تازہ ترین

اردو زبان کے الفاظ/املا کی ترقیم و تحریر میں اختلاف کا حل

اردو زبان
  • خواجہ ناظم عثمانی
  • مئی 5, 2020
  • 4:59 شام

محبان اردو مرکبات کو الگ تحریر کریں اور مشتقات کو جوڑ کر لکھیں اور لوگوں کو بھول بھلیوں میں مت دھکیلیں۔

ماہرین اردو کی آپس میں اردوزبان کے الفاظ تحریر کرنے کے حوالہ سے اختلافات ہیں، بعض ماہر ین لسان اردو الفاظ کو جوڑ کر اور بعض الگ لکھنے کے قائل ہیں اور اس طرح وہ اپنی اختلافی کھیل سے تعلیمی ادارہ جات میں طلبہ و طالبات کو اردو پڑھاتے، سکھاتے اور لکھاتے ہیں جس سے دو طرح کی صورتیں اختیار کر چکی ہیں۔راقم کے نزدیک اردو املا کو جوڑ کر لکھنے کا خاصہ شروع سے چلا آ رہا ہے اور اردو کے عناصر خمسہ ( مولانا شبلی نعمانی، مولانا حسین احمد آزاد، مولانا الطاف حسین حالی، ڈپٹی نذیر احمد اور سرسید احمد خان ) اردو کے الفاظ /املا کو جوڑ کر تحریر کرتے تھے اور اس تناظر میں مرزا اسد اللہ غالب کے کئی خطوط ان کے قلمی صفحہ مسل پر بطور ثبوت موجود ہیں جن میں واضح دیکھا جا سکتا ہے کہ اردو کے الفاظ کو جوڑ کر لکھا جاتا تھا۔

جدید دور میں اردو زبان میں جدت لانے کے لئے یا اردو میں جدید صنف متعارف کروانے کی خاطرموجودہ دور کے ماہر ین لسان اردو کو الگ لکھنے کے بارے میں دلائل دے رہے ہیں اور اس کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ پرانے زمانے میں کاتب کاغذ وغیرہ بچانے کے لئے جوڑ کر لکھتے تھے اب کمپیوٹر کی موجودگی میں الگ لکھنا آسان ہے۔ اردو کے الفاظ کو الگ تحریر کرنے کے حوالہ سے ڈاکٹرعبدالستار صدیقی کمیٹی کی سفارشات پر بعض لوگ عمل کرتے ہیں اور ان کی تجویز کو ایک بنیاد بنایا جاتا ہے۔ اردو کے وہ الفاظ جو مرکبات ہیں ان کو بہرصورت الگ لکھا جائے اور یہ ہی اردو زبان کا خاصہ ہے جیسے خوبصورت کوخوب صورت، گلدان کو گل دان وغیرہ لکھنا ضروری ہے۔

جب کہ لاحقہ و سابقہ والے الفاظ جو عربی اور فارسی قواعد و نحو کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریر کئے جاتے ہیں اور انھیں مشتقات بھی بولاجاتا ہے ۔ مشتقات والے الفاظ کا الگ کوئی مطلب نہیں ہوتا انھیں جوڑ کر لکھا جانا ہی سب کے درمیان اختلافی حل کا بہترین طریقہ ہے اور چوں کہ جس پہلو پر اختلاف ہو جائے تو اس کی اصل کی طرف رجوع کرنا لازمی ہوتا ہے ۔ اگر اختلافی صورت حال برقرار رہی تو اس طریقہ کار سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا درپیش آ رہا ہے چوں کہ جو لوگ الگ الفاظ تحریر کرتے ہیں اور جوڑ کر لکھنے والے افراد (جن میں اگرکوئی ممتحن ہو یا کوئی بالا افسر )الگ الفاظ کو کاٹ دیتا ہے اور اسی طرح جوڑ کر الفاظ لکھنے والوں کا الگ الفاظ لکھنے والے کاٹ دیتے ہیں اور اس طرح ایک دوسرے کی کھینچا تانی ہوتی ہے جس کا خمیازہ غریب طلبہ و طالبات کو امتحانات میں ناکامی یا پھر کسی سرکاری ادارہ میں بطور ملازمت ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اب برداشت کا مادہ مفقود ہے کہ کسی کے ساتھ بحث و تمحیص کے ذریعے حقیقت سمجھائی جائے۔ اس دور میں ہر ایک اپنے آپ کو مکمل انسان سمجھتا ہے جب کہ یہ صرف انسان کی خام خیالی ہوتی ہے۔اس ضمن میں یہ مناسب ہو گاکہ مرکبات والے الفاظ الگ تحریر کئے جائیں جب کہ سابقے اور لاحقے والے الفاظ جوڑ کر لکھے جائیں۔ عربی زبان کو بھی یہ اعجاز حاصل ہے کہ اس زبان میں حروف عطف جوڑ کر لکھے جاتے ہیں اور انھیں جوڑ کر ہی لکھا جاتا ہے۔
راقم کو اردو میں جدت اور نئی صنف(یعنی الگ الفاظ لکھنا) مشتقات کی حد تک قابل قبول نہ ہے۔ اس کی مثال بذیل ملاحظہ فرمائیں:۔

جوڑ کر لکھنا (بخوبی) اور الگ لکھنا (بہ خوبی)۔ اس سے شدید اختلافی مسائل پیدا ہو رہے ہیں اور بعض دفاتر میں اس طرح کی خط و کتابت پر جواب طلبی وغیرہ کے معاملات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس لئے لاحقے و سابقے والے الفاظ جوڑ کر لکھے جانا ہی مناسب ہیں ۔ بہ حیثیت کو بحیثیت، بہ دستور کو بدستور، بہ خدا کو بخدا، بہ قلم کو بقلم، بہ حق کو بحق۔ جب کہ دیگر الفاظ چوں کہ یا چونکہ، کیونکہ یا کیوں کہ ، جب کہ یا جبکہ وغیرہ دونوں طرح سے رائج ہیں جو بالکل ٹھیک تحریر کئے جاتے ہیں۔

اردو زبان سے پیار کرنے والے محبان مرکبات کو الگ تحریر کریں اور مشتقات کو جوڑ کر لکھیں اور لوگوں کو بھول بھلیوں میں مت دھکیلیں۔ ویسے بھی ہمارے خطہ ریاست جموں کشمیر و تبت ہا (تبت اصغر و تبت اکبر) کی عوام پہلے سے ہی اپنی تاریخ کی بھول بھلیوں میں گم سم ہے۔

اردو کے ماہرین کی یہ باتیں محض آپس میں علمی مجادلہ کہلاتی ہیں اور یہ بھی یاد رہے کہ جدید دور میں اردو ادب کو صرف شاعری یا غزل تک محدود کر دینا بھی کم فہم ہونے کی علامت ہے چوں کہ اس نفسا نفسی کے دور میں شعر و شاعری و غزلیں پڑھنے کے لئے کسی باشعور یا مصروف شخص کے پاس وقت نہیں ہوتا البتہ نثرنگاری جو تحقیق ، سائنس اور ادیان کے تقابلی جائزہ پر مشتمل ہو تو اسے ہر متلاشی حق اپنے مصروف قیمتی وقت سے کچھ وقت نکال کرپڑھنے کو ترجیح دیتا ہے۔

خواجہ ناظم عثمانی

آپ جنت ارضی اور برصغیر کے سر کا تاج ریاست جموں کشمیر و تبت ہا کے ماہ پارہ علاقہ مچھیارہ نیشنل پارک، وادی کوٹلہ، مظفرآباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ آپ کے معاشرے سے معاشرتی و سماجی برائیوں کے سدباب کے لئے ریاستی و بین الاقوامی اخبارات، رسائل و جرائد میں بیسیوں مضامین منصہ شہود پر آئے جن کو عوام الناس میں بھرپورپذیرائی حاصل ہوئی۔ آپ مشرقی معاشرہ کے سماجی تغیر و تبدل کی منظر کشی کرنے والی کتاب "خواہشوں کا ایندھن" کے مصنف بھی ہیں۔ آپ نے بحیثیت ایگزیکٹیو ایڈیٹر ہفت روزہ پیام کشمیر اپنی صحافتی خدمات سرانجام دیں۔ آپ جولائی ۲۰۱۶ء میں پسے ہوئے طبقات، مزدوروں و محنت کشوں کی جماعت نیشنل لیبر کونسل جموں کشمیر کے مرکزی سیکرٹری متمکن ہوئے۔ آپ بالخصوص مشرقی معاشرہ اور بالعموم دنیا کو عالمی گاؤں کی طرح دوستانہ گاؤں بنانے کا ایک سنہری تصور بھی رکھتے ہیں اور اس نسبت حال ہی میں آپ نے ایک نیا سماجی، معاشی و سیاسی نظریہ عبوری موسومہ ’’عرشیات‘‘ تخلیق کیا جو ابھی نوک پلک سے گزر رہا ہے۔

خواجہ ناظم عثمانی