تازہ ترین

ماہ و سال کی ابتدا کیسے ہوئی؟ (تیسرا اور آخری حصہ)

maah o saal ki ibtida kaise hui part 3
  • واضح رہے
  • مارچ 22, 2021
  • 1:50 صبح

عیسوی کیلنڈر کی ترتیب میں نقائص کے ساتھ ساتھ 7 مہینے ایسے ہیں، جن کے نام دیوی دیوتاؤں اور بادشاہوں سے موسوم ہیں

یہ تو طے ہے کہ اسلامی کیلنڈر کا آغاز واقعۂ ہجرت سے ہوا لیکن مہینوں کی ترتیب میں سب سے پہلے کس مہینے کو رکھا جائے، یہ مسئلہ بھی حل طلب تھا۔ صحابہ کرامؓ نے مختلف مہینوں سے سال کی ابتدا کرنے کی رائے دی۔ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ نے ماہ محرم الحرام سے آغاز کرنے کی رائے دی اور اسی کو حضرت عمرؓ نے پسند فرمایا۔

اس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کا پختہ ارادہ اور عزم محرّم کے مہینے میں ہی فرمایا تھا کیونکہ اس سے پہلے ذی الحجہ کے مہینے میں اہلِ مدینہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دستِ اقدس پر ’’بیعت عقبہ ثانیہ‘‘ کی تھی۔ محرّم میں ہی حضراتِ صحابہ کو ہجرت کی اجازت مل گئی تھی۔

حضرت عمرؓ نے اس موقع پر یہ بھی ارشاد فرمایا کہ لوگ فریضۂ حج کے بعد محرّم میں ہی واپس پہنچتے ہیں اس لئے محرّم الحرام سے ہی سال کا آغاز ہونا چاہیئے۔ بہرحال اس پر صحابہؓ کا اتفاق ہوگیا۔

عیسوی کیلنڈر کی چند اہم باتیں

مسلمانوں کی سیاسی اور ذہنی غلامی نے آج یہ دن دکھایا ہے کہ ایک مسلمان گھرانے میں جنم لینے والا بچہ یا بچی اسلامی افکار و نظریات سے اس حد تک بیگانہ ہوتا ہے کہ اُسے اسلامی مہینوں کے نام تک معلوم نہیں ہوتے جبکہ انگریزی مہینوں کے نام اُسے ازبر ہوتے ہیں۔

یہاں عیسوی کیلنڈر کے بارے میں چند حقائق اور باتیں تحریر کرنا بے حد ضروری ہیں اور وہ یہ ہیں کہ عیسوی کیلنڈر کی بنیاد شمسی تقویم پر ہے۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ زمین کی دو قسم کی حرکتیں ہوتی ہیں۔

ایک اپنے محور پر جس کی وجہ سے دن رات وجود میں آتے ہیں اور دوسری حرکت سورج کے ارد گرد بیضوی شکل کے مدار پر ہوتی ہے جس سے موسم بدلتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ماہ و سال کی ابتدا کیسے ہوئی؟ (دوسرا حصہ)

زمین اس دوسری حرکت کا ایک چکر 365.48 دنوں میں پورا کرتی ہے۔ اسی لئے شمسی سال 365 دن شمار کئے جاتے ہیں۔ اب دنوں کی یہ تعداد ایسی ہے کہ جو بارہ مہینوں پر برابر تقسیم نہیں ہوتی، اس لئے موجودہ کیلنڈروں میں اس مسئلے کو یوں حل کیا گیا کہ سات مہینے 31، 31 دن کے، چار مہینے 30، 30 دن کے اور ایک مہینہ صرف 28 دن کا رکھا گیا۔

maah o saal ki ibtida kaise hui part 3

اس حساب سے 365 دن پورے تو کرلئے گئے لیکن کسور کا حساب پھر بھی باقی بچ گیا، اس کیلئے پھر یہ طریقہ نکالا گیا کہ ہر چوتھے سال فروری کے 29 دن شمار کئے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بھی کسور کا مسئلہ مکمل حل نہیں ہوا، اسی لئے شمسی حساب کے کیلنڈر میں بار بار ترمیم ہوتی رہی ہے اور آئندہ بھی ہوتی رہے گی۔

آج جس کیلنڈر کو لوگ عیسوی کہتے ہیں یہ دراصل ’’گریگوری‘‘ کیلنڈر ہے۔ محققین کے مطابق یہ پرانا رومی کیلنڈر تھا جس میں اگسٹس نے ترامیم کیں۔ پھر جولین نے اس میں تبدیلیاں کیں۔ آخری بار 1581ء کو پاپائے گریگوری کے حکم سے ترمیم ہوئی۔

اس وقت تک اس کیلنڈر کی حضرت عیسیٰ علیہ اسلام سے کوئی نسبت نہ تھی۔ جولین کے چھ سو سال بعد ایک عیسائی راہب ڈینس ایگزیگٹوس نے اسے مذہبی رنگ دینے کیلئے حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی طرف منسوب کردیا۔

اگر آپ اس کیلنڈر کے مہینوں کے نام پر غور کریں تو آپ کو ان میں توہم پرستی، شرک اور بے معنی ہونا ضرور کھٹکے گا۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں:

(1) جنوری ۔۔۔۔ رومی دیوتا ’’جانس‘‘ کے نام پر ہے۔

(2) فروری ۔۔۔۔ قدیم اطالیہ کے دیوتا ’’فبرئس‘‘ کے نام پر ہے۔

(3) مارچ ۔۔۔۔ روم کے دیوتا ’’مارس‘‘ کے نام پر ہے۔

(4) اپریل ۔۔۔۔ لاطینی لفظ ’’ایپی رائر‘‘ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں کھلنا۔

(5) مئی ۔۔۔۔ ایک دیوی ’’مایا‘‘ کے نام پر ہے۔

(6)جون ۔۔۔۔ یا تو روم کی دیوی ’’جونو‘‘ کے نام پر ہے یا یہ لاطینی لفظ ’’جوینس‘‘ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہیں جوانی۔

(7) جولائی۔۔۔۔ روم کے بادشاہ ’’جولیئس سیزر‘‘ کے نام پر ہے۔

(8) اگست ۔۔۔۔ روم کے بادشاہ ’’اگسٹس‘‘ کے نام پر ہے۔

(9) ستمبر ۔۔۔۔ لاطینی لفظ ’’سیپٹم‘‘ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہے ’’سات‘‘۔

(10) اکتوبر ۔۔۔۔ لاطینی لفظ ’’آکٹو‘‘ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہے ’’آٹھ‘‘۔

(11) نومبر ۔۔۔۔ لاطینی لفظ ’’نووم‘‘ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہے ’’نو‘‘۔

(12) دسمبر ۔۔۔۔ لاطینی لفظ ’’دسیم‘‘ سے لیا گیا ہے، جس کے معنی ہے ’’دس‘‘۔

یہ بھی پڑھیں: ماه و سال کی ابتدا کیسے ہوئی؟ (پہلا حصہ)

اب دیکھیں کہ کچھ نام تو واضح طور پر شرک اور توہم پرستی پر دلالت کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ مسلمان ان الفاظ کو ان شرکیہ معنی میں استعمال تو نہیں کرتے لیکن پھر بھی غیر ارادی طور پر اپنی زبان سے دیوی دیوتاؤں کے نام لے لیتے ہیں۔یقیناً ہمیں اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔

کچھ ناموں کا تعلق رومی بادشاہوں سے ہے، جو شاید دنیا کی کسی اور قوم کیلئے تو کچھ مطلب رکھتے ہوں گے لیکن ہمارے لئے تو بالکل بے مطلب اور بے کار ہیں۔ ہماری اپنی ایک الگ تاریخ اور جدا شخصیات ہیں جن پر ہمیں فخر ہونا چاہیئے۔

مزید مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ رومی سال چونکہ مارچ سے شروع ہوتا تھا اس لئے ستمبر ساتواں، اکتوبر آٹھواں، نومبر نواں اور دسمبر دسواں مہینہ تھا، لیکن انگریز کی ’’دقیانوسیت‘‘ دیکھیں کہ آج ان مہینوں کی ترتیب بالکل بدل جانے کے باوجود وہی نام استعمال ہو رہے ہیں جن کی حیثیت اب ایک لطیفے سے کم نہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے