تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (گیارہواں حصہ)

aurangzeb alamgir ki siyasi soojh boojh part 11
  • واضح رہے
  • مئی 10, 2021
  • 4:58 شام

اورنگزیب عالمگیر نے 1680ء کی دہائی میں بیجاپور اور گولکنڈہ کے بعد حیدر آباد پر قبضہ کرکے ان علاقوں کو فتح کیا

دکن کی ریاستوں پر لشکر کشی کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ یہاں کے حکمران مغلوں سے زیادہ مرہٹوں کے قریب ہوگئے تھے اور مغلوں سے زیادہ مرہٹوں کی طاقت کے سایہ میں پناہ ڈھونڈ رہے تھے اور اس کا نتیجہ ریاستوں کی تباہی کی صورت میں نکلا۔

گولکنڈہ میں تاناشاہ اور بیجاپور میں سکندر عادل شاہ دوم ایسے حکمران تھے جو اپنے وزراء کے ہاتھوں کٹھ پتلی بنے ہوئے تھے اور ہر امیر اپنے میں مگن تھا۔ 1684ء میں جب مغل افواج بیجاپوریوں کے خلاف برسرِ پیکار تھیں قطب شاہ نے یہ حرکت کی کہ اس نے عدل شاہ کی درخواست پر 10 ہزار کا ایک فوجی دستہ اس کی مدد کے لیے روانہ کر دیا۔

اس نے بیجاپور کی نا صرف مدد کی بلکہ شمبھو جی کو بھی مغلوں پر حملہ کرنے کے لئے لکھا۔ عالمگیر کو اس کی ان حرکات پر بے حد غصہ آیا اور معظم شاہ کو ایک فرمان جاری کیا کہ وہ حیدرآباد پر قبضہ کرے۔ حیدرآباد پر قبضہ، اس موقع پر اس واسطے بھی ضروری تھا کہ بیجاپور پر قبضہ کرنے سے پہلے گولکنڈہ کی مرکزی طاقت کو کچھ نہ جا سکے۔

حیدرآباد پر مغلوں کے قبضہ کرنے کی اور کئی وجوہات تھیں۔ اول یہ کہ اندرونی خلفشار نے یہاں کی مسلمان آبادی پر عرصہ حیات تنگ کر دیا تھا۔ خود بادشاہ وقت ابو الحسن تانا شاہ قطب شاہ اپنی نازک مزاجی میں ضرب المثل ہو گیا تھا۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ عیش پرست بھی تھا اور حکومت کی طرف سے حاصل رہا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (دسواں حصہ)

نتیجتاً مسلمانوں کو آپس میں لڑا کر وزیراعظم بننے والا ہندو مادنا نے نئی ریاست میں اپنی آمریت قائم کرلی تھی۔ دیگر یہ کہ مسلمان شرفاء کی مسلسل شکایات نے مغلوں کو مجبور کر دیا تھا کہ ان بگڑتے ہوئے حالات کی طرف توجہ دیں۔

دکن کی ریاستوں کی گوشمالی اور مرہٹوں کے استیصال کے بعد عالمگیر احمدنگر واپس آ گیا۔ اس کے بعد وہ اپنی خواہش کے بموجب شمالی ہند واپس چلا جاتا۔ مگر موت نے اسے دکن کی سرزمین پر ہی سلا دیا اور وہ محنت جو اس نے سلطنت مغلیہ کے پھیلاؤ کے لئے جنوبی ہند میں کی اس کے مرنے کے بعد میں رائیگاں نہیں گئی۔

اس کی پالیسی کا مرکزی پہلو یہ تها کہ مرہٹے دکن کی سرزمین پر قابض ہو کر اس کے مستقل مالک نہ بن جائیں۔ چنانچہ یہ حکمت عملی اس کی موت کے بعد بھی قائم رہی۔ یعنی یہ کہ سلطنت مغلیہ کو زوال بھی آ گیا اور ختم بھی ہوگئی پھر بھی دکن کے علاقے کی حکومت مغلوں کے نوکروں اور نمک خواروں کے زیر کنٹرول ہیں اور جو بیسویں صدی عیسوی کے نصف تک کسی نہ کسی صورت میں قائم رہی۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (آٹھواں حصہ)

یہ امر بھی ایک حقیقت پر مبنی ہے کہ اگر عالمگیر کے علاوہ شاہ جہاں کا کوئی دوسرا لڑکا ہند کے تخت پر متمکن رہتا تو اس قسم کی محنت اس کے بس کی بات نہ تھی اور وہ شہزادہ یقیناً ان پہاڑی علاقوں کے مرتفعاتی زمین کی صعوبت انگیز زندگی اور امن قائم کرنے میں سخت جدوجہد کی وجہ سے جلد سے جلد شمالی ہند واپس چلا جاتا اور دکن کی ریاستیں اور مرہٹے اسے کبھی چین سے بٹنے ہی نہ دیتیں۔

دکن میں جو کچھ عالمگیر نے فوجی مہمات اور جنگوں کا سلسلہ جاری رکھا اس سے اس کی استقامت، فوجی تنظیم، قیادت کی سربلندی کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ اس کی جوانی، کہولت اور بڑھاپا ایک بادشاہ اور ایک جنرل کی حیثیت سے ایک ہی مقام رکھتا ہے۔

جوانی کے عہد کی مہمات سے زیادہ کہولت اور بڑھاپے کے دور کی جنگیں اور مہمات سخت جانفشاں تھیں۔ قندھار کی فتح اور جنگ سے زیادہ دکن کی سرزمین کے اونچے اونچے قلعوں کی فتح بہت مشکل تھی۔ کہلنا جیسے قلعہ کو ایک 85 سالہ بوڑھا خود کمان کر کے اپنی حکومت کے 45ویں سال فتح کرتا ہے حالانکہ یہ وہ عمر ہے جب انسانی فؤاء مضمحل ہوجاتے ہیں لیکن عمر کے اس دور میں بھی وہ اپنے مضبوط ارادوں کے ساتھ حصہ لیتا رہا اور ہزاروں مشکلات بھی اسے اپنے ارادے سے نہ روک سکیں۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پانچواں حصہ)

ہندوستان کی تاریخ تو کیا دنیا کی تاریخ میں کسی بھی کسی بادشاہ کی ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے اور پھر عالمگیر کی سطوت کا یہ عالم کہ بادشاہ 24 سال تک مسلسل دکن کی سرزمین پر دشمنوں سے لڑتا رہا اور شمالی، مشرقی اور مغربی ہندوستان میں ایسی کوئی بھی چھوٹی بڑی بغاوت پھوٹ ہی نہ سکی جو ان مہمات سے اس کا دھیان پلٹ سکے۔

شہزادہ اکبر شاه ایران کی مدد سے شمالی ہندوستان پر حملہ آور ہوتا، ہر صوبہ دار، ہر جزل اور ہر امیر اپنے اپنے علاقوں کے انتظام میں نہایت وفاداری کے ساتھ مصروف کار رہے اور ان میں سے کسی کو بھی سرکشی کا خیال تک نہ آیا۔ اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کے کہ یہ تمام امراء عالمگیر پر کس قدر اعتماد کرتے تھے اور اس کے ساتھ کتنے مخلص تھے۔

خود عالمگیر امراء اتنے عظیم تھے کہ ان کی انتظامی صلاحیت اور حکومت کرنے کا سلیقہ عالمگیر کے مرنے کے بعد بھی ظاہر ہوا یعنی ان جلیل القدر عالمگیری امراء میں سے جو زندہ رہے وہ ہر ایک وزارت عظمی کے عہدے پر کسی نہ کسی دور میں پہنچا۔ اور اپنی بہترین صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (دوسرا حصہ)

ان میں اسد خاں، منیم خاں، ذوالفقار خاں، سید عبدالله باره، حسن علی بارھ، محمد امین اور نظام الملک جیسے با تدبیر امراء شامل تھے جو عہد عالمگیری کی ہی پیداوار تھے اور جو اس کے عہد میں کھلونوں کی طرح بادشاہ کے اشاروں پر چلتے تھے۔

ان تمام باتوں پر اگر غور کیا جائے تو اس سے عالمگیری کی سیاسی اور ذہنی عظمت کی نشان دہی ہوتی ہے۔ اس کے بہادر لڑکے، جری پوتے اور عظیم جزل اس کی تمام زندگی میں وفادار رہے۔ کسی کو بوڑھے بادشاہ کے خلاف بغاوت کرنے کا خیال تک نہ آیا اور پورے شمالی ہند سے لے کر دکن کے شمالی حصوں تک، بلوچستان سے لے کر بنگال اور آگے آسام تک امن و چین کا دور دورہ رہا۔ لیکن ایسی حالت میں اورنگزیب عالمگیر کی سلطنت کو مغلیہ دور کے زوال کا باعث بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ (جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے