تازہ ترین

کشتی نہیں، تیرتے ہوئے گھر (فلوٹنگ ہومز)

Tertay hue ghar floating homes
  • واضح رہے
  • فروری 21, 2021
  • 12:19 صبح

کبھی آپ نے سوچا کہ انسانوں کے زمین پر رہنے کی جب جگہ ختم ہوجائے گی تو حضرت انسان کہاں جائے گا۔ پہاڑوں، چٹانوں، ریگستانوں یا پھر سمندر میں

بڑھتی ہوئی آبادی اور مستقبل میں انسانوں کی رہائش کے مسئلے پر یورپ کے تھنک ٹینکس نے عشروں پہلے سوچنا شروع کیا اور پھر پانی کی سطح پر گھروں کی تعمیر کا تصور پیش کیا۔ آج یورپ کے اہم ممالک برطانیہ، اٹلی، جرمنی اور نیدرلینڈز سمیت دنیا کے کئی خطوں میں ’’تیرتے ہوئے گھر‘‘ موجود ہیں۔

پانی کے تیرتے گھروں میں رہنے کی نیدرلینڈ/ ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈیم کے شہریوں کی تاریخ بڑی پرانی ہے، یہ لوگ نسل در نسل ہاؤس بوٹ زندگی گزر بسر کرتے آئے ہیں، لیکن یہ ہاﺅس بوٹ بڑے جاندار قسم کے ہوا کرتے تھے۔ فلوٹنگ گھروں کی اپنی ایک بحری زندگی ہے۔ یہ کوئی کشتیاں نہیں ہیں، بلکہ ایسے گھر ہیں جو زمین کے بجائے پانی کے ”پلاٹوں“ پر تعمیر کئے گئے ہیں۔

ان تیرتے مکانات کے پیندے یا عرشے پر باغ بھی لگائے جاتے ہیں، لیکن ان باغوں کی وسعت میں کمی بیشی پانی کی سطح کی کمی بیشی کے ساتھ ہوتی رہتی ہے، کیونکہ ان باغوں کو بہنے سے بچانے کیلئے باقاعدہ لنگر انداز کرنا پڑتا ہے اور اگر مالکان چاہیں تو ان باغات کو ٹگ بوٹ کے ذریعے کھینچ کر کہیں اور لے جایا جا سکتا ہے۔

Tertay hue ghar floating homes

ان تیرتے ہوئے گھروں نے روایتی گھروں کا تصور ہی تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔ اس سلسلے میں پچھلی دہائی کے دوران ایک وسیع تر تناظر کے ساتھ ڈچ واٹر آرکیٹکٹ اور انجینئرز کی پوری ایک کھیپ وجود میں آئی۔ اور ان لوگوں کا استدلال رہا کہ یہ تیرتی ہوئی عمارتیں اس کرۂ ارض کو درپیش تین سنگین ترین مسائل سے نمٹ سکتی ہیں۔

تین مسائل یہ ہیں۔ سمندروں میں اضافہ، شہری علاقوں میں اضافہ اور انسانی آبادی کی تعداد میں بے پناہ اضافہ۔ اس اضافے کی بنیاد پر 2050ء تک کرۂ ارض پر انسانی آبادی ساڑھے 9 ارب سے تجاوز کر جائے گی۔ چنانچہ زیادہ تر شہری علاقوں میں انسانوں کو آباد ہونے کےلئے مزید گھروں کی ضرورت ہو گی۔

یوں بھی زیادہ تر شہر ہمیشہ سمندری ساحلوں کے نزدیک آباد کئے جاتے رہے ہیں۔ اس وقت دنیا کے سو گنجان ترین آباد شہر سمندروں اور دریاﺅں کے کناروں پر واقع ہیں، لیکن ساحلوں پر واقع ان شہروں کو آنے والی صدی میں اضافی پانی سے واسطہ پڑے گا، جبکہ موسمیاتی پیش گوئیوں کے مطابق سمندروں کے پانی میں 60 سینٹی میٹر کا اضافہ ہو جائے گا۔

دو لاکھ لوگ روزانہ دیہات سے شہروں میں منتقل ہوں گے اور اس طرح یہ شہر مزید گنجان آباد ہو جائیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دیہی آبادی کا شہری علاقوں میں امڈتا ہوا یہ سیلاب اس سے زیادہ خراب صورت حال پیش کرے گا، جیسی کہ اب ہے۔

سطح آب پر گھر بنانے کے حوالے سے ایکسپرٹ کوہن التھوئس، جو کہ واٹر اسٹوڈیو نامی تعمیراتی فرم کے بانی ہیں، بتاتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں سے نبرد آزما ہونے کیلئے ہمیں پانی کے خلاف ہونے کے بجائے اس کے ساتھ مل کر کام کرنا ہو گا۔ کوہن التھوئس تعمیراتی ماہرین کی ایک ایسی نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے۔

Tertay hue ghar floating homes

ولندیزی عوام جنہیں عام طور پر ڈچ یا ہالینڈ کے باشندے بھی کہا جاتا ہے، صدیوں سے زمین پر اور سطح آب پر گھر بنانے کی مہارت رکھتے ہیں۔ یوں بھی آدھے سے زیادہ ہالینڈ جس کا سرکاری نام نیدرلینڈز ہے، سطح سمندر سے نیچے ہے، چنانچہ تعمیراتی ماہرین نے زیرِ آب جنگلات اور لکڑی کے ستونوں کا جال بچھا کراس خطۂ زمین کو انسانوں کے رہنے کے قابل بنایا۔

نیدرلینڈز میں دو دہائیوں کے دوران تیرتے ہوئے تعمیراتی ڈھانچوں کا کلچر مزید فروغ پایا۔ یہ ڈھانچے کنکریٹ اور پولی اسٹائرین کے پلیٹ فارم پر تعمیر کئے جاتے ہیں۔ اب نیدرلینڈز میں سینکڑوں ‘‘فلوٹنگ ہومز’’ پائے جاتے ہیں۔ جبکہ کوہن التھوئس جزیرے کو آب کرنے کے جس منصوبے آئی جے برگ پر کام کر رہے ہیں، اس میں کُل 18 ہزار تیرتے ہوئے گھر بنائے جانے ہیں۔ یہ منصوبہ 2010ء میں شروع ہوا تھا۔

اب تک ان ڈھانچوں کی بنیاد پر چار بیڈ روم کے مکانات سے لے کر چھوٹے چھوٹے دفاتر کی عمارتیں تک تعمیر کی گئیں۔ یہی نہیں ایمسٹرڈیم کے شمال میں زان دام میں ایک فلوٹنگ جیل تک تعمیر کرائی گئی تھی، جس میں غیر قانونی تارکین اوطان کو رکھا جانا تھا۔ تاہم یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور بعد ازاں یہ ہوٹل بن گیا، جو اب ایسٹ لندن کے قریب لنگر انداز ہے۔

جبکہ فلوٹنگ اپارٹمنٹ کمپلیکس جسے اسٹاڈیل کا نام دیا گیا ہے، پر کام تقریباً تکمیل کے مراحل میں ہے اور اسے عوامی پذیرائی مل رہی ہے۔ اس کمپلیکس میں انڈر واٹر پارکنگ کی مکمل سہولت فراہم کی جائے گی جو کہ جنوبی ہالینڈ میں واٹر اسکیپ ڈویلپمنٹ کا ایک حصہ ہے۔

Tertay hue ghar floating homes

صرف یورپ نہیں بلکہ مالدیپ اور متحدہ عرب امارات میں بھی سمندر کنارے، لیکن سطح سمندر پر لکڑی سے بنے خوبصورت اور منفرد گھر قابل ذکر ہیں۔ تاہم مالدیپ جو کہ سیاحت کے حوالے سے خصوصی مقام کی حیثیت رکھتا ہے، وہاں سطح آب پر بنائے گئے گھر پانی پر تیرنے والے گھروں سے مختلف ہیں اور انہیں بہترین ڈیزائننگ کی بدولت سمندر کی تہہ سے جوڑ کر کھڑا کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ مالدیپ 1190 چھوٹے چھوٹے جزیروں پر مشتمل بحر ہند کا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ ڈچ ڈکسلیڈ ایک واٹر ڈویلپمنٹ کمپنی نے یہاں گزشتہ دو دہائیوں میں منفرد طرزِ تعمیر کے جوہر دکھاتے ہوئے درجنوں جزیروں پر ویلاز تعمیر کئے جو سطح سمندر پر ہیں۔ یہ منصوبے اتنے پُرکشش ہیں کہ مالدیپ کی حکومت ملک میں ایک تیرتا ہوا شہر بنانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے، جس میں 20 ہزار ایسے گھر تعمیر کئے جائیں گے۔

ناقدین فلوٹنگ ہومز کو گنجان آبادی کے مسئلے کا ایک بروقت حل سمجھنے کے بجائے انہیں محض ایک پر تعیش آسائش قرار دیتے ہیں۔ مانچسٹر یونیورسٹی کے جغرافیے کے ایک ماہر پروفیسر ایرک اس ضمن میں ایک اور پہلو سامنے رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ مالدیپ میں ہونے والی ترقی ایک دلچسپ تجربہ ہے، لیکن فلوٹنگ ہاﺅسز تعمیر کرنا الگ بات ہے۔

پروفیسر ایرک کے مطابق ایسے مکانات بڑے پیمانے پر تعمیر کرنا اور توانائی و غذائی ضروریات فراہم اور ان مکانات کا کاٹھ کباڑ اور فضلہ ٹھکانے لگانا بھی بڑے پیمانے پر ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔ ساحلوں پر تیرتی ہوئی یہ عمارتیں یا گھر جہاز رانی کیلئے بھی ایک مسئلہ بن سکتے ہیں۔ ایک موسمیاتی ماہر اور ڈیلفٹ یونیورسٹی کے چیئرمین ہانس میئر کا کہنا ہے کہ جب موسم خوشگوار ہو تو ان تیرتے گھروں میں رہنا بڑا اچھا لگتا ہے، لیکن جب موسم ناخوشگوار ہو اور سمندر کا مزاج بگڑا ہو تو ان تیرتے گھروں میں رہنا خطرے سے خالی نہیں ہو سکتا۔

Tertay hue ghar floating homes

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے