تازہ ترین

تل ابیب جو کبھی عربوں کا مرکز تھا

جافا کلاک ٹاور
  • سہیل باوا
  • اپریل 11, 2019
  • 11:16 شام

سلطنتِ عثمانی دور کا گھنٹہ گھر بھی اسرائیل کے اسی شہر میں ہے، جس کے قیام کے بعد حیفہ کی اہمیت کم ہوئی اور بعد ازاں اس کا وجود ختم ہوگیا۔

تل ابیب اسرائیل کا دوسرا بڑا شہر ہے، جہاں آج بھی عرب ثقافت کی جھلک نظر آتی ہے۔ تل ابیب کی آبادی کا تخمینہ تقریباً 4 لاکھ 29 ہزار نفوس ہے۔ اس شہر کا کل رقبہ 51.8 مربع کلومیٹر ہے۔ تل ابیب یافو بلدیہ یہاں کے انتظام کی ذمہ داری نبھاتی ہے۔
تل ابیب کی بنیاد 1909ء میں تاریخی شہر حیفہ کے باہر بحیرہ روم کے ساحلوں پر رکھی گئی تھی۔ اس شہر کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی حیفہ کی اہمیت کم ہوتی گئی، جو عربوں کا اس علاقے میں سب سے بڑا مرکز گردانا جاتا تھا۔ سلطنتِ عثمانی دور کا گھنٹہ گھر اس خطے میں مسلمانوں کے دورِ حکمرانی کی یاد تازہ کرتا ہے۔ اکثر سیاح جب تل ابیب پہنچتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ جیسے وہ کسی عرب علاقے میں آ گئے ہیں۔ ان کے آبائی اور خاندانی ریسٹورنٹ اور دکانیں اب بھی اس علاقے میں موجود ہیں۔ یہاں کے خوبصورت ساحل، چائے کے ہوٹل، ریسٹورنٹ، تجارتی مراکز، موسمی حالات اور نہایت جدید طرز زندگی نے اسے ایک معروف سیاحتی مرکز کا درجہ دلایا ہے۔ 1950ء میں، اسرائیل کے معرض وجود میں آنے کے دو سال بعد تل ابیب اور حیفہ کو ایک ہی بلدیہ میں ضم کر دیا گیا تھا۔ تل ابیب عالمی ثقافتی ورثے کا حصہ ہے جو 2003ء میں شامل کیا گیا۔

تل ابیب کا شمار انٹرنیشنل شہروں میں کیا جاتا ہے، جو اسرائیلی معیشت کا بڑا مرکز اور ملک کا امیر ترین شہر ہے۔ یہاں بین الاقوامی اہمیت کے حامل دفاتر اور تحقیق کے شعبہ جات واقع ہیں۔ یہ اسرائیلی معیشت کی ریڑھ ہڈی تصور کیا جاتا ہے اور اس کی خاصیت فنون اور تجارتی مرکز کے طور پر عیاں ہے۔ 2008ء میں فارن پالیسی جریدے نے بین الاقوامی اہمیت کے شہروں کی فہرست میں تل ابیب کو 42 واں درجہ دیا تھا۔ تل ابیب دنیا کا 17واں مہنگا ترین شہر ہے۔

سہیل باوا

سہیل باوا لندن کے مشہور و معروف مذہبی اسکالر، سماجی رہنما اور سیاح ہیں۔ حکومتی سطح پر مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ فلسطین سمیت کئی ممالک کے اسلامی اور جغرافیائی حالات و مشاہدات پر مشتمل ان کی کتاب کافی مقبول ہوئی۔

سہیل باوا