تازہ ترین
ایمان مزاری اور شوہر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالےپشاور ہائیکورٹ کا بشریٰ بی بی کو کسی بھی مقدمے میں گرفتار نہ کرنیکا حکم’’سلمان خان نے برادری کو رقم کی پیشکش کی تھی‘‘ ؛ بشنوئی کے کزن کا الزامالیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جماعت تسلیم کر لیابشریٰ بی بی اڈیالہ جیل سے رہا ہو کر پشاور پہنچ گئیںجسٹس منیر سمیت کتنے جونیئر ججز سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنےآئینی ترمیم کیلئے حکومت کو کیوں ووٹ دیا؟مبارک زیب کا ردعمل سامنے آ گیاذرائع کا کہنا ہے کہ لبنان کو اس ہفتے FATF مالیاتی جرائم کی واچ لسٹ میں شامل کیا جائے گا۔امریکہ سیاسی تشدداج جو ترمیم پیش کی گئی قومی اسمبلی میں اس سے پاکستان پر کیا اثرات مرتب ہونگے۔عدلیہ کے پنکھ کٹ گئے۔فضل الرحمان کہتے ہیں کہ اتحاد نے آئینی ترمیم کی مخالفت کو مؤثر طریقے سے بے اثر کیا۔قومی اسمبلی نے صبح سویرے 26ویں آئینی ترمیم کا بل منظور کرلیااشرافیہ، ثقافتی آمرانہ پاپولزم اور جمہوریت کے لیے خطراتوسکونسن کی ریلی کے بعد کملا ہیرس کو اینٹی کرائسٹ کہا جا رہا ہے۔عالمی جغرافیائی سیاست کے تناظر میں نیا اقتصادی مکالمہالیکشن ایکٹ میں ترمیم 12 جولائی کے فیصلے کو کالعدم نہیں کر سکتی، سپریم کورٹ کے 8 ججوں کی توثیقحماس کے رہنما یحییٰ سنوار غزہ میں اسرائیلی قبضے کے خلاف مزاحمت کے دوران مارے گئےامریکہ نے انسانی ڈھال کی رپورٹ کے درمیان اسرائیل کے احتساب کا مطالبہ کیاکینیڈا میں بھارت کے جرائم اور ان کے پیچھے مبینہ طور پر سیاستدان کا ہاتھ ہے۔

ماه و سال کی ابتدا کیسے ہوئی؟ (پہلا حصہ)

maah o saal ki ibtida kaise hui part 1
  • واضح رہے
  • مارچ 8, 2021
  • 11:50 شام

دنیا کی تقریباً ہر اہم زبان میں آج بھی مہینے کیلئے جو لفظ استعمال ہو رہا ہے، اس کا تعلق سورج کے بجائے چاند سے ہے

یہ بات تو خود تاریخ کو بھی معلوم نہیں کہ ہفتہ، مہینہ اور سال کی تقسیم سب سے پہلے کب ہوئی اور کس نے کی؟ کسی قوم نے سب سے پہلے ہفتے کے سات دن تسلیم کر کے، اُن کے نام رکھے اُنہیں مہینوں کی شکل میں تقسیم کیا اور پھر ماہ بماہ جمع کرتے کرتے سال کی شکل دے ڈالی؟ یہ سب کچھ پردۂ خفا میں ہے اور ہمارے پاس سوائے ظن و تخمین کے اور کوئی طریقے نہیں جس سے یہ تفصیلات معلوم کی جاسکیں۔

ماہرین نے اپنے اندازوں کے مطابق یہی کہا ہے کہ بظاہر انسان ابتداءِ آفرینش ہی سے یہ دن، مہینے اور سال کی تقسیم استعمال کر رہا ہے۔ تمام قوموں کے ہاں رائج قدیم کیلنڈروں کا تجزیہ کرنے کے بعد مزید یہ بات سامنے آتی ہے کہ انسان نے پہلے پہل اپنے حسابات کیلئے سورج کے بجائے چاند کو ہی اختیار کیا ہوگا۔ اس لئے کہ چاند کے حساب کیلئے کسی رصدگاه یا فلکیاتی حساب کی ضرورت نہیں پڑتی جبکہ شمسی حسابات کیلئے کئی علوم کا ماہر ہونا ضروری ہے۔

آپ دیکھتے ہیں کہ روز دن، رات آتے ہیں اور جاتے ہیں۔ اگر اُن کو شمار کرنے کی کوشش کی جائے تو کوئی ایسی واضح اور آسان امتیازی چیز نظر نہیں آتی جس کو اس کیلئے معیار بنایا جا سکے۔ صرف ایک بات ہے جو ہر تعلیم یافتہ اور جاہل بآسانی محسوس کرسکتا ہے کہ چاند پہلے بہت معمولی اور باریک ہوتا ہے پھر بڑھتے بڑھتے چاندنی راتوں میں مکمل نظر آنے لگتا ہے اور بعد ازاں رفتہ رفتہ گھٹنے لگتا ہے۔ یہاں تک کہ پھر دو تین راتوں کیلئے تقریباً گم ہی ہوجاتا ہے۔

اب اس پورے چاند کے نظام پر غور کریں گے تو نظر آئے گا کہ یہ ترتیب ہر 29 یا 30 دن بعد پوری ہو جاتی ہے، اس لئے قمری ماہ کے اتنے ہی دن ہوئے۔ پھر جب بارہ مرتبہ اسی ترتیب سے چاند آتا جاتا نظر آتا ہے تو تقریباً وہی پچھلا موسم اور گزشتہ کاشت کے دن واپس آجاتے ہیں، اس لئے سال کے بارہ سے قرار پائے۔

مزید یہ کہ دنیا کی تقریباً ہر اہم زبان میں آج بھی مہینے کیلئے جو لفظ استعمال ہورہا ہے، اس کا تعلق سورج کے بجائے چاند سے ہے جسے مہینے، ماه، ماس، مون اور منتھ وغیرہ۔

قمری سال کيا ہے؟

قمری سال کا تعلق ایک ثابت شدہ حقیقت کے ساتھ ہوتا ہے یعنی چاند کے بارہ مرتبہ عروج و زوال پورے ہونے پر ایک سال شمار کیا جاتا ہے۔ اس سال کی ابتداء اور انتہاء کیلئے کسی موسم کا لحاظ نہیں رکھا جاتا اس لئے کبھی سردیوں میں اس کی ابتداء ہوئی ہے اور کبھی گرمیوں میں۔

آپ دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک کے روزے کبھی شدید گرمی میں پڑتے ہیں اور بھی معتدل موسم میں۔

اب یہ بات بھی ایک تسلیم شدہ حقیقت بن چکی ہے کہ چاند زمین کے گرد چکر لگاتا ہے اور وہ راستہ یا دائرہ جس پر چاند کا سفر ہوتا ہے بالکل گول نہیں ہے۔ اس لئے چاند کبھی زمین سے بہت قریب ہوجاتا ہے اور کبھی بہت دور۔ اس طرح چاند کی رفتار کبھی بدلتی ہے کبھی تیز کبھی سست۔ انہی باتوں کا نتیجہ ہوتا ہے کہ قمری مہینہ کبھی 30 میں دن کا ہوتا ہے اور کبھی 29 دن کا۔

زمین کے گرد چاند کے بارہ سفروں کا مجموئی وقت ۴۸۔۳۵۳ دن بنتا ہے، اس لئے ہر قمری سال اتنی مدت کا ہی ہوتا ہے اور اس میں کسی حساب کتاب کی مشقت برداشت کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

اہلِ عرب اور قمری سال

قمری سال کا تذکرہ آیا ہے تو اس کے ساتھ کبیسہ کی وضاحت بھی ضروری ہے۔ ہوا یوں کہ جب قمری سال رائج ہوا تو لوگوں نے محسوس کیا کہ جن قمری تاریخوں میں فصل تیار ہو رہی ہے، صرف تین چار سال بعد اُن دنوں میں فصل تیار نہیں ملتی بلکہ اس میں ایک مہینہ یا ایک چاند کا فاصلہ ہو جاتا ہے۔ اس فرق کی وجہ سے بہت کی کاروباری مشکلات پیدا ہوتی تھیں۔

اس مسئلے کرنے کیلئے لوند یا کبیسہ کا طریقہ رائج ہوا۔ شروع میں تو اس کا طریقہ کار بہت سادہ تھا کہ ہر قمری ماہ کے ساتھ کچھ اضافی دن بڑھا دیئے جاتے جس سے قمری سال بالآخر شمسی سال کے برابر اور موسموں کے مطابق ہو جاتا۔

بعد میں یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ ہر تین قمری سال بعد چوتھے قمری سال کو بارہ مہینوں کے بجائے تیرہ مہینوں کا بنا دیتے۔ لیکن یہ زائد مہینہ ہمیشہ سال کے آخر میں نہیں ہوتا تھا بلکہ باری باری ہر مہینہ کے ساتھ اس کا اضافہ کر دیا جاتا۔ اہلِ عرب نے بھی تقریباً یہی طریقہ اختیار کیا تھا، مگر دو سالہ۔ سرزمینِ عرب پر یہ حساب کتاب سب سے پہلے قبیلہ کنانہ کے ایک شخص ’’قلمس‘‘ نے کیا تھا۔

اس کے بعد سے یہ طریقہ رائج ہوگیا کہ ہر سال حج کے دنوں میں قبیلہ کنانہ کا سردار یہ اعلان کر دیتا تھا کہ اگلے سال حج کس مہینے میں ہوگا اور اضافی تیرہواں مہینہ کس مہینے کے ساتھ بڑھایا جائے گا۔ اس طرح "قلمس" شخصی نام کے بجائے ایک قومی عہدہ بن گیا اور اس کی جمع "قلامسہ" استعمال ہونے لگی۔

’’قلمس‘‘ صاحب کے کارنامے کا نتیجہ یہ ہوا کہ دو سال تک تو حج حقيقتاً ذی الحجہ میں آتا، لیکن اس کے بعد محرم پھر صفر پھر ربیع الاول میں، یہاں تک کہ کئی سال بعد پھر حج ذی الحجہ میں پڑتا لیکن گنتی میں ایک سال کم ہو جاتا۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ عرب چار مہینوں کو حرمت اور عزت والے مہینے سمجھے تھے۔ یہ چار مہینے رجب، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرّم تھے۔ اب جب حج کے مہینے میں کبیسہ کی وجہ سے ردّ و بدل ہونے لگا تو لازماً ان چاروں مہینوں کی ترتیب پر بھی اثر پڑا اور یہ اعلان بھی ’’قلامسہ‘‘ کے فرائض منصبی میں داخل ہوگیا کہ وہ حج کے مہینے کا اعلان کرنے کے ساتھ یہ بھی بتائے کہ اگلے سال حرمت والے مہینے کون کون سے ہوں گے؟ اہل عرب نے قمری کیلنڈر میں جو یہ تبدیلی کی انہیں ’’السینئی‘‘ کہتے ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے