہ کرنے والی دکنی فوج کا سپہ سالار اعظم بیدار بخت ہی تھا اور اسی تجربہ کے تحت اسے دکنی فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (چھٹا حصہ)

اعظم شاہ کا دوسرا لڑکا والا جاہ بھی بیدار بخت کی طرح ایک بیدار شہزادہ تھا۔ اور فوج کے ایک دستے کی کمان جو اعظم شاہ کے تحت شمالی ہند جا رہی تھی، والا جاہ ہی کر رہا تھا۔

اورنگزیب کے سب سے چھوٹے لڑکے یعنی کام بخش کی ویسے تو 5 اولادیں تھیں، جن میں سے 4 لڑکے تھے۔ تاہم یہ چاروں اپنے دادا اورنگزیب عالمگیر کی وفات کے وقت بہت چھوٹے تھے۔ جبکہ ان بچوں کے سر سے باپ کا سایہ بھی جلد ہی اٹھ گیا تھا۔ کام بخش کا انتقال 41 برس کی عمر میں 1709ء (اورنگزیب کی وفات کے محض دو برس بعد) میں ہوا۔ ان کے بچوں کے نام عمید بخش مرزا، محی السنت مرزا، فروزمند مرزا اور بارق اللہ مرزا ہیں۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے