تازہ ترین

سانپ کا شکاری پہاڑی بکرا۔۔۔۔۔۔ مارخور

Saanp ka shikaari paharri bakra markhor
  • واضح رہے
  • فروری 4, 2021
  • 12:28 صبح

فارسی زبان میں ”مار“ سانپ کو کہتے ہیں اور ”خور“ کا مطلب ہے، کھانے والا۔ لہذا مار خور کے معنی سانپ کھانے والے جانور، کے ہیں

پہاڑی بکروں کی سب سے بڑی نسل مار خور ہے۔ جو پاکستان کے شمالی علاقہ جات گلگت بلتستان اور وادیٔ ہنزہ سمیت افغانستان، مقبوضہ کشمیر، تاجکستان اور ازبکستان کے جنوبی حصوں میں پائے جاتے ہیں۔ سانپ کا شکاری یہ پہاڑی بکرا انتہائی تیز اور پھرتیلا ہوتا ہے۔

فارسی زبان میں ”مار“ سانپ کو کہتے ہیں اور ”خور“ کا مطلب ہے، کھانے والا۔ لہذا مار خور کے معنی سانپ کھانے والے جانور، کے ہیں۔ دراصل مارخور سانپ کو کھاتے نہیں ہیں لیکن اسے مارنے کی صلاحیت ضرور رکھتے ہیں۔

مارخور کے علاوہ پاکستان میں ہمالیہ، سائبیرین، نوبین اور سندھی پہاڑی بکرے بھی پائے جاتے ہیں۔  تاہم یہاں ہمالیہ اور سائبیرین پہاڑی بکروں کو ایک ہی نسل شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ سندھی بکرے سندھ اور بلوچستان کے صحرائی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔

مارخور کو 2010ء میں قدرتی وسائل کی حفاظت کی عالمی تنظیم آئی یو سی این نے ان جانوروں میں شمار کیا تھا جن کا وجود خطرے میں ہے۔ پاکستان سمیت دیگر ممالک میں مارخور کو شکار کے لئے موزوں ترین جانور سمجھا جاتا ہے۔ بے دریغ شکار کی وجہ سے پہاڑی بکروں کی یہ نسل معدومیت کے خطرے سے دوچار ہے۔

آئی یو سی این کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو دہائیوں سے مارخور کی افزائش میں مسلسل 20 فیصد کمی کے باعث مذکورہ ممالک میں بالغ مار خوروں کی تعداد تقریباً ڈھائی ہزار سے کم رہ گئی ہے۔

Saanp ka shikaari paharri bakra markhor

آئی یو سی این کے ریکارڈ کے مطابق 1998ء میں بھی یہ پہاڑی بکرے غیر محفوظ تھے۔ مارخور پاکستان کا قومی جانور ہے۔ مارخور کے علاوہ دنیا بھر میں پہاڑی بکروں کی سات نسلیں پائی جاتی ہیں۔ ان میں ہسپانوی، نوبین، سائبیرین، والیا،East Caucasian tur ، West Caucasian tur اور الپائن آئی بیکس شامل ہیں۔

پہاڑی بکرے کی ایک نسل الپائن، اٹلی سمیت کئی یورپی ممالک میں پائی جاتی ہے۔ الپائنی بکرے بلندیوں پر چڑھنے کے شوقین ہوتے ہیں اور بآسانی ہزاروں فٹ بلند پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ ایک موقع پر یہ پہاڑی بکرے 13 ہزار فٹ کی بلندی پر دیکھے گئے، جو ایک خیرت انگیز امر ہے۔

الپائن کو اس سے پہلے اطالوی چوٹیوں پر صرف 160 فٹ بلندی پر دیکھا گیا تھا، لیکن بغیر کسی سہارے کے سپاٹ پہاڑ پر ہزاروں فٹ اوپر پہنچ جانا ناقابل یقین سا لگتا ہے۔ یہ بلند و بالا چوٹی کا آخری مقام تھا، جہاں تین الپائن بکرے کھیل کود رہے تھے۔

علاوہ ازیں پاکستان کا قومی جانور مارخور بھی پہاڑی علاقوں میں رہتا ہے، لیکن وہ الپائن کی طرح ایک اچھا کوہ پیما نہیں ہے۔ پہاڑی بکروں کی یہ دونوں نسلیں قدرتی طور پر چڑھائی چڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہیں لیکن کٹھن پہاڑی راستوں پر مارخور کے عالیشان سینگ اس کی راہ میں حائل ہوجاتے ہیں۔

مارخور کے سینگ دیگر نسلوں کے پہاڑی بکروں سے بہت مختلف اور انتہائی بڑے ہوتے ہیں۔ جبکہ اس کی زندگی دیگر کی نسبت مختصر بتائی جاتی ہے۔ مارخور کی اوسط عمر 7 برس جبکہ الپائن بکروں کی زندگی کا تخمیہ 9 برس لگایا گیا ہے۔ یہ دونوں پہاڑی بکرے قد، کاٹھ اور وزن کے لحاظ سے بھی کافی الگ ہیں۔

مارخور کا زمین سے کندھوں تک قد 65 سے 115 سینٹی میٹر (26 سے 45 انچ) ہوتا ہے، اس کی لمبائی 132 سے 186 سینٹی میٹر (52 سے 73 انچ) کے درمیان ہے جبکہ یہ 32 سے 110 کلو گرام وزنی ہوتے ہیں۔ پہاڑی بکروں کی تمام نسلوں میں مارخور سب سے زیادہ چوڑا ہوتا ہے۔ لیکن قد و قامت میں یہ سائبیرین آئی بیکس سے پیچھے رہ گیا ہے۔

مارخور کا رنگ سیاہی مائل بھورا ہوتا ہے اور ٹانگوں کے نچلے حصے پر سفید و سیاہ بال ہوتے ہیں۔ نر مارخور کی تھوڑی، گردن، سینے اور نچلی ٹانگوں پر مادہ کے مقابلے میں زیادہ لمبے بال ہوتے ہیں، جن کی کھال گرمیوں میں یکساں اور سردیوں میں موٹی ہوجاتی ہے۔ گھونگریالے بالوں کی طرح مڑے ہوئے مضبوط سینگ کسی پیچ کھائے ہوئے آلے سے مشابہت رکھتے ہیں۔

ماتھے پر اسکرو کی مانند کسے ہوئے سینگ عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتے رہتے ہیں لیکن ان کی لمبائی میں تیزی سے اضافہ ابتدائی دور میں ہوتا ہے۔ مارخور کے سینگ 160 سینٹی میٹر یعنی 64 انچ لمبے ہوتے ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس بلند و بالا پہاڑوں پر چڑھ جانے والے الپائن بکروں کے سینگ 69 سے 98 سینٹی میٹر (27 سے 39 انچ) ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ الپائن بکروں کو آسمان کو چھوتی ہوئی چوٹیوں کو سر کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔

برطانوی اخبار گارجین کی رپورٹ کے مطابق الپائن بکروں میں کوہ پیمائی کی خداداد صلاحیت ہوتی ہے۔ یہ کسی بھی سہارے کے بغیر کئی سو فٹ بلند پہاڑوں پر چڑھ جاتے ہیں۔ ان پہاڑی بکروں کو اکثر بلند پہاڑوں کے کناروں یا ایسے مقامات پر دیکھا گیا ہے، جہاں سے گرنے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔

Saanp ka shikaari paharri bakra markhor

الپائن، مارخور سے جسامت میں کم ہوتا ہے اور اس کے سینگ بھی نسبتًا چھوٹے ہوتے ہیں۔ پہاڑی بکروں کی دیگر سات نسلوں سے الپائن بکرے کا موازنہ کیا جائے تو اس کا سر چھوٹا لیکن چوڑا ہوتا ہے جبکہ کھال روکھی ہوتی ہے۔

پہاڑوں پر رہنے والے اس بکرے کی رنگت گدلی سرمئی ہوتی ہے جبکہ ٹھوڑی، گلے، پیٹ اور ریڑھ کی ہدٹی پر بنے ہوئے گہرے نقش اس کی پہچان ہیں۔ ان کے جسم سے سال میں دو مرتبہ رواں گرتا ہے، پہلے اپریل یا مئی اور بعدازاں ستمبر کے مہینے میں نئی جلد اس وقت نکلتی ہے جب موسم سرما میں قدرتی طور پر ان کی کھال موٹی ہوجاتی ہے۔

عموماً ان کے شانے 90 سے 101 سینٹی میٹر (35 سے 40 انچ) چوڑے ہوتے ہےں جبکہ ان کا قد 149 سے 171 سینٹی میٹر (59 سے 67 انچ) ہوتا ہے۔ ان پہاڑی بکروں کا وزن 67 سے 117 کلو گرام کے درمیان ہوتا ہے۔ الپائن بکروں کے پیچھے کی جانب مڑے ہوئے سینگ کسی ادھورے چاند کی طرح لگتے ہیں۔

مارخور اور الپائنی بکروں کی ایک خوبی ان کے لمبے اور مڑے ہوئے سینگ ہیں۔ ان کے سینگ جنگلی بکرے کے سینگوں سے بھی زیادہ چوڑے ہوتے ہیں۔ یہ جانور دشوار پہاڑوں پر چڑھنے اور لمبی چھلانگیں لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے کھردرے کھر انہیں پتھریلی چٹانوں پر چڑھنے میں مدد دیتے ہیں اور انہیں پھسلنے سے بچاتے ہیں۔ ان کے ٹخنوں پر گوشت کی موٹی پرت ہوتی ہے جو ان کی ٹانگوں میں لگنے والے جھٹکوں کو برداشت کرنے اور چوٹ سے بچنے میں مدد دیتی ہے۔

چھوٹی جھاڑیاں پہاڑی بکروں کی مرغوب غذا ہیں۔ لیکن وہ کسی بھی کھانے لائق پودے کو شوق سے کھالیتے ہیں۔ پہاڑی بکروں کو بہت زیادہ ٹھنڈے اور خشک موسم کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کی موٹی کھال انہیں سردی سے بچاتی ہے۔

عام طور پر یہ جُھنڈ کی شکل میں رہتے ہیں اور کبھی کبھی بہت سرد موسم میں میدانی علاقوں کی طرف ہجرت بھی کر جاتے ہیں۔ خصوصی طور پر مارخور 600 سے 3600 میٹر تک کی بلندی پر پایا جا سکتا ہے۔ یہ عام طور پر شاہ بلوط، صنوبر اور دفران کے جنگلوں میں رہتے ہیں۔ مارخور دن میں چرنے پھرنے والا جانور ہے اور زیادہ تر صبح سویرے یا سہ پہر کے وقت نظر آتا ہے۔

ان کی خوراک موسم کے ساتھ تبدیل ہوتی ہے۔ گرمیوں اور بہار کے موسم میں یہ گھاس چرتے ہیں جبکہ سردیوں میں درختوں کے پتے کھاتے ہیں۔ جوڑے بنانے کا عمل سردیوں میں ہوتا ہے۔ اس سے قبل نر سینگوں میں سینگ پھنسا کر ایک دوسرے سے زور آزمائی کرکے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

پہاڑی علاقوں میں ہرن کی طرح پہاڑی بکرے کا شکار بھی بے حد مقبول ہے۔ افغانستان میں ان کے شکار پر پابندی ہے۔ لیکن نورستان اور لغمان کے علاقوں میں روایتی طور پر پہاڑی بکروں کا شکار کیا جاتا رہا ہے اور افغانستان کی موجودہ صورتحال میں اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔ آئی یو سی این کے اعداد و شمار کے مطابق کھلے جنگلات میں ان کی کل تعداد دو ہزار سے چار ہزار کے درمیان ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے