تازہ ترین

انسدادِ جرائم کی عالمی تنظیموں کے متعلق برطانوی بزنس مین کا بڑا انکشاف

so called human rights organizations exposed
  • واضح رہے
  • اکتوبر 18, 2020
  • 4:30 شام

انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن جرائم کا خاتمہ نہیں چاہتے۔ جرائم ختم ہوگئے تو ان کی دکان بند ہوجائے گی۔ اسد شمیم

برمنگھم: پاکستانی نژاد برطانوی بزنس مین اسد شمیم نے دنیا بھر میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح، نت نئے اقسام کے جرائم اور معاشرتی خرابیوں کا ذمہ دار انسانی حقوق کے نام نہاد علمبرداروں کو قرار دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ جرائم کے خاتمے یا روک تھام کیلئے بننے والے عالمی اور ملکی سطح کے ادارے اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہو رہے اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں مختلف قسم کے جرائم میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اسد شمیم نے سوال اٹھایا کہ ڈکیتی، مالی بدعنوانی، اغوا برائے تاوان اور زیادتی جیسے کریہ جرائم کا ارتکاب کرنے والے عناصر کو سخت سے سخت سزائیں دے کر نشان عبرت کیوں نہیں بنایا جاتا، تاکہ آئندہ کوئی بھی شخص غلط کام کرنے سے پہلے ہزار بار سوچے۔

انہوں نے جرائم کے خلاف خود ساختہ طور پر لڑنے والی اکثر عالمی، مقامی اور غیر سرکاری تنظیموں/ آرگنائزیشنز کو ڈھونگی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں جرائم کے خاتمے کیلئے پروگرامز بنائے جاتے ہیں۔ مختلف این جی اوز کی فنڈنگ کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں لاقانونیت بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ برصغیر کی ہی مثال لے لیں جہاں پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش میں آگاہی مہمات کے باوجود زیادتی کے واقعات بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

 

so-called-human-rights-organizations-exposed

 

انسانی حقوق کے نام نہاد چیمپئن متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی تو کرتے دکھائی دیتے ہیں، لیکن مجرم کو پھانسی پر لٹکانے کی بات پر انہیں خود موت آجاتی ہے۔ عوامی احتجاج پر بنگلہ دیش کی حکومت نے زیادتی کے مجرم کو سزائے موت دینے کا اصولی فیصلہ کیا ہے، جو قابل تحسین ہے۔ جبکہ بنگلہ دیشی عدالت کے حالیہ فیصلے کے نتیجے میں 5 مجرمان کو سزائے موت بھی دے دی گئی ہے۔ تاہم اس میں بنگلہ دیش کے اُن اداروں، تنظیموں یا آرگنائزیشن کا کوئی کردار نظر نہیں آتا، جو جنسی زیادتی کیخلاف بڑھ چڑھ کر احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔

دراصل انسداد جرائم کے نام پر قائم تنظیمیں اپنی دکانیں چمکا رہی ہیں۔ جرائم ختم ہوگئے تو ان کی دکان بند ہو جائے گی۔ اقوام متحدہ کی جانب سے اس ضمن میں سامنے آنے والا مؤقف مجرمان کو بالواسطہ تحفظ فراہم کرنے کے عمل کا واضح ثبوت ہے۔

اقوام متحدہ کہتا ہے زیادتی کے جرم کو سزائے موت مسئلے کا حل نہیں۔ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیشلیٹ کا کہنا ہے کہ زیادتی بڑا جرم ہے، مگر سزائے موت حل نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بات کے کوئی شواہد نہیں کہ سزائے موت سے جرم میں کمی واقع ہوسکتی ہے۔ محترمہ مشیل بیشلیٹ کا کہنا ہے کہ زیادتی کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کو سزائے موت دینا معقول سزا نہیں ہے جیسا کہ بنگلادیش میں ہوا ہے۔

اسد شمیم نے کہا کہ اب لوگ خود ہی فیصلہ کرلیں کہ یہ ادارے جرائم ختم کر سکتے ہیں یا نہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے