تازہ ترین

طارق بن زیاد اسلامی فتوحات کا روشن باب

tariq ibn ziyad islami fatoohat ka roshan baab
  • واضح رہے
  • جون 25, 2021
  • 11:59 شام

دنیا کے بہترین سپہ سالاروں میں شمار ہونے والے فاتح اندلس نے ساتھی کمانڈر کے ساتھ فرانس پر قبضے کی بھی منصوبہ بندی کی تھی

طارق بن زیاد بن عبداللہ ہسپانیہ کے پہلے فاتح اور اس کے پہلے والی تھی۔ وہ دنیا کے بہترین سپہ سالاروں میں سے ایک تھے۔ طارق بن زیاد نے ایک مختصر فوج کے ساتھ یورپ کے مرکز یعنی اسپین کو فتح کیا اور یہاں دین اسلام کا علم بلند کیا۔

اسپین کی فتح اور یہاں پر اسلامی حکومت کا قیام ایک ایسا تاریخی کارنامہ اور واقعہ ہے، جس نے یورپ کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی پسماندگی سے نکال کر ایک نئی بصیرتِ فکر عطا کی تھی اور اس پر ناقابل فراموش اثرات مرتب کئے تھے۔

طارق بن زیاد ایک متقی، فرض شناس اور بلند ہمت انسان تھے، ان کے حسنِ اخلاق کی بنا پر عوام اور فوجی سپاہی انہیں انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

ان کے حسب نسب کے بارے میں معلومات متضاد ہیں۔ الادریسی کے نزدیک وہ زناتہ کا بربر (قوم) تھا، جبکہ ابن خلدون نے اُسے طارق بن زیاد اللیشی لکھا۔ بعض مورخین نے انہیں ایرانی النسل اور ہمدان کا باشندہ بتایا ہے۔

ابن عذاری نے طارق بن زیاد کا مکمل شجرہ لکھا ہے اور ان کا تعلق بنو نفزہ سے ملایا ہے۔ بہرحال یہ یہ غیر اختلافی امر ہے کہ وہ موسیٰ بن نصیر کے آزاد کردہ غلام اور ان کے نائب تھے۔

طارق بن زیاد کی تعلیم و تربیت موسیٰ بن نصیر کے زیر نگرانی ہوئی، جو ایک ماہر حرب اور عظیم سپہ سالار تھے۔ طارق بن زیاد نے بہت جلد فنِ سپہ گری میں شہرت حاصل کی اور ان کی بہادری اور عسکری مہارت کے چرچے ہونے لگے۔

وہ جنگی منصوبہ بندی میں بہت ماہر تھے اور غیر معمولی ذہین، دور اندیش اور مستعد قائد تھے۔ ہسپانیہ (اسپین) پر حملہ آور ہونے سے قبل طارق بن زیاد کی انتظامی صلاحیت کے باعث انہیں طنجہ کا والی مقرر کیا گیا۔

tariq ibn ziyad islami fatoohat ka roshan baab

افریقہ کی اسلامی سلطنت کو اندلس کی بحری قوت سے خطرہ لاحق تھا، نیز دوسرے محرکات کی بنا پر موسیٰ بن نصیر نے دمشن کی طاقت اور دفاعی استحکام اور صلاحیت کا جائزہ لے کر طارق بن زیاد کی کمان میں سات ہزار (بعض کے نزدیک بارہ ہزار) فوج کے ساتھ انہیں ہسپانیہ کی فتح کیلئے روانہ کیا۔

اس فوج میں بربروں (قوم) کی تعداد زیادہ تھی۔ اس معاہدے میں طارق بن زیاد نے کاؤنٹ جولین کے بحری جہاز بھی استعمال کئے، جو ہسپانوی جزیرہ سیوٹا کے گورنر تھے اور انہوں نے یہ بحری بیڑے ایک معاہدے کے تحت بھیجے تھے۔

اسلامی لشکر ہسپانیہ کے ساحل پر اترا اور پہاڑ کے نزدیک اپنے قدم جما لئے۔ یہ پہاڑ بعد میں جبل الطارق کہلایا، جو یورپی زبان میں بگڑ کر جبرالٹر بن گیا۔ پھر ان چند سو سپاہیوں پر مشتمل فوج نے قلعہ قرطاجنہ پر کنٹرول حاصل کرلیا۔

طارق بن زیاد نے جنگ کیلئے ایسی جگہ منتخب کی جو اسلامی لشکر کیلئے فوجی لحاظ سے محفوظ تھی۔ اور اس کے نزدیک پانی اور رسد کی سہولتیں موجود تھیں۔ یہ جگہ وادیٔ رباط (یا وادیٔ بکر) کے کنارے تھی۔

اس موقع پر طارق بن زیاد نے اپنی فوج کو ایک نہایت ولولہ انگیز خطبہ دیا اور کہا کہ تمہارے سامنے دشمن اور تمہارے پیچھے سمندر ہے۔ جنگ سے قبل انہوں نے جہازوں کو جلا دینے کا حکم دیا تھا، تاکہ دشمن کی کثیر تعداد کے باعث اسلامی لشکر بد دل ہوکر اگر پسپائی کا سوچے بھی تو راستہ مسدود ہو۔

اس صورت میں صرف ایک ہی راستہ باقی رہ جاتا تھا کہ یا تو دشمن کو شکست دے دی جائے یا لڑتے ہوئے جاں جانِ آفرین کے سپرد کر دی جائے۔ بلاشبہ یہ ایک ایسی زبردست جنگی چال تھی جس نے اپنی اپمیت کی داد آنے والے عظیم سپہ سالاروں سے بھی پائی۔ اسلامی لٹریچر میں طارق بن زیاد کے اس خطاب کو محترم مقام حاصل ہے۔

آٹھ دن کا رن پڑا اور آخر کار دشمن کی فوج کو شکست ہوئی اور بادشاہ راڈرک بھاگ نکلا، جس کے انجام کا تاریخ میں پتا نہیں چل سکا۔ یہ جنگ اس اعتبار سے بھی فیصلہ کن تھی کہ اس کے بعد ہسپانوی فوج کبھی متحد ہوکر مسلمانوں کے مقابلے پر آنے کی جرأت نہ کرسکی۔

قوطی بادشاہ راڈرک کی شکست فاش اور طارق بن زیاد کی حیرت انگیز فتوحات کی خبر سن کر افریقہ کے والی موسیٰ بن نصیر نے حکومت اپنے بیٹے عبداللہ کے سپرد کی اور خود اٹھارہ ہزار کی فوج لے کر ہسپانوی جزیرہ خضرا میں اترا۔ جس پہاڑ کے قریب وہ اترا وہ جبل موسیٰ کہلائی۔

اس کی فوج میں زیادہ تر عرب اور شامی سپاہی تھے۔ موسیٰ بن نصیر نے طارق بن زیاد کے مفتوحہ علاقوں کو چھوڑ کر غیر مفتوحہ علاقوں کا رُخ کیا اور شذونہ، قرمونہ اور اشبیلہ اور ماردہ فتح کئے۔

موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد کی ملاقات طلیطلہ میں ہوئی۔ دونوں سپہ سالاروں نے مفتوحہ علاقوں کی انتظامی صورتحال کا جائزہ لیا۔ داخلی حکمت عملی کا تبادلہ اور مزید فتوحات کی منصوبہ بندی کی۔

علاوہ ازیں عربی اور لاطینی زبانوں میں نئے سکّے مضروب کئے اور نئی مہمات کا آغاز کردیا اور شمالی اندلس کے علاوہ جنوبی فرانس پر پیش قدمی کرکے اہم شہروں اربونہ، لودون اور اوونیون پر قبضہ کرلیا۔

موسیٰ بن نصیر اور طارق بن زیاد کی فتوحات کا سلسلہ جاری تھا کہ خلیفہ ولید بن عبدالملک کا قاصد دمشق سے یہ حکم نامہ لایا کہ موسیٰ اور طارق جلد از جلد دارالحکومت دمشق پہنچ جائیں۔

دمشق واپس پہنچ کر موسیٰ اور طارق بن زیاد جیسے عظیم سپہ سالاروں کی عسکری زندگی کا خاتمہ ہوگیا اور وہ گمنامی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوگئے۔

اگر طارق بن زیاد اور موسیٰ بن نصیر دربار دمشق کی غیر دانشمندانہ مداخلت سے آزاد رہتے تو نہ صرف اندلس کی تاریخ مختلف ہوتی بلکہ شاید آج یورپ اسلامی دنیا کا حصہ ہوتا۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے