تازہ ترین

اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (پانچواں حصہ)

aurangzeb alamgir ki siyasi soojh boojh part 5
  • واضح رہے
  • مارچ 10, 2021
  • 10:30 شام

راجپوت جو کہ ہندو تھے، ان کی خواتین کے حوالے سے بنائیں گئی رسومات انتہائی وحشیانہ تھیں جن کا عہد عالمگیری میں تدارک کیا گیا

ایک سنی عقیدہ اور حنفی المذہب مسلمان کی حیثیت سے عالمگیر کے دور کے تجزیہ کے بعد ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی کہ اس نے خواہ مخواہ دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا ہو اور ان پر ظلم کرنا اپنا مذہبی فریضہ سمجھ لیا ہو۔

ہوسکتا ہے کہ حکومت کے کچھ اہلکاروں نے حکومت کے افسران کی حیثیت سے اپنی نااہلی کا ثبوت دیا ہو اور تاریخ نویسوں نے بعد میں اس کو انتظامیہ کی خرابی سے محمول کرکے مرکزی حکومت کی کمزوری سمجھ لیا ہو۔

جہاں تک کہ بادشاہ کی اپنی کارکردگی کا تعلق ہے وہ یقیناً غیر مسلم رعایا کے ساتھ بھی ویسا سلوک کرتا تھا جیسا کہ مسلمان رعایا کے ساتھ۔ اس نے کبھی ان کے مذہبی طریقوں اور رسومات میں مداخلت نہیں کی۔

مثلاً راجپوتوں میں ایک رسم یہ تھی کہ شادی کرنے کے لئے دوسرے قبیلے کی لڑکیوں کو زبردستی اٹھا لیتے تھے اور قدیم زمانے سے ایک اور رسم چلی آتی تھی کہ خاندان کے اشخاص دوسرے خاندان سے لڑکیوں کو بزور شمشیر لایا کرتے تھے۔ اپنی لڑکیوں کو خواہ مخواہ قتل کر دیتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (چوتھا حصہ)

ستی کی رسم ان میں موجود تھی، ایک عورت کو زندہ اپنے شوہر کی موت پر جل کر مرنا پڑتا تھا، چنانچہ ان رسومات کو روکنے کے لیے زبردستی سے تو کام نہیں لیا گیا۔ البتہ ستی کے سلسلے میں یہ کیا گیا کہ اس میں عورت کی مرضی کو شامل کرلیا گیا اور اس کے بعد اس کے ساتھ ویسا ہی کیا جاتا تھا جساکہ وہ چاہتی تھی۔

برنیئر کی تحریر کے مطابق کوئی عورت اس علاقے میں گورنر کی مرضی کے بغیر ستی نہیں کرائی جا سکتی تھی اور گورنر بھی اس وقت تک منظوری نہ دیتا تھا جب تک کہ اسے یہ یقین نہ ہو جائے کہ وہ اپنی مرضی کے خلاف ستی تو نہیں ہورہی۔ اس کے باوجود وہ مُصر رہتی تو اپنے حرم کی عورتوں کو بھیج کر اسے سمجھانے کی کوشش کرتا کہ کسی طرح وہ خود کو بچا لے۔

عورتیں عموماً ستی نہ ہونے پر اس وجہ سے راضی نہ ہوتی تھیں کہ انہیں برہمن زبردستی بعد میں جلا دیتے تھے۔ برہمنوں کے اس انسانیت سوز مظالم کو دیکھتے ہوئے برنیئر ستی کو۔۔۔۔۔

barbarity And Atrocity Of These Monsters

لکھتا ہے اور برہمنوں کے اسی قسم کے تشدد کی مختلف مثالوں کو بیان کرتے ہوئے اس نے اپنے سفرنامہ کے تین صفحات پُر کیے ہیں۔

برہمنوں کی خود ستی کے لیے عورتوں کو زندہ جلانے کے علاوہ غیر برہمن ذات کے ہندوؤں پر ان کی بے رحمی اور تعصب صدیوں سے رہا ہے اور آج تک کسی نہ کسی صورت میں رائج ہے۔ انہوں نے خود اپنی ذات کے علاوہ قدیم زمانے ہی سے دیگر ذاتوں اور دیگر مذاہب کے لیے ایسے قوانین بنا رکھے تھے جو سراسر ان کی ذات کو ارفع واعلیٰ کیے ہوئے تھے۔

منوں کے شاستر کے باب ہفتم صفحہ 379 پر سزائے موت کے عوض ایک برہمن کو صرف یہ سزا دی جاتی تھی کہ اس کا سر مونڈھ دیا جاتا تھا۔ برہمنوں نے اپنے وجود کو اتنا تقدیس آمیز کر دیا تھا کہ بقول منو کے شاستر کے کہ جب کوئی برہمن پیدا ہوتا ہے وہ دنیا کی سب سے اعلی مخلوق ہے۔

چنانچہ سلاطین دہلی کے عہد میں بھی اور خود مغلیہ دور حکومت میں ایسے واقعات ظہور پذیر ہوتے تھے کہ جب بھی انسانوں کو موقع ملتا تھا وہ مسلمانوں کو زندہ آگ میں جلا دیتے تھے اور اس ظلم و تشدد کو اخلاق کا نام دیا جاتا تھا کہ اپنے سوا ہر غیر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اورنگزیب عالمگیر کی سیاسی سوجھ بوجھ (تیسرا حصہ)

تو ان لوگوں کے اخلاق کو سنوارنے اور ہر وہ برائی جو ہندو کی اس قوم اور دیگر اقوام کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہو اس کو سنوارنے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھانے سے یہ مطلب تھا کہ ان لوگوں کو اپنا جانی دشمن بنا لیا جائے۔

اورنگزیب عالمگیر کی بدنامی اس وجہ سے اور بھی کئی گئی کہ جوں جوں اس نے ان کے اخلاق کو سنوارنے کی طرف قدم اٹھایا توں توں یہ لوگ اسے مذہبی دشمن سمجھنے لگے۔

حالانکہ جو کچھ عالمگیر نے اپنے عہد حکومت میں مسلم اور غیر مسلم رعایا کیلئے کیا وہ بادشاہ کی حیثیت سے، رعایا کی اخلاقی اور سماجی زندگی بہتر بنانے کے لیے بے حد ضروری تھا۔ ان رسومات کے انسداد کے سلسلے میں سربراہ مملکت کی حیثیت سے ان پر جو الزامات عائد ہو رہے ہیں ان کی کوئی بھی بنیادی حیثیت نہیں بلکہ وہ زیادہ تر ذہنی اختراعات ہیں۔

اورنگزیب عالمگیر نے اپنے بادشاہ ہونے کے باوجود ہندوؤں کی غدارانہ ذہنیت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی (اس میں جسونت سنگھ اور دیگر ہندوؤں کی مثال دی جاسکتی ہے)۔ بلکہ مسلمان امرا کی طرح ان کو اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز کیا اور ہر سال انہیں کسی نہ کسی طرح اور کہیں نہ کہیں ترقیاں دیں۔

(جاری ہے)

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے