تازہ ترین

اردو زبان براۓ اجتماعی پہچان

images (3)
  • خواجہ ناظم عثمانی
  • مئی 6, 2020
  • 5:01 شام

اردو زبان کو پاکستان کے آئین 1973ء کی شق 251 کے تحت قومی زبان کا درجہ حاصل ہے مگر اردو زبان کا تاحال عملی طور پر نفاذ پورے ملک میں سرکاری سطح پر نہ کیا جا سکا ہے

اردو زبان کو پاکستان کے آئین 1973ء کی شق 251 کے تحت قومی زبان کا درجہ حاصل ہے مگر اردو زبان کا تاحال عملی طور پر نفاذ پورے ملک میں سرکاری سطح پر نہ کیا جا سکا ہے جو یقینا باشعور اور محب وطن لوگوں کی دیگر قوم پرست ممالک (چین، شمالی کوریا، انڈونیشیا وغیرہ) کے سامنے سبکی و بےتوقیری کے سوا کچھ نہ ہے

اردو زبان کی اصلاح و ترویج کی خاطر اردو ادب میں ایم۔ فل و ڈاکٹریٹ کرنے والے حضرات گراں قدر کام کر رہے ہیں تاہم راقم دستیاب وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ٹوٹے پھوٹے الفاظ احباب کی نذر کر رہا ہے۔
اردو زبان بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کی سرکاری زبان ہے (یاد رہے ریاست جموں کشمیر میں اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ آخری حکمران مہاراج دھیراج مہاراجہ ہری سنگھ جی بہادر نے قرار دیا تھا) اور بھارت میں ہندی زبان کے ساتھ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے۔ اردو زبان بھارت کی کئی ریاستیں جن میں تیلنگانہ، اتر پردیش، بہار، جھاڑ کھنڈ، مغربی بنگال کی دیگر زبانوں کے ساتھ اضافی طورپر سرکاری زبان کا درجہ رکھتی ہے مگر وائے افسوس اردو کو ملک پاکستان و پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں سرکاری زبان کے طور نافذ نہ کیا جا سکا جو باعث شرم ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ عہد میں اردو زبان مسلمانوں کی علامت و پہچان والی زبان بن چکی ہے۔
اردو کو پورے ملک میں سرکاری سطح پر لاگو کرنے کے لئے پاکستان کی عدالت العظمیٰ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے مورخہ 08۔09۔2015 کو ایک فیصلہ صادر کیا تھا، قطع نظر کہ مذکورہ فیصلہ کا جملہ متن انگریزی زبان میں تحریر شدہ ہے۔

یہاں ہرشخص اپنے آپ کو اردو زبان میں یدطولیٰ گردانتا ہے مگر ایسا بالکل نہ ہے چوں کہ ان میں سے کچھ لوگوں نے اردو اسکول، کالج و جامعات کے ان اساتذہ سے سیکھی ہوتی ہے جو خود اردو کے الفاظ کے تلفظ غلط لکھتے، پڑھتے اور بولتے ہیں۔ دفاتر میں کام کرنے والے اہلکاران یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اردو زبان پر مکمل گرفت رکھتے ہیں مگر عملی طور پر بے سود، چوں کہ ان لوگوں نے دوران ملازمت روزمرہ خط و کتابت میں استعمال ہونے والے الفاظ کو ہوبہو یاد کر لیا ہوتا ہے اور وہ بس پھر

ان ہی الفاظ کا جال بنتے اور دفتر کی زینت بناتے ہیں۔
اردو زبان کا یہ قاعدہ و اصول ہے کہ ہر وہ لفظ جو اپنا الگ معنی رکھتا/دیتا (یعنی مرکبات) ہو اس لفظ کو الگ لکھا جائے مگر یہاں لاتعداد الفاظ غلط تحریر کئے جاتے ہیں جو اب غلط العام یا غلط العوام کا درجہ دھار چکے ہیں۔ اگر سرکاری شعبہ جات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ وہ لوگ اپنے سینئر کے لئے لفظ جناب کا استعمال کرتے ہیں حالاں کہ یہ سب اس

بات سے ناآشنا ہیں کہ عزت مآب، فضیلت مآب عالی مقام، حضور والا و دیگر اس نوع کے القابات صرف سربراہ ریاست (صدر، وزیراعظم)،مذہبی و سماجی رہنما (امام کعبہ، پوپ فرانس، شیخ احم دیدات، عبدالستار ایدھی وغیرہ) یا وہ لوگ جو بذریعہ انتخابات عوام کے نمائندے منتخب ہوئے ان کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور یہاں کچھ اس طرح کی کیفیت پائی جاتی ہے (جناب صدر، جناب وزیر، جناب سیکرٹری یا جناب ڈائریکٹر جنرل)۔ اگر ان کا موازنہ کیا جائے تو ان میں اول الذکر ریاست کا سربراہ ہوتا ہے جب کہ آخر الذکر حکومت کا ملازم اور نوکر ہوتا ہے۔ مکتوبات میں ان دونوں میں فرق رکھنا ضروری امر ہے مگر ایسا جونیئر ملازم کرنے سے ڈرتا ہے چوں کہ سینئر ملازم اس کی ڈانٹ ڈپٹ اور اسے جھاڑ پلائے گا۔ ان میں سے بعض یہ سمجھتے ہیں کہ جس کا سکیل بڑا ہے اس کےلئے جناب لکھا جائے اور جو ہم پلہ ہے اس کے لئے صاحب لکھا جائے۔ یہ ساری روداد پھر وہی ہے کہ ہمارے معاشرے کے لوگ تحقیق نہیں کرتے ہیں چوں کہ اکثریت ان لوگوں کی ہے جو سنی سنائے باتوں پر عمل کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔

بہر حال عربی لغت میں لفظ جناب کا معنی پہلو یا دروازے کی چوکھٹ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور فارسی لغت کی رو سے یہ طنزاً کسی شخص کی تعظیم کے لئے بولا جاتا ہے۔

لفظ جناب کی اصل حقیقت خطبات فقیر جلد 9 میں یوں ترقیم شدہ ہے "لفظ " جناب" کسی زمانے میں گالی ہوتی تھی. ایک

جگہ پر کچھ انگریزی خواں لوگ تھے اور غالباً یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا دور تھا جس میں اردو کے عناصر خمسہ میں شامل سرسید احمد خان بھی ہوئے ہوں گے یا پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کا ملازم جھوٹا کذاب مرزا غلام احمد قادیانی بھی شامل رہا ہو گا۔ بہر حال یہ لوگ دینی طلبہ کو بہت تنگ کرتے تھے اور عربی مدارس کے طلبہ کو قربانی کا مینڈھا کہتے غرض کبھی کچھ کبھی کچھ.. ایک دن سب طلبہ نے طے کیا کہ انگریزی خواں لوگوں کے لیے کوئی ایسا لفظ بنائیں جس میں ان کی ساری صفات آ جائیں غور کیا گیا تو چار باتیں مشترک تھیں پہلی یہ لوگ بڑے جاھل تھے دوسری نالائق تھے تیسری احمق تھے اور چوتھی بیوقوف تھے. اس کے بعد طے پایا کہ چاروں صفات کے پہلے حرف کو لے کر ایک لفظ بنایا جائے. اور پھر جاہل سے ج لیا

نالائق سے ن احمق سے ا اور بے وقوف سے ب . لفظ بن گیا "جناب" اس کے بعد طلبہ نے ہرانگریزی خواں کو جناب کہنا شروع کر دیا. یہ لفظ ایسا مشہور ھوا کہ آج کسی کو پتا ہی نہیں کہ یہ بنا کیسے تھا سب ایک دوسرے کو جناب کہتے پھرتے ہیں.
لوگ روزانہ کی بنیادوں پر درخواستیں تحریر کرتے ہیں اور آخر میں لفظ العارض لکھا جاتا ہے جو ایک غلط لفظ ہے جس کی املا کی درستی ضروری ہے۔ عربی گرامر کی رو سے (ال) اسم معرفہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور عارض (ر پر زبر) کا مطلب کوئی بیماری یعنی عارضہ لاحق ہونا نکلتا ہے۔ اگر عارض(ر کے نیچے زیر) پڑھا جائے تو یہ رخسار اور گال کے معنی دیتے ہیں اور صحیح تلفظ جو ہے وہ عرض یا عرضی سے عربی کا اسم معرفہ ال کا مرکب بناتے ہوئے العرض(درخواست گزار) بنتا ہے۔ خیر جو مرضی کریں کیوں کہ ہمارے لوگ تیتر بٹیر (آدھی انگریزی و اردو) کے بہت شوقین ہیں اور پھر تیتر و بٹیر کی آمیزش سے یہی حال ہو گا کہ اپنی مادری زبان کو بولنے سے بھی کراہنا و ہچکچانا پڑتا ہے۔

خواجہ ناظم عثمانی

آپ جنت ارضی اور برصغیر کے سر کا تاج ریاست جموں کشمیر و تبت ہا کے ماہ پارہ علاقہ مچھیارہ نیشنل پارک، وادی کوٹلہ، مظفرآباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے معاشرے سے معاشرتی و سماجی برائیوں کے سدباب کے لئے ریاستی و بین الاقوامی اخبارات، رسائل و جرائد میں بیسیوں مضامین منصہ شہود پر آئے جن کو عوام الناس میں بھرپورپذیرائی حاصل ہوئی۔ آپ مشرقی معاشرہ کے سماجی تغیر و تبدل کی منظر کشی کرنے والی کتاب "خواہشوں کا ایندھن" کے مصنف بھی ہیں۔ آپ نے بحیثیت ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہفت روزہ پیام کشمیر اپنی صحافتی خدمات سرانجام دیں۔ آپ جولائی ۲۰۱۶ء میں پسے ہوئے طبقات، مزدوروں و محنت کشوں کی جماعت نیشنل لیبر کونسل جموں کشمیر کے مرکزی سیکرٹری متمکن ہوئے۔ آپ بالخصوص مشرقی معاشرہ اور بالعموم دنیا کو عالمی گاؤں کی طرح دوستانہ گاؤں بنانے کا ایک سنہری تصور بھی رکھتے ہیں اور اس نسبت حال ہی میں آپ نے ایک نیا سماجی، معاشی و سیاسی نظریہ عبوری موسومہ ’’عرشیات‘‘ تخلیق کیا جو ابھی نوک پلک سے گزر رہا ہے۔

خواجہ ناظم عثمانی