تازہ ترین

زیدؓ الخیر کی عظمت اور مدینہ میں وبا

zayd al-khayr ki azmat or medina main waba
  • واضح رہے
  • اگست 14, 2021
  • 12:47 شام

انسان فطری طور پر خیر و شر کا سرچشمہ ہے۔ جو لوگ اپنے دور جاہلیت میں بہتر ہوتے ہیں، ان لوگوں میں اسلام آنے کے بعد بھی خیر و صلاح کا عنصر غالب ہوتا ہے

رسول اکرمؐ کے ایک جلیل القدر صحابی سیدنا زیدؓ الخیر کی دو تصویریں ہمارے سامنے ہیں۔ ایک تصویر جاہلیت کے ہاتھوں نے بنائی ہے اور دوسری اسلام کی انگلیوں کی مرہون منت ہے۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ انہیں اسی نام سے پکارتے تھے اور اسلام لانے کے بعد رسول کریم نے انہیں زید الخیرؓ کے نام سے یاد فرمایا۔

عربی ادب کی کتابوں میں ان کی پہلی تصویر کے نقوش ابھارے گئے ہیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اسلام لانے سے پہلے بھی باکمال شخصیت کے مالک تھے۔ قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے۔ رحم دل تھے اور لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ ایک بار ایک شخص نے ان کے خیمے سے اونٹ چُرا لئے۔ مگر زید الخیر نے ان کا تعاقب کرلیا۔

باتوں باتوں میں جب مذکورہ شخص کو پتا چلا کہ اس نے یہ واردات زید الخیر زید بن مہلہل کے ہاں کی ہے تو اسے بھروسہ تھا کہ اب اسے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اور ہوا بھی ایسا ہی۔ زید الخیر نے اس کے حالات جاننے کے بعد اسے اپنے پاس ہی ٹھہرایا اور یہ تک فرمایا کہ اگر یہ اونٹ میری بہن کے نہ ہوتے تو یہ میں تمہیں دے دیتا۔

یہ زید الخیر کی ان کے دور جاہلیت کی تصویر تھی۔ ان کے زمانہ اسلام کی تصویر کے نقوش کتب سیرت میں اس طرح نمایاں کئے گئے ہیں: جب نبی کریمؐ کی بعثت کی خبر زید الخیر کے کانوں میں پہنچی اور وہاں کی دعوت سے کسی قدر آگاہ ہوئے تو انہوں نے اپنی سواری کو سفر کیلئے تیار کیا اور اپنے قبیلے کے بڑے بڑے سرداروں کو یثرب چلنے اور نبی اکرم سے ملاقات کرنے کیلئے بلایا۔

بنی طے کا جو وفد ان کے ساتھ روانہ ہوا اس میں زُر ابن سدوس، مالک بن جبیر اور عامر ابن جُوین جیسے اکابر قبیلہ شامل تھے۔ جب یہ لوگ مدینہ پہنچے تو سب سے پہلے مسجد نبوی کا رخ کیا اور اسد کے دروازے پہنچ کر اپنی اپنی سواریوں سے اتر پڑے۔ اس وقت نبی کریم منبر پر تشریف فرما تھے اور مسلمانوں کو وعظ و نصیحت فرما رہے تھے۔

حضورکریم کا خطاب سن کر اور آپ کے ساتھ صحابہؓ کی گرویدگی اور ان کی توجہ و اثر پذیری کو دیکھ کر وفد کے لوگ سخت حیران و استعجاب سے دوچار ہوئے۔ رسولؐ نے ان لوگوں کو دیکھا تو مسلمانوں سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ”میں تمہارے لئے عزیٰ اور تمہارے دوسرے تمام معبودوں سے بہتر ہوں۔“ ”میں تمہارے لئے بہتر ہوں اس سیاہ اونٹ سے، خدا کو چھوڑ کر جس کی تم پرستش کرتے ہو۔“

رسول اکرمؐ کی یہ بات سن کر زید الخیل اور ان کے ساتھیوں پر دو مختلف اور الگ الگ قسم کے اثرات مرتب ہوئے۔ کچھ لوگوں نے حق کی اس دعوت پر لبیک کہا اور آگے بڑھ کر اسے قبول کر لیا اور چند ایک نے اس سے اعراض کیا اور ازراہِ تکبر اس کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔

بہرحال حضور اکرمؐ نے جیسے ہی اپنا خطبہ ختم کیا۔ زید الخیر مسلمانوں کے مجمع میں کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔۔ وہ نہایت شکیل وجیہہ، متناسب الاعضاء اور طویل القامت شخص تھے۔ جب گھوڑے پر سوار ہوتے تو ان کے دونوں پاﺅں زمین تک پہنچ جاتے۔ ایسا لگتا کہ وہ گھوڑے پر نہیں، کسی گدھے پر سوار ہیں.... انہوں نے کھڑے ہو کر اونچی اور بلند آواز میں کلمہ شہادت پڑھا۔

رسول اکرمؐ نے ان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا: ”تم کون ہو؟“

” میں زید الخیل ابن مہلہل ہوں۔“ انہوں نے نہایت ادب سے جواب دیا۔ تم زید الخیل نہیں۔ زید الخیرؓ ہو۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا۔

”خدا کا شکر ہے کہ اس نے تم کو یہاں تک پہنچایا اور تمہارے دل کو قبول اسلام کیلئے نرم کر دیا۔“ ان کو اپنے مکان پر لے گئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ حضرت عمرؓ بن خطاب اور صحابہؓ کی ایک جماعت بھی تھی، جب یہ لوگ گھر پہنچے تو

تو رسول اکرمؐ نے حضرت زید الخیرؓ سے مخاطب ہو کر فرمایا:

”زید الخیر! تمہارے علاوہ اس سے پہلے جس کسی کے اوصاف میرے سامنے بیان کئے گئے اور بعد میں، میں نے اس کو دیکھا تو اسے اس کے بیان کردہ اوصاف سے کمتر ہی پایا۔“ حضرت زیدؓ نے پر شوق لہجے میں عرض کیا: ”اے اﷲ کے رسول وہ دونوں خصلتیں کون سی ہیں؟“

” وقار اور حلم“۔ آپ نے جواب دیا۔

”خدا کا شکر ہے کہ اس نے میرے اندر ایسی خصلتیں پیدا کی ہیں جو اس کو اور اس کے رسول کو پسند ہیں۔ “ زیدؓ نے نظریں جھکائے ہوئے کہا اور خوشی ان کے لہجے سے جھلک رہی تھی۔ پھر انہوں نے سر اٹھا کر رسول اکرمؐ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا:

”اے اﷲ کے رسول! آپ مجھے صرف تین سو سواروں کا ایک دستہ دے دیں، میں اس بات کی آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ میں ان کو ساتھ لے کر بلاد روم پر حملہ کروں گا اور زبردست فتح و کامرانی حاصل کروں گا۔“ آپ نے ان کی اس بلند ہمتی اور اعلیٰ حوصلے کو دیکھا تو فرمایا: ”شاباش اے زید! تم کتنے باعزم اور حوصلہ مند ہو۔“

اس گفتگو کے بعد حضرت زید الخیرؓ کے ساتھ آنے والے ان کی قوم کے تمام لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ جب حضرت زید الخیرؓ اور ان کے ساتھیوں نے اپنے وطن نجد کی طرف واپسی کا ارادہ کیا تو رسول اکرمؐ نے انہیں رخصت کرتے ہوئے فرمایا: ”یہ شخص کتنا عظیم ہے۔ اگر یہ مدینہ کی وبا سے محفوظ رہ گیا تو آئندہ زبردست کارنامے انجام دے گا۔“

اس زمانے میں مدینہ منورہ میں وبائی بخار پھیلا ہوا تھا۔ مدینہ منورہ سے روانگی سے قبل ہی حضرت زید الخیرؐ اس وبائی بخار سے متاثر ہو چکے تھے۔ انہوں نے دوران سفر اپنے ساتھیوں سے کہا کہ قبیلہ بنی قیس کے علاقے سے کترا کے نکل چلو۔ جاہلیت میں ہمارے اور ان کے درمیان زبردست معرکہ آرائیاں اور گھمسان کی جنگیں ہو چکی ہیں اور خدا کی قسم، اب میں کسی مسلمان سے جنگ کرنا نہیں چاہتا۔

حضرت زید الخیرؓ شدید بخار کے باوجود مسلسل سفر کرتے رہے۔ ان کا بخار ہر آن بڑھتا جا رہا تھا۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ وہ اپنے قبیلہ میں پہنچ جائیں اور قبیلہ والے ان کے ہاتھ پر مشرف با اسلام ہوں۔ راستے بھر ان کے اور موت کے درمیان کشمکش جاری رہی۔

آخر کار موت نے اس جواں حوصلہ اور پرعزم انسان کو مغلوب کر لیا۔ انہوں نے راستے ہی میں اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور خدمت اسلام کی تمام حسین آرزوﺅں کو سینے سے لگائے ہوئے اپنے مالک حقیقی کی بارگاہ میں حاضر ہوگئے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے