تازہ ترین

بعثت نبوی کے وقت دنیا کی حالت – ایک اجمالی نقشہ

madina-sharif-453
  • محمد یوسف فرید
  • مئی 4, 2020
  • 9:36 شام

حضور ﷺ کے بعثت کے وقت تک تمام اقوامِ عالم برائی اور اخلاقی پستی کا شکار تھیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے عظیم مصلح کے طور پر نبی اکرم ﷺ کو تمام اقوام کے لیے مبعوث فرمایا۔

دنیا میں برائی اور گناہ کو فنِ لطیف بنادینے والے بھی اور قوم کی حالت پر کڑھنے اور درد مند دل رکھنے والے بھی ہر جگہ اور ہر زمانے میں ہوتے ہیں ۔ برائی اور اخلاقی پستی جتنے بڑے طبقے میں پھیلتی اور شدت اختیار کرتی ہے اتنے ہی بڑے کردار کے مصلح کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انبیائے سلف کے زمانے میں معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایک قوم، کسی ایک بستی میں برائی کو بھلائی سمجھنے لگنا عام ہوتا تھا۔ اور باقی دنیا ایک حد تک گوارا کرنے کے قابل کردار رکھتی تھی ۔ اور نبی بھی خاص مقام کے لیے روانہ کئے گئے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ عہد نبوی کے آغاز پر دنیا کے کس کس ملک میں مصلح کی ضرورت تھی ۔ ایک ہی آدم و حوا کی اولاد ہونے کے باوجود روز افزوں پھیلنے والی نسل انسانی قدیم زمانے میں ذرائع معشیت کی ضرورتوں سے جب اپنوں سے بچھڑتی اور رشتہ داروں سے دور دوسری جگہ بستی تو پھر اپنے مرکز سے تعلق رکھنے کی ضرورت یا موقع کم ہی پیش آتا تھا ۔ ایک تو ذرائع نقل وحمل کی کمی تھی ۔ دوسرے ہر مقام اپنی ضرورتوں کے لیے جو زیادہ تر غذا، لباس وغیرہ پر مشتمل ہوتیں ، خود اکتفا ہوتا ۔ یہ نہ تھا کہ آج کل کی طرح ہر کوئی اپنی کسی نہ کسی ضرورت کے لئے دوسروں کا محتاج ہو، کہیں روئی نہ ہو، کہیں کوئلہ یا پٹرول نہ ہو، کہیں کاغذ کا مواد نہ ہو ۔ اس کا نتیجہ تھا کہ قدیم زمانے میں بین الاقوام اور بین الممالک تعلقات ناپید سے تھے ۔ ناگزیر نبی اور مصلح بھی قومی ہوتے تھے ۔ (عالمگیر اوربین الاقوامی نہیں ) اور ان کی تعلیم کسی بربری، کسی غیر بنی اسرائیل، کسی غیر آربہ سے متعلق ہی نہ ہوتی تھی ۔ انسانیت میں بین الاقوامی احتیاج رفتہ رفتہ ہی پیدا ہوئی ۔ اور عہد نبوی کے آغاز پر اس کا عبوری دور اس حد تک گزر چکا تھا کہ مہمات پسندعرب تاجر ایک طرف حبش و مصر و شام کو تو دوسری طرف چین و ایران و ہند کو کارواں لے جایا کرنے لگے تھے ۔ بڑے بڑے جہاز بنانا اور زمین کے قلابے انسان سیکھ چکا تھا ۔ ناگزیر اب نبی بھی مختص الکان، اور مختص الزمان ہونے کی جگہ ایسا ہونا ضروری تھا جو معتدل اور مستقل تعلیم دے ۔

سرد ممالک ہوں یا گرم ، شہری باشندے ہوں کہ خانہ بدوش، سب کو ایک مرکز سے دوبارہ جوڑنا اور سب کے لیے بنیادی مذہب لانا ممکن ہو ۔ تعلیم میں مستحب اور نفل کی تھوڑی سی لچک ضرور ہے ۔ لیکن اقل قلیل فرائض بنیادی مذہب کا کام دے سکیں اور وہ سب ہی کے لیے یکساں ہوں ۔ یونان کسی زمانے میں حکمت اور فصاحت کے دریا بہا چکا تھا ۔ دنیا کو اسکی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کے لیے حکمت اور فصاحت کے ایک بہتر اور بلند تر نمونے کی ضرورت تھی ۔ روما نے قانون سازی میں کمال پیدا کیا تھا ۔ اور رسول عربی کی ولادت سے پانچ ہی سال پہلے مرنے والے شہنشاہ جسٹی نین نے رومی قوانین کی تدوین کا کارنامہ انجام دلاکر دنیا کو ایک چیلنج دیا تھا کہ اس سے بہتر قانون لاؤ ۔ اسی طرح ہندوں نے کچھ ، مصریوں نے کچھ، ایرانیوں نے کچھ ، ایسے کارنامے چھوڑے تھے جن سے خاص خاص شعبوں میں انسانی ذہنیت پر ان کی برتری مسلم ہوچکی تھی ۔ اور ضرورت تھی کہ انسانی ذہن کی صحت مند بالیدگی کے لیے ان کچلنے والے مواقع کو دور کردیا جائے ۔ اور انسان کو عقل ، فکر، نظر، بصر، سمع، تفقہ، تدبر، شعور، علم وغیرہ کام لینے پر آمادہ کیا جائے ۔ ان عطا یائے فطری کو معطل کرلینا اسے انفرادی جواب دہی سزا ا جزاء سے بھی علیحدہ کرلینا فی الحقیقت اطاعت شعار فرشتوں اور سرکش شیطانوں سے الگ ایک احسن تقویم والی مخلوق کے پیدا کرنے کی غرض کو فوت کردینا ہے ۔ ان تمہیدی نکات کے ساتھ دنیا کے بڑے ممالک کی عام حالت سے جو بعثتِ نبوی کے وقت تھی، ضروری واقفیت حاصل کرلینی چاہیے۔

چین

چین نے اقصائے مشرق میں اپنی صلاحیتوں کے معراج کمال کا مظاہرہ اپنے مصلح کونگ فوت سیو (کنفوشیوس زمانہ 551 تا 549  ھ ق م) کی صورت میں کردیا تھا ۔ عہد نبوی کے آغاز پر وہاں عجیب حالت تھی ۔ کنفوشی نظام پارہ پارہ ہوچلا تھا ۔ ہند کا بدھ مت وہاں گھسنے اور ایک عبوری دور پیدا کرنے کا باعث بنا ہوا تھا ۔ متاخر خاں (Huns اہن) خانوادے کی حکومت عرصہ ہوا ختم ہوچکی تھی اور اس کی جگہ وائیWu Wai اور شو (Shu) کی تین حکومتیں قائم تھیں کہ خانہ جنگییوں کا ایک ختم نہ ہونے والا سلسلہ چھڑ گیا اور ملک کو انسانیت کی کسی خدمت کے ناقابل بنا چکا تھا ۔ گھریلو فتنے پر مستزاد تاتاریوں ، ہسیونگ نو اور تبت والو کے حملے بھی تھے ۔ عرصہ دراز کے افتراق کے بعد خانوادہ سوئی نے ۹۸۵ ءتا ۸۱۶ ء تیس سال کے قلیل عرصے کے لیے ملک میں بہت کچھ وحدت پیدا کی ۔ مگر ہجرت نبوی سے دوسال پہلے ہی اس کا خاتمہ ہوگیا ۔ پھر ٹءانگ خانوادہ برسر اقتدار آیا تو آہستہ آہستہ حالت کچھ سدھری اور ملک میں امن اور یکجہتی تو پیدا ہوئی مگر ہم چومن دیگرے نیست کا ترقی سوز جذبہ انھیں کچھ سیکھنے میں مانع ہی رہا.

ہند

ہند میں ایک ہزار سال قبل مسیح آریہ قبائل آگھسے تھے ۔ جات پات کے نظال، مظاہر پرستی کی سطحیت کے تحت کروڑوں دیوتاءوں کی ایجاد، رہبانیت ترک دنیا کو انسانیت کا کمال سمجھنے کا جذبہ اور ہر طرح کی چیزیں اُسے پوری انسانیت کی اجتماعی زندگی کی خدمت کے ناقابل بنا چکی تھیں ۔ کنفوشیوس کے، ہم عصر زمانے میں گوتم بدھ نے برہمنوں کی مراسم پرستی کے خلاف احتجاج کرکے ایک دوسری انتہا پسندی کی تعلیم دی ۔ علاج صیحح تھا ۔ مگر ظاہر ہے کہ وہ عارضی ضرورتوں کے لیے تھا، چند دن وہ پھلا پھولا ۔ مگر ایک تو معتدل حالات کے لیے اس میں ٹھوس بنیادیں نہ تھیں دوسرے بدھ مت اور برہمنیت کی کشش ایک دوسرے پر عارضی فتح کے بعد بالآخر بدھ مت کو بڑے مظالم کے بعد ہند سے خارج کردینے کا باعث بنی ۔

عہد نبوی سے پہلے ہند پر وسط ایشیاء کے سفید خان (Huns)خانوادے کی حکومت تھی مگر ولادتِ نبوی سے پانچ سال پہلے ۵۶۵ء میں دریائے جیحوں پر اس حکومت کو شکست ہوئی، تو ہند پر سے بھی اس کا تسلط جاتا رہا ۔ پھر تھانیسر کے راجہ کا چھوٹا بیٹا ہرش (زمانہ 606 تا 48 ء) شمالی ہند کا مالک بنا ۔ آسام بنگال، نیپال، مالوہ، گجرات، کاٹھیاوار وغیرہ اس نے رفتہ رفتہ فتح کئے ۔ مگر 610 ء میں ہجرت نبوی سے کچھ پہلے اس نے دکن کا رخ کیا تو چلوکیا خاندان کے راجہ پلی کے سن دوم نے اسے دریائے نربدا پر شکست دے دی ۔ اس کی اولاد نہ تھی ۔ اپنی رعایا کو اس نے آرام طلب بنالیا تھا ۔ اس کی موت کے ساتھ ہی اس کی شہنشاہی کا خاتمہ ہوگیا اور پھر صدیوں تک تباہ کارانہ خانہ جنگیاں ہوتی رہیں ۔ چلوکیا والوں نے ہرش کو شکست تو دی مگر کاورم کے پلواوالوں کے ہاتھ خود بھی تباہ ہوگئے اور ان کی سلطنت پنپ نہ سکی ۔

ترکستان
یہ بڑا مردم خیز خطہ ہے ۔ مگر سنہ عیسوی کی سات صدیوں تک یہاں کی حالت کا ہمیں  کچھ بھی علم نہیں ۔ عہد نبوی کے ہم عصر خان (Huns) تبت پر چھا گئے تھے اور مغربی ترکوں کی مدد سے براج رہے تھے ۔ مگر ان میں نہ کوئی تمدن تھا اور نہ خود غرضی کے سوا انسانیت کی خدمت کے لیے ان میں کوئی بلند مطمح نظر ہی ۔

رومی و ایرانی

یونان تو کبھی کا ختم ہو چکا ہے ۔ اس کی جگہ یورپ میں رومی حکومت قائم ہوگئی تھی ۔ مگر جب وہ مشرقی و مغربی دو حصوں میں بٹ گئی تو ہم دیکھتے ہیں کہ عہد نبوی کے زمانے میں مغربی رومیوں پر جرمن وغیرہ قبائل ٹوٹ پڑے اور پایہ تخت روما کے بھی مالک بن گئے تھے ۔ اِن اَن پڑھ وحشیوں نے جو کچھ کیا ہوگا اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ انہوں نے محبت کے مذہب یعنی عیسائیت کو قبول کیا تو غیر عیسائیوں سے زیادہ بے رحمی اور بے اصولی دکھاتے رہے ادھر مشرقی رومی حکومت قسطنطنیہ کے صدر مقام سے ہمسایہ ایرانیوں کے ساتھ صدیوں تک آویزش میں مبتلا رہی ۔ عہد نبوی کے ابتدائی زمانے میں ایرانیوں نے اپنے حریفوں سے مصر اور شام وغیرہ تک چھین لیے تھے اور قران مجید میں غلت الروم فی ادلی الارض کا اعلان کیا ۔ مگر ۶ ھ یعنی صلح حدیبیہ کے زمانے میں نینوی (موصل) کے میدان پر رومی شہنشاہ ہرقل نے ایرانیوں کو ایسی فیصلہ کن شکست دی کہ ان کے ہاں شاہ گردیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ اور ایران سنبھل ہی نہ سکا قسطنطنیہ کے رومی (بازنطینی) اس فتح سے کیا فائدہ اٹھاتے جب کہ صدیوں کی بیرونی جنگوں نے ایک طرف ملک کو تباہ و تاراج کردیا تھا تو دوسری طرف مذہبی فتنے بھی ان کے ہاں ناقابل بیان تھے ۔

چنانچہ حضرت مسیح میں صرف خدائی طبیعت کا ہونا یا خدائی اور انسانی ہر دو طبیعتوں کا پایا جانا یا دو طبیعتوں مگر ایک مشیت کا پایا جا نا وغیرہ نظریے فرقہ بندی پیدا کررہے تھے ۔ اور ہر فرقہ اتنا تنگ نظر تھا کہ دوسرے پر اتنے مظالم کرتے رہے کہ جب حکمران فرقے سے مسلمانوں کی جنگ ہوئی تو دوسرے فرقے کے عیسائی دل و جان سے ان اجنبی غیر مذہب والوں کو خوش آمدید کہتے اور ان کو مدد دیتے رہے ۔ اور مسلمانوں کے ماتحت رہنا ان کو غیر فرقے کے عیسائیوں کے ماتحت رہنے سے کہیں زیادہ اچھا معلوم ہوتا تھا ۔

یہی حال ایران کا تھا ۔ مزدکیت کی دولت اور عورت میں اباحت پسند انہ اشتراکیت نے عرصے تک ملک کو نہ صرف خانہ جنگی میں مبتلا رکھا بلکہ ملک کے اخلاق کو ناقابل اصلاح طور پر تباہ کردیا تھا ۔ حد ہوگئی کہ مزدک نے بھرے دربار میں شہنشاہ سے مخاطب ہوکر کہا تھا کہ یہ تیری ملکہ بھی تیری نہیں ہے بلکہ اس سے ہر شخص استفادہ کرسکتا ہے اور اس پر نہ اسے غیرت آئی اور نہ یہ شرمائی ۔ پھر نوشیرواں تخت نشین ہوا تو اس نے اپنے باپ کے عمل کو الٹ دیا ۔ اور اب آتش پرستی نے مزدکیت کے خلاف وہ ظلم ڈھائے کہ بیان سے رونگٹے کھڑے ہوجائیں ۔ اسی زمانے میں رسول اکرمﷺ کی ولادت ہوئی ۔ مگر جیسا کہ ہم نے دیکھا رومیوں نے ایرانیوں کو کچھ ایسی زک دی تھی کہ وہ پنپ نہ سکے ۔

حبش

حبش بھی کافی بڑا علاقہ ہے اس نے ایرانیوں سے یمن چھین لیا تھا ۔ مگر جب یہ شمال عرب میں بڑھے تو ولادت نبوی کے سال یہ ’’ اصحب الفیل‘‘ کیڑا کھائے ہوئے کھوکھلے دانوں (عصف ماکول) کی طرح ختم ہوگئے ۔ اور جلدی ہی عہدِ نبوی میں ان کی حکومت عرب میں اور خود حبش میں بھی خانہ جنگیوں وغیرہ میں پھنس کر بیکار ومعطل ہوگئی ۔ اور مسلمان مہاجرین ہمیشہ خود حبش کی ان خانہ جنگیوں سے پریشان رہے ۔

غرض اس زمانے میں جدھر دیکھو دنیا میں تباہی اور فتنہ و فساد ہی تھا ۔ کسی جگہ بلند نظرانہ عالی ہمتی اور درد مندانہ انسانیت پر وری نظر ہی نہ آتی تھی ۔ ضرورت تھی کہ پوری دنیا کو اب جنجھوڑ کر یادلایا جائے کہ وہ سب ایک ہی آدم و حوا کی اولاد ہے ۔ اور ملک وار، قوم وار، نسل وار، اور ایسے ہی دیگر محدود مذاہب سے نجات دلائی جائے ۔ اور تمام انسانی دنیا کے لیے ایک ’’بنیادی مذہب‘‘ پیش کیا جائے جو زمان و مکان کے فرق سے بالا اور جاتیوں اور طبقوں کے امتیاز سے بری ہو ۔ اور ہر انسان کو انفرادی حقوق اور ذمہ داریاں عطا کرکے نوبشری کی تخلیق کی اصلی غرض و غایت پوری کرنے کا انتظام کیا جائے ۔

(جاری ہے)

محمد یوسف فرید

محمد یوسف فرید پیشے کے اعتبار سے انجینئیر ہیں اور سوشل میڈیا پر بلاگز لکھتے ہیں.

محمد یوسف فرید