فلسطینیوں کی نسل کشی

Palestinion k nasal kushi
  • rahilarehman
  • جون 8, 2024
  • 1:06 شام

عالمی عدالت انصاف نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیئے-

دہشت گردی کے عالمی چمپئن اسرائیل نے امریکا ، فرانس اور برطانیہ کی سرپرستی کی بدولت 7 اکتوبر 2023 سے آج دن تک غزہ کی پٹی میں اپنی وحشیانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے، غزہ پر اسرائیل کے سفاکانہ حملوں کے نتیجے میں کم از کم پچاس ہزار سے زائد افراد شہید اور ایک لاکھ سے زائد زخمی ہوچکے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے مطابق رفح سے انخلا کرنیوالے فلسطینیوں کی تعداد 8 لاکھ سے متجاوز کر گئی ہے۔ غزہ میں جس رفتار سے لوگوں کی شہادت ہوئی ہے، اس کی موجودہ صدی میں کوئی اور مثال نہیں ملتی۔ جو لوگ ہلاک یا زخمی ہونے سے بچ گئے ہیں انھیں خوراک، صاف پانی، ادویات اور طبی سہولیات کی غیر موجودگی کے باعث جان کا خطرہ ہے۔ روزانہ بڑی تعداد میں خواتین انتہائی ہولناک حالات میں بچوں کو جنم دے رہی ہیں۔ انھیں دوران زچگی بے ہوش کرنے کا انتظام نہیں ہوتا اور ضروری طبی مدد بھی میسر نہیں آتی۔ چھوٹے بچے ماو ¿ں کی گود میں دم توڑ رہے ہیں، کیونکہ ان کے لیے دودھ میسر نہیں ہے۔ خوراک یا پانی کی قلت بھی بڑی تعداد میں بچوں کی اموات کا اہم سبب ہے۔ دوسری جانب عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر دفاع گلانٹ کے وارنٹ گرفتاری کے حوالے سے درخواست دائر کردی ہے۔عالمی فوجداری عدالت (ICC) میں غزہ میں جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے ارتکاب کے لیے اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر دفاع کی گرفتاری کی درخواست دائر کی گئی تو امریکا اور اسرائیل میں آسمان ٹوٹ پڑا۔

نیتن یاہو اور گلانٹ جن جنگی جرائم کے مرتکب پائے گئے ہیں ان میں فاقہ کشی کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے، غزہ باسیوں کو بھوکا مارنے، امدادی ساز و سامان کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالنے اور جان بوجھ کر شہری آبادی پر حملے کرنے کے جرائم بھی شامل ہیں۔عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیل کے وزیراعظم اور وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی درخواست پر امریکا نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور امریکی صدر جوبائیڈن نے اسرائیل کے ساتھ کھڑے رہنے کا اعلان کیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف میں جنوبی افریقا کی درخواست پر اسرائیل کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم پر مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، اسی طرح اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل ریاست کے قیام کے لیے یورپی ملکوں کی جانب سے بھی حمایت سامنے آگئی ہے۔ آئرلینڈ، اسپین، پولینڈ اور ناروے نے فلسطین کو بطور ایک ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ ان ممالک کا کہنا ہے کہ ہم متعدد وجوہات کی بنا پر فلسطینی ریاست کو تسلیم کررہے ہیں۔ اسرائیلی وزیراعظم اپنی تکلیف دہ اور تباہ کن پالیسی کے ساتھ مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی حل کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔فلسطین کو تسلیم کرنے کا مقصد دیگر ملکوں کو پیغام بھیجنا ہے کہ اگر فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر تسلیم نہ کیا گیا تو مشرق وسطیٰ میں قیام امن کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ یورپ کے ان ممالک کے فیصلوں پر اسرائیل نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آئرلینڈ اور ناروے سے اپنے سفیروں کو واپس بلالیا ہے۔

اقوام متحدہ میں فلسطین کی آزاد ریاست کے قیام کے مطالبے اور عالمی عدالت انصاف کی جانب سے اسرائیلی وزیراعظم اور وزیر دفاع کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کے اعلان سے تاریخ میں پہلی بار اسرائیل دفاعی پوزیشن میں آیا ہے اور دنیا کو معلوم ہوگیا ہے کہ نام نہاد ”آزاد دنیا“ میں ایک ایسی قوم بھی موجود ہے جو غلام ہے اور اس کا نام فلسطین ہے جس کے ایک حصے کو چاروں طرف سے محصور کرکے اس قوم کی نسل کشی کی جارہی ہے۔ اسرائیل دنیا کی سات بڑی فوجی طاقتوں میں سے ایک ہے اور وہ گزشتہ آٹھ مہینے سے مسلسل نہتی شہری آبادی پر بمباری کررہا ہے اور ایک چھوٹے سے خطے کو کھنڈر بنادیا ہے۔ اسرائیل کی حکومت اور فوج کی قیادت نے دنیا کے سامنے ڈھٹائی کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ جب تک حماس ختم نہیں ہوجاتی اس وقت تک حملے جاری رکھیں گے۔ اسی وجہ سے حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات ناکام ہوگئے۔ جنگ بندی کے مذاکرات ناکام ہونے کے بعد خود امریکا اور یورپ میں اسرائیلی فوج کشی کے خلاف عام آدمیوں کے مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ امریکا کے تعلیمی اداروں اور جامعات میں ایسے مظاہرے ہوئے ہیں ویسے مسلم ملکوں میں بھی نہیں ہوئے ہیں۔ اسرائیل کی سرپرست کمپنیوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ نے بھی دباﺅ بڑھایا ہے۔ اس کے باوجود امریکا اور اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی پر تلے ہوئے ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ جو دنیا کا منظرنامہ اپنی خواہش کے مطابق دکھاتے ہیں وہ بھی ناکام ہوگیا اور امریکا اور یورپ کے عوام کو بھی معلوم ہوگیا کہ اسرائیل جنگی مجرم ہے۔ تاریخ میں پہلی بار امریکا اور یورپ کے عام آدمی کو معلوم ہوا کہ اصل دہشت گرد اسرائیل ہے اور اس کے جنگی جرائم کی سرپرستی امریکا کررہا ہے۔ وہ باضمیر انسانوں کی آواز سننے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔

رواں برس جنوری میں عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کو جنوبی افریقہ نے اس بات کے اچھے خاصے شواہد فراہم کر دیے تھے کہ اسرائیل غزہ میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کر رہا ہے۔ نیتن یاہو کو امید تھی کہ امریکا کے دباو ¿ کے سامنے عالمی عدالت بے بس ہوجائے گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2015میں فلسطین کو عالمی فوجداری عدالت نے رکنیت دے دی تھی۔اس لیے تکنیکی طور پر اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اسرائیلی شہریوں کے ان جرائم کی تحقیقات کرسکتا ہے جن کا ارتکاب مقبوضہ فلسطینی علاقوں مثلاً مغربی کنارہ، غزہ اور مشرقی یروشلم میں کیا گیا ہو۔ ابھی تک عالمی عدالت نے افریقہ یا روس کے حکمرانوں کے خلاف گرفتاری کے پروانے جاری کیے تھے۔ آئی سی سی کو پچھلے چند ہفتوں سے اس ممکنہ اقدام سے باز رکھنے کے لیے اسرائیل اور امریکا سخت دھمکیاں دے رہے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ آئی سی سی نے 2020 میں افغانستان میں امریکا اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کے ذریعے ممکنہ جنگی جرائم کے ارتکاب کی تحقیقات شروع کی تو چراغ پا ہوکر ڈونلڈ ٹرمپ نے عالمی عدالت پر پابندیاں عائد کردی تھیں، لیکن جب بائیڈن صدر منتخب ہوئے تو انھوں نے ان پابندیوں کو ” غیر مناسب اور غیر موثر“ قرار د ے کر اٹھا لیا تھا۔اب اگر بائیڈن آئی سی سی پر تادیبی کارروائی کرتے ہیں تو ان کی جگ ہنسائی ہوگی، اس طرح کے اقدام سے ساری دنیا میں یہ پیغام بھی جائے گا کہ سپر پاور اور اس کے دوست ممالک ہر ایسی تحقیقات کی راہ مسدود کرسکتے ہیں-

جنھیں وہ اپنے جیو پالیٹیکل مفادات کے منافی سمجھتے ہیں۔ تل ابیب میں نیتن یاہو حکومت نے اس اقدام کی سخت مذمت کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی” تاریخی رسوائی“ کہا تو واشنگٹن میں جو بائیڈن نے اسے ” اشتعال انگیزی“ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عالمی عدالت کے پراسیکوٹر جو بھی چاہے سوچیں اسرائیل اور حماس کے درمیان کوئی موازنہ ہوہی نہیں سکتا۔آئی سی سی دنیا کی واحد عدالت ہے جو کسی فرد پر جنگی جرائم، انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کا مقدمہ چلا سکتی ہے۔ عدالت کے پاس اپنی ملٹری یا پولیس نہیں ہے اس لیے وہ مجرموں کی گرفتاری کا پروانہ تو جاری کرسکتی ہے لیکن ان کی گرفتاری کے لیے اسے اپنے رکن ممالک پر انحصار کرنا ہوتا ہے۔ابھی چیف پراسیکوٹر نے گرفتاری کی استدعا کی ہے۔ اب ان کی درخواست پر آئی سی سی کے جج غور کریں گے اور یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ وارنٹ کی درخواست کو منظوری مل جائے گی۔ اس بات کا امکان کم ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم یا وزیر دفاع دی ہیگ میں عالمی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوں گے تاہم اگر وارنٹ جاری ہوگئے تو ان کا صرف علامتی اثر نہیں ہوگا بلکہ اس سے ان لیڈروں کی بین الاقوامی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوگی۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل کی اصلاحات پر رکن ریاستیں تقسیم کا شکار ہیں جن میں جی 4 ممالک بھارت، برازیل، جرمنی اور جاپان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں مستقل نشستوں میں اضافے کی حمایت کر رہے ہیں جب کہ پاکستان اور اٹلی کی قیادت میں اتفاق رائے کے لیے اتحاد ( یو ایف سی) نامی گروپ مستقل ممبران کی تعداد میں اضافے کی مخالفت کر رہا ہے۔ سلامتی کونسل اس وقت 5 مستقل رکن ممالک برطانیہ، چین، فرانس، روس اور امریکا جبکہ10غیر مستقل اراکین پر مشتمل ہے۔سلامتی کونسل میں مستقل رکنیت اور ویٹو پاور جن ممالک کو حاصل ہے، ان میں دنیا کی ایک ربع کے لگ بھگ آبادی اور ساٹھ کے قریب مستقل حکومتیں رکھنے والے عالم اسلام کو ایک نشست بھی حاصل نہیں ہے، جس کی وجہ سے عالمی فیصلوں میں عدم توازن کی مستقل کیفیت دکھائی دے رہی ہے اور مسلم ممالک کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔ دیگر ممالک سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کا قانونی حق رکھتے ہیں تو یہ حق مسلم ممالک بھی رکھتے ہیں۔ پاکستان مسلم امہ کی قیادت کا اہل ہے۔ پاکستان کو بھی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت سے مسلم امہ کی ایک مستقل نشست دی جائے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں صرف مسلم ممالک میں انسان اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیوں نظر آتی ہیں؟ اقوام متحدہ کے بینر تلے سلامتی کونسل کی مستقل نشستوں میں توسیع اور درجہ بندی وہ عوامل ہیں جن سے مسلم امہ کو بلاکوں کی صورت میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ عالم اسلام کو اس کی آبادی اور رکن ممالک کے تناسب سے سلامتی کونسل میں نشستیں دی جائیں اور یہ مستقل رکنیت نمائشی اور غیر اختیاری نہ ہو بلکہ ویٹو پاور کے ساتھ ہو کیونکہ اس کے بغیر توازن اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ دنیا کو آج مشترکہ مسائل کے مشترکہ حل کے لیے زیادہ موثر طریقہ کار اختیار کرنے کی ضرورت ہے، دنیا آج ایک دوراہے پر پہنچ گئی ہے اور اگر دنیا بھر کے رہنما آج ایک سمجھوتے پر نہ پہنچ سکے تو تاریخ ان کے بارے میں انتہائی سخت فیصلہ صادر کرے گی، کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کے جمہوری کردار کا تعین اس لیے ضروری ہے کہ فاتح اور مفتوح کا تاثر ختم ہوسکے، اقوام متحدہ کی عزت و حرمت بحال ہوسکے، جو امتیازی طرز عمل اور حکمت عملی کے سبب مجروح ہوچکی ہے، اقوام عالم میں آزادی، خود مختاری اور وقار کے ساتھ زندہ رہنے کا حوصلہ پیدا ہوسکے، ویٹو کے خاتمے سے آمریت کو ختم کرکے جمہوریت قائم کی جاسکے تاکہ اقوام متحدہ جمہوری انداز سے عدل و انصاف پر مبنی نظام قائم کرسکے۔

وحشی درندہ اسرائیل گزشتہ 8 ماہ سے غزہ کی شہری آبادی کو جدید ترین اسلحے سے ہلاک کررہا ہے جبکہ حماس اسرائیل کی فوج کا مقابلہ کررہی ہے۔ جسے اپنی آزادی کی حفاظت کے لیے عالمی قوانین سمیت پر دلیل سے حق حاصل ہے۔ اسرائیل کا ناجائز قیام مشرق وسطیٰ میں امن کے راستے میں اصل رکاوٹ ہے۔ مشرق وسطیٰ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے امریکا نے فلسطینی تحریک آزادی کے قائد یاسر عرفات کے ساتھ معاہدہ کیا جسے دو ریاستی حل قرار دیا جاتا ہے لیکن اسرائیل نے اس معاہدے کی بھی پابندی نہیں کی۔ حماس کے فلسطینیوں کی مزاحمت ختم کرنے کی سازش ناکام بنادی۔ اب وہ ممالک بھی جو فلسطینی اور مسلمانوں سے ہمدردی نہیں رکھتے وہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ فلسطین کی آزاد اور خود مختار ریاست کے قیام کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔

راحیلہ رحمن

کراچی سے تعلق رکھنے والی سینئر صحافی ہیں۔جو پہلے راحیلہ ممتاز کے نام سے اخبار وطن ، غازی اور تکبیر میگزین سمیت ملک کے مختلف اخبارات میں سپورٹس ،قومی اور بین الاقوامی امور، حالات حاضرہ اور سماجی مسائل سمیت عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف موضوعات پر لکھتی تھیں جبکہ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کے انٹرویوز بھی کرتی تھیں۔اب انہوں نے راحیلہ رحمن کے نام سے لکھنا شروع کیا ہے۔

راحیلہ رحمن