تازہ ترین

اویغور مسلمانوں کو چین کے حوالے کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا: ترک وزیر خارجہ

Uighur muslims ko china ke hawale kerne ka koi fesla nahi kiya turkey
  • واضح رہے
  • جنوری 2, 2021
  • 2:44 شام

چین اور ترکی کے درمیان شہریوں کی حوالگی سے متعلق ہونے والے دو طرفہ معاہدے کو اویغور باشندوں کیخلاف سمجھا جارہا ہے

انقرہ: برطانوی میڈیا پر ایسی خبریں زیر گردش ہیں کہ ترکی اپنے ملک میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے والے اویغور مسلمانوں کو چین واپس بھیجنے جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ چین اور ترکی نے 2017 میں شہریوں کی حوالگی سے متعلق دو طرفہ معاہدے پر دستخط کئے تھے۔ تاہم ترکی اس امکان کو مسترد کرتا ہے کہ معاہدہ اویغور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے ہے۔

ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاؤش اوغلو نے ان قیاس آرائیوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے ملک نے اویغور مسلمانوں کو چین کے حوالے کرنے کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس معاہدے کو ابھی تک ترک پارلیمان نے منظوری نہیں دی ہے۔ خیال رہے کہ ترکی میں اس اقدام کی وسیع پیمانے پر مخالفت دیکھی جا رہی ہے۔

ترک اراکین پارلیمان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کو اویغور مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنائے جانے کا چینی ہتھیار نہیں بننے دیا جانا چاہیے۔ قبل ازیں گذشتہ ہفتے چینی پارلیمنٹ نے حوالگی کے اس معاہدے کو منظور کر لیا تھا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ترکی ہمیشہ سے ہی اویغور اور ترک نسل کے مسلمانوں کو پناہ دیتا رہا ہے اور اس وقت ترکی میں مقیم اویغور اور ترک مسلمان مہاجرین کی تعداد 50 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ یوں کسی بھی ملک سے زیادہ اویغور مسلمان مہاجرین ترکی میں پناہ گزین ہیں۔

ترکی اور اویغور مسلمانوں کے مابین تاریخی تعلقات ہیں اور اس کا آغاز اس وقت ہوا جب سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبد العزیز نے 1873 میں چین کی کوئنگ سلطنت کا مقابلہ کرنے کے لیے اسلحہ بھیجا تھا۔ اس کے بعد سے سنکیانگ کے اویغور مسلمان قیادت اور پناہ کے لیے ہمیشہ ترکی پر منحصر کرتے رہے ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے