درس گاہیں ، رقص گاہیں بننے لگی

dars gahen, raks gahen bannen lagi
  • rahilarehman
  • جون 8, 2024
  • 12:56 شام

بحیثیت قوم ہم وہ نہیں رہے جو ہمیں ہونا چاہئے تھا۔خصوصاً گرلز تعلیمی اداروں میں ”ہم وغیر نصابی“ پروگراموں اور فن فیئرز کے نام پر اخلاقیات کی حدود پامال کی جاتی رہی ہیں ۔

جب کسی ملک کی نوجوان نسل کوبنیادی نظریے اور فکری ورثے سے ہٹا کر بے راہ روی کی جانب راغب کیا جائے توپھر اس ملک و قوم کو اپنے معاشرے کے تحفظ اور بقا کے لیے طویل جدوجہد کرنا پڑتی ہے ،پاکستان دوقومی نظریے کی بنیاد پر لاکھوں انسانی جانوں کی قربانیوں کے بعد وجود میں آیا تھا لیکن بدقسمتی سے اس کو نام نہاد روشن خیالی ، معتدل مزاجی، اور مغرب کی غلیظ عادات کی آماجگاہ بنانے کے منصوبے پر کام کیا جا رہا ہے یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب بگاڑ غالب آجائے تو معاشرہ،قوم، مستقبل، غرض ہرچیز خطرے میں پڑ جاتی ہے۔بے حیائی صرف ایمان ہی کو نہیںبلکہ اسلامی تہذیب کو بھی کھا جاتی ہے۔ اسلامی ملک پاکستان کو ایک منصوبے کے تحت ”سیکولر“ بنانے کے منصوبے پر کام جاری ہے۔ آج ہمارے تعلیمی اداروں کی حالت زار یہ ہے کہ جن درس گاہوں کو محب وطن ڈاکٹر، انجینئر اور سائنسدان تیار کرنے چاہیں وہاں ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت درس گاہوں کو رقص گاہوں میں تبدیل کرنے کے لیے ناچ گانے کی ثقافت کو ملک کے ایک ایک کالج اور ایک ایک سکول پر مسلط کیا جارہا ہے۔ آج بدقسمتی سے ہمیں جو تعلیم دی جارہی ہے اور جو تربیت ہورہی ہے، وہ آج بھی ہمارے مقصد حیات سے متصادم ہے۔ آج ہمارا نظام تعلیم کانٹے بورہا ہے، تعلیم منفی ہو تو دامن خالی ہی رہتے ہیں۔جس تعلیم کی کوئی سمت نہ ہو اور جو تعلیم کوئی مقصد ہی نہ رکھتی ہو وہ فرد کو کیا سنوارے گی اور معاشرے کو کیا دے گی؟۔

بحیثیت قوم ہم وہ نہیں رہے جو ہمیں ہونا چاہئے تھا۔خصوصاً گرلز تعلیمی اداروں میں ”ہم وغیر نصابی“ پروگراموں اور فن فیئرز کے نام پر اخلاقیات کی حدود پامال کی جاتی رہی ہیں ۔آج بھی میوزیکل کنسرٹ، ڈانس پارٹیز و مقابلہ جات، فیشن شوز، کیٹ واک، فن فیئرز، سالانہ تقریبات اور اسی طرز کے دیگر پروگرامزکے انعقاد کے ذریعے ہماری ملی و دینی، ثقافتی اور قومی غیرت وحمیت کا جنازہ نکالا جارہا ہے اور ہماری تہذیبی و اخلاقی اقدار کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں۔ ملک بھر میں پرائمری سے لے کر یونیورسٹی کی سطح تک تعلیمی اداروں میں ”روشن خیالی“ کے نام پر جو وباءپھیل رہی ہے وہ ہمارے معاشرے اور تمد ن کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ اور نتیجتاً ان تعلیمی اداروں سے محب وطن لوگ اور مستقبل کے دانشور پیدا ہونے کے بجائے رومانوی داستانوں کے ہیروز اور مستقبل کے لالی وڈ اور ہالی وڈ کے ”ٹاپ سٹارز“ ابھر رہے ہیں۔

پاکستان کے تعلیمی اداروں میں مادر پدر آزاد کلچر کو فروغ دینے کے مغربی ایجنڈے کے تحت ماضی میں بلوچستان، پشاور ، اسلام آباد سمیت دیگر شہروں کے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیوں میں ثقافتی پروگراموں کے نام پر ”رقص “ کی محفلیں منعقد ہوتی رہی ہیں اب اس میں پنجاب حکومت بھی شریک ہوگئی ہے۔جب پنجاب حکومت نے تعلیمی اداروں میں موسیقی کے مقابلوں کا نوٹی فیکیشن جاری کیا تھا تو اس پر مذہبی جماعتوں، بالخصوص جماعت اسلامی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور یہ فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ طلبہ تنظیموں نے بھی اس مطالبے کی حمایت کی تھی۔ پنجاب حکومت کے فیصلہ پر طلبہ تنظیموںنے احتجاج کیا تھا جماعت اسلامی کی خواتین نے پنجاب کے بڑے شہروں میں مظاہرے بھی کیے تھے۔مظاہرے میں مختلف تعلیمی اداروں کے تدریسی عملے اور جماعت اسلامی کی خواتین نے بچوں سمیت شرکت کی اور حکومتی فیصلے کیخلاف نعرہ بازی کی گئی۔ مظاہرین نے حکومتی نوٹیفیکیشن کے اجرا کی مذمت کی۔ کتبوں پر ”ہمارے بچوں کو ناچنے پر انعام مت دو، انہیں اسکالر شپ دو“۔ اور ”موسیقی کے بجائے تعلیم پر سرمایہ کاری کرو“، کے نعرے درج تھے۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ تعلیمی ادارں میں ثقافت کے نام پر” کثافت“ کا فروغ ناقابل برداشت ہے کیونکہ والدین تعلیمی اداروں میں اپنے بچوں کو ناچ گانا اور رقص و سرود کی تربیت کیلئے نہیں بھیجتے۔اسی طرح طلبہ کی آل پارٹیز کانفرنس میں متحد ہوکر ہر سطح پر آواز اٹھانے اور اس کی مزاحمت کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں مرکزی مسلم لیگ، جعفریہ اسٹوڈنٹس فیڈریشن، نظریاتی اسٹوڈنٹس فیڈریشن، تحریک طلبا اہلحدیث، اہلحدیث اسٹوڈنٹس فیڈریشن، انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن، جمیعت طلبا اسلام، انصاف اسٹوڈنٹس فیڈریشن، مسلم اسٹوڈنٹس مومنٹ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) شامل تھیں۔

بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے تصورات، قراردادِ مقاصد اور آئین کا آرٹیکل 31تقاضا کرتا ہے کہ ہمارا قومی نظامِ تعلیم اور ہمارا قومی نصاب اسلام کے نظامِ حیات پر مبنی ہوگا ۔ لیکن ہمارے حکمران مغرب کے ایجنڈے اور خواب کو پورا کرنے کے راستے پر گامزن ہیں۔تعلیمی اداروں کو ناچ گانے کی محفل سجانے کی اجازت دے کر وہ کام کیا ہے جو اس سے پہلے سیکولر حکمراں بھی نہیں کرپائے۔تعلیمی اوقات کے دوران کسی بڑے پارک، یونیورسٹی کے سرسبز و شاداب لان یا کالج کے کوری ڈور میں بیٹھے طلبہ وطالبات کا ہیر رانجھا، لیلیٰ مجنوں اور شیریں فرہاد کی رومانوی داستانوں کو دہرانا، ساتھ جینے مرنے کا سبق پڑھنا تو ایک الگ موضوع ہے، لیکن سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں لوگوںکے سامنے سٹیج پر طلبہ کا رقص اور گانے گانا تعلیم کے مقاصد کی صریحاً نفی کرتا ہے جو قابل مذمت بھی ہے اور بے راہ روی کی جانب مائل کرنے کا ذریعہ بھیہے۔ افسوسناک حقیقت یہ بھی ہے کہ بعض والدین اور اساتذہ اپنے بچوں کی اس پرفارمنس سے محظوظ اور مطمئن ہوتے ہیں کہ ان کی ”تربیت“ میں کوئی ”کمی“ نہیں رہ گئی اور انہوں نے اولاد کو ”پالش“ کرکے اپنے حصے کا حق ادا کردیا۔آج ہمارے ہاں سب سے بڑا ظلم تعلیم کے نام پر ہورہا ہے۔ہمارے تعلیمی اداروں کا کردار ماضی جیسا نہیں رہا۔ ہماری توقیر، تکریم اور تحفظ ہمارے تشخص میں ہے لیکن ہم اپنے ہی گھر میں اجنبی بننے والے خود کو بھی کھورہے ہیں اور اپنے گھر (پاکستان) کو بھی۔ آج پاکستان کی نوجوان نسل جس تیزی سے بے راہ روی کے سمندر میں ڈوب رہی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے، اور ہم اسی پر خوش ہیں کہ ہم ”ترقی“ کی منازل بہت ” تیزی“ سے طے کررہے ہیں۔

پاکستان میں جگہ جگہ سکول، کالج اور یونیورسٹیاں موجود ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ بھی ہو رہا ہے، مگر اخلاقی لحاظ سے معاشرہ پستی کی جانب لڑھک رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ تعلیمی ادارے اپنا حقیقی کردار ادا نہیں کررہے۔ آج ہمارے دنیاوی تعلیم کے یہ ادارے جدید تحقیقات و ایجادات کے بجائے مغربی تہذیب سیکھنے سکھانے کے مستقل اڈے بن چکے ہیں۔ جہاں صنعت اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی طرف محنت اور توجہ کم اور مغربیت سیکھنے کا ذوق و شوق زیادہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم پر مسلط تعلیمی نظام نے ہمارے نوجوانوں کی اسلامی سوچ کو زیادہ پروان نہیں چڑھنے دیا، بلکہ نام نہاد ترقی کی آڑ میں انہیں آزاد اور آوارہ ماحول کی بھینٹ چڑھایا اور ڈھٹائی کے ساتھ اسے ہماری ثقافت سے نتھی کیا جارہا ہے۔ بدقسمی سے پاکستانی قوم نے اس ولائتی ماحول کو امارت کے اظہار، تہذیب، فیشن، فرینڈ شپ، ماڈرن ازم، اور انڈر سٹینڈنگ کا نام دے کر قبول کرلیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں روز بروز شدت سے پیدا ہونے والی اس روش کو اگر بدلا نہ گیا تو آنے والا وقت پاکستان کے تعلیمی اداروں کی تباہی کا پیغام لے کر آئے گا جو ہماری اسلامی ثقافت پر نہ مٹنے والے دھبے چھوڑ جائے گی۔بھارتی گانوں پر رقص کا یہ سلسلہ تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ ہماری شادی بیاہ کی رسومات، تفریحی پروگرامز اور دیگر تقریبات تک بھی پھیلا ہوا ہے۔ اور ماﺅں بہنوں کی ناموس سے بے نیاز اسے بدنام کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

اصولی بات یہ ہے کہ ہماری تہذیب اور تاریخ میں ان چیزوں کی گنجائش ہی نہیں ہے یہ ہمارے تمام بنیادی تصورات سے متصادم ہیں۔ ہمارے یہاں پہلے ہی تعلیمی اداروں کی صورت حال بد سے بدتر ہورہی ہے مخلوط تعلیمی اداروں میں بے حیائی اور منشیات کے رحجان میں تیزی سے اضافہ ایک منظم منصوبے کے ساتھ ہورہا ہے۔ پہلے ہی ٹی وی ڈراموں نے بے حیائی کو اذہان میں معمول کی بات کی طرح راسخ کردیا ہے۔ اس وقت قحبہ خانے کا کلچر شہر کی مخصوص حدود سے نکل کے پوش علاقوں تک پہنچ چکا ہے جس کا دائرہ پھیلتا جارہا ہے۔ یہ صورتحال ہماری سوچ سے بھی زیادہ خراب ہے، اخلاقی انحطاط تیزی سے پھیل رہا ہے اس وقت ایک ایسے نظام تعلیم کی ضرورت ہے جو ہمارے دین، تہذیب، روایت اور ریاست مدینہ کی تعلیم کے متقاضی ہو، ایسا نظام تعلیم اور تعلیمی پالیسی ہو جو آئین کے مقاصد کے تابع ہو۔ آئین پاکستان کا تقاضا ہے کہ ریاست کے شہریوں کی انفرادی زندگی اور مختلف اداروں وشعبوں میں قرآن اور سنت کی روح نظر آئے۔ فرد اور قوم کا طرز زندگی اسلامی ہو۔ پھر ہمارا تعلیمی ماحول ایسا ہو کہ نسل نو اپنی ثقافت، روایات اور اپنے تصورِ حیات کے قریب ہو نہ کہ دور۔ اس پس منظر میں سید مودودی نے درست رہنمائی فرمائی ہے وہ کہتے ہیں ”ہر تعلیم کسی نہ کسی تہذیب و ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہے۔

تعلیم کا مقصد کلچر کو زندہ رکھنا بھی ہوتا ہے اور اس کی نشوونما اور تسلسل کا اہتمام کرنا بھی ہوتا ہے تاکہ وہ آئندہ نسلوں میں منتقل ہوسکے۔ نظامِ تعلیم اس تصورِ حیات کو پوری قوم میں پھیلاتا اور نشوونما دیتا ہے جس تصورِ حیات کی حامل وہ قوم ہوتی ہے۔ زندہ قوموں کا شیوہ یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی تہذیبی اور نظریاتی زندگی کے تسلسل کو قائم رکھنے کے لیے اپنے لیے اپنی ضروریات کے مطابق نظام تعلیم کو ترتیب دیتی ہیں۔ نظام تعلیم کی حیثیت ملّی سانچے کی سی ہوتی ہے جس میں قوم کا فرد فرد ڈھلتا ہے۔ اس لیے ملت کے سانچے کا غیروں کی ضروریات کے مطابق نہیں بلکہ خالص اپنی ضروریات اور نظریات کے مطابق ہونا لازم ہوتا ہے“۔

میں سمجھتی ہوں کہ تعلیمی اداروں میں ناچ گانے کے پروگرامزکا انعقاد حکمران طبقے کا قابل مذمت اقدام ہے تعلیمی اداروں میں نوجوان نسل کو رقص و موسیقی کی تعلیم دینے اور ان کو بے راہ روی کی طرف جانے میں ریاست کی سطح پر رہنمائی اور حوصلہ افزائی کرناغیر آئینی کام ہے۔ اس ضمن میں ہمارے علماءاور نظریاتی سیاسی جماعتوں اور ہر پاکستان اور اسلام، سے محبت کرنے والوںکو موثر آواز اٹھانی چاہیے کیونکہ یہ ہمارا دینی و تہذیبی تقاضا ہے۔ اس پر خاموشی کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرے گی۔ یہ ایک بڑے منصوبے کی ابتداءہے اسے یہیںروکنا ہوگا۔پیشہ ورانہ تربیت کے نام پر تعلیمی اداروں میں بے حیائی کے فروغ میں سرگرم ہے۔ جو نظریہ اسلام اور پاکستان کے خلاف سنگین سازش ہے۔مسلمان معاشرے میں رقص، موسیقی اور اداکاری کو اسکول کی سطح پر شامل کرنا اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا تشویش ناک ہے۔افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حکومتی سطح پر اسکولوں میں موسیقی، رقص اور اداکاری کو فروغ دیا جا رہا ہے۔یہ فیصلہ بھی حکومت کی بدنیتی اور اسلام دشمنی کا بین ثبوت ہے۔حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے،یہاں کا آئین اسلامی ہے اور آئین میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ملک میں کوئی قانون یا اقدام اسلامی تعلیمات کے منافی نہیں ہو ں گے۔

ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں ملک بھر میں موجودہزاروں تعلیمی اداروں کی تباہ حال صورتحال، تعلیمی اداروں میں رشوت کے ذریعے اساتذہ کی بھرتی ،ہزاروں اسکولوں کی بندش، عمارتوں کی خستہ حالی اور بچوں کے لیے صاف پانی، بجلی،واش رومز کی سہولیات فراہم کرنے کے بجائے تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی کی محفلیں کرانے کی فکر پڑ گئی، معصوم بچے درختوں کی چھاﺅں میں تعلیم حاصل کرنے پر مجبور ہیں جس پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے ،کچھ پرائیوٹ تعلیمی ادارے پہلے ہی اسلامی اور اخلاقی حدود سے تجاوز کر رہے ہیں اور رقص و موسیقی اور دیگر مخرب الاخلاق پروگرامات کے ذریعے طلبہ کا کردار تباہ کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف تعلیمی فیسوں کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔تعلیمی اداروں میں موسیقی اور ناچ گانے کی کلاسز کا آغاز کرنے سے معاشرہ تباہ اور نوجوان نسل میں بے راہ روی کا چلن عام ہوجائے گا۔

پاکستان کے آئین کو اگر دیکھا جائے تو اس میں سب سے پہلا نقطہ یہ ہے کہااقتدارِاعلیٰ اللہ کی ذات ہے اور پاکستان میں جوبھی قانون ہوگا وہ اللہ اور اس کے رسولکی تعلیمات مطابق ہوگاتو کیسے اس شیطانی کام کو مسلمان اپنا کلچر کہہ سکتے ہیں؟ قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنانے کی جدوجہد زمین کا ایک ٹکڑا لینے کے لئے نہیں کی بلکہ ایک ایسا ملک یا خطہ لیا جائے جس میں ہم مسلمان اسلام کے سنہرے اصولوں کے مطابق قرآن و سنت پہ عمل کرتے ہوئے سکون سے زندگی گزار سکی۔ ایک اور جگہ پہ قائد کہتے ہیں کہ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرزِ حکومت کیا ہوگا؟ پاکستان کے طرزِ حکومت کا تعین کرنے والامَیں کون ہوتا ہوں؟ مسلمانوں کا طرز حکومت تو آج سے 1445سال قبل وضاحت سے قرآن کریم نے بیان کر دیا۔الحمداللہ قرآن مجید ہماری رہنمائی کے لئے موجود ہے اور قیامت تک رہے گا(آل انڈیا مسلم فیڈریشن 15نومبر 1942)۔پاکستان کے اسلامی معاشرے میںرقص و سرود کی محفلیں سجانا اور اخلاق سوز سر گرمیوں سے معماران قوم کی ذہنی اور اخلاقی کر دار سازی کی بجائے فحاشی ،عریانی اور مغربی تہذیب کے راہ پر ڈالنے کی کوشش ہے جو شعائر اسلام اور آئین پاکستان کے یکسر منافی ہے۔ ایسے حالات میں بچوں کی شحصیت سازی ضروری ہے نہ کہ مخلوط بے ہودہ ناچ گانے سے منفی افکار کو فروع دیا جائے۔ بدقسمتی سے جامعات علم کے نور پھیلانے کی بجائے ظلمت پھیلانے کا سبب بن رہے ہیں۔حکمران طبقے سمیت نئی نسل کے اساتذہ نے تو تعلیم گاہوں اور درس گاہوں کو مکمل طور پر رقص گاہوں میں تبدیل کردیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں روز بروز شدت سے پیدا ہونے والی اس روش کو اگر بدلا نہ گیا تو آنے والا وقت پاکستان کے تعلیمی اداروں کی تباہی کا پیغام لے کر آئے گا جو ہماری اسلامی ثقافت پر نہ مٹنے والے دھبے چھوڑ جائے گی۔

راحیلہ رحمن

کراچی سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی ہیں۔جو پہلے راحیلہ ممتاز کے نام سے اخبار وطن ، غازی اور تکبیر میگزین سمیت ملک کے مختلف اخبارات میں سپورٹس ،قومی اور بین الاقوامی امور، حالات حاضرہ اور سماجی مسائل سمیت عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف موضوعات پر لکھتی تھیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتی تھیں۔اب انہوں نے راحیلہ رحمن کے نام سے لکھنا شروع کیا ہے۔

راحیلہ رحمن