تازہ ترین

پوری دنیا میں صرف 2 لاکھ 500 ٹن سونا

puri dunya main sirf 2 lacs 500 ton gold
  • واضح رہے
  • دسمبر 26, 2020
  • 5:01 شام

سونے سے مالا مال ٹاپ 10 ممالک میں سعودی عرب شامل بھی نہیں۔ دنیا بھر میں گولڈ کی خریداری بڑھنے لگی

نیویارک: پوری دنیا کا سونا اگر ایک جگہ جمع کر لیا جائے تو بھی کوئی بڑا پہاڑ نہیں بنے گا۔ بلکہ یہ تمام سونا محض ایک 6 منزلہ عمارت میں سما سکتا ہے۔ ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق جب سے انسان نے سونا نکالنا اور جمع کرنا شروع کیا ہے۔ اس وقت سے 2019ء کے اختتام تک مجموعی طور پر ایک لاکھ 97 ہزار 576 ٹن سونا نکالا گیا۔

ہر سال دنیا بھر میں نکالے جانے والے سونے میں تین ہزار ٹن کا اضافہ ہوتا ہے۔ لہٰذا 2020ء کے سال کو بھی ملا لیا جائے تو دنیا بھر کے سونے کی مجموعی مقدار دو لاکھ 500 ٹن بنتی ہے۔ ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق یہ تمام سونا ایک جگہ رکھ دیا جائے تو 21 اعشاریہ 7 مکعب میٹر میں آئے گا۔ یعنی ایک ایسا کیوب جس کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی 21 اعشاریہ 7 میٹر (یا 65 اعشاریہ ایک فٹ) ہوگی۔ یہ حجم ایک چھ منزلہ بلند چوکور عمارت کے برابر بنتا ہے۔

واضح رہے کہ دنیا بھر میں صدیوں سے نکالا جانے والا تمام کا تمام سونا اب بھی محفوظ ہے۔ سونا ایک ایسی دھات ہے جو تلف یا تباہ نہیں ہوتی۔ لہٰذا یہ بار بار نئی شکل میں ڈھالا جا سکتا ہے۔ ہر سال پوری دنیا میں جو سونا فروخت ہوتا ہے۔ اس کا 75 فیصد نئی کانوں سے آتا ہے۔ جبکہ باقی 25 فیصد طلب پرانے سونے کو ڈھال کر پوری کی جاتی ہے۔ یوں نئے سونے کی پیدوار ہمیشہ مانگ سے کم رہتی ہے۔

عام تاثر یہ ہے کہ سونا کم ہونے کے خطرے کے سبب اس کے لیے انسان کی حرص بڑھتی جا رہی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند عشروں کے دوران سونے کی پیداوار میں اضافے کے ساتھ اس کی قیمت اور انسان کی حرص دونوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔

ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق دنیا بھر میں جتنا سونا موجود ہے۔ اس کا دو تہائی حصہ 1950ء کے بعد نکالا گیا۔ یعنی اس سے پہلے کی پوری انسانی تاریخ میں صرف 67 ہزار ٹن سونا کانکنی یا دیگر ذرائع سے حاصل کیا گیا۔ جب کہ پچھلے 70 برسوں میں آنے والی تین نسلیں اس سے دگنا سونا نکال چکی ہیں۔

1950ءسے پہلے کے سو برس پر بھی نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوگا کہ 1850ء سے پہلے سونے کا جنون نہیں پایا جاتا ہے۔ 1848ء میں ”کیلی فورنیا گولڈ رش“ شروع ہونے سے پہلے دنیا بھر میں سونے کی مجموعی پیداوار 15 ٹن سالانہ کے لگ بھگ تھی اور کم ازکم ڈھائی صدیوں سے اتنی ہی چلی آرہی تھی۔

کیلی فورنیا میں سونے کی دریافت جو بعد ازاں کیلی فورنیا گولڈ رش کے نام سے مشہور ہوئی۔ تاریخ کا وہ موڑ ہے جب سونے کی پیداوار میں نمایاں اضافہ شروع ہوا۔ امریکی جیالوجیکل سروے کے ڈیٹا کے مطابق اس دریافت کے فوراً بعد پہلی مرتبہ سونے کی پیدوار ڈھائی سو ٹن سالانہ تک پہنچ گئی۔ 20 ویں صدی کے آغاز پر یہ پہلی مرتبہ پانچ سو ٹن سالانہ سے بڑھ گئی۔

1930ء کے عشرے میں اس میں اضافہ ہوا اور 1940ء میں 1113 ٹن سونا نکالا گیا۔ سونے کی پیداوار میں اگلا بڑا اضافہ 1970ء اور 1980ء کے عشروں میں دیکھا گیا۔ 1971ء میں پیداوار پہلی مرتبہ 1500 ٹن سالانہ سے تجاوز کر گئی۔

1990ء کے عشرے میں سونے کی عالمی پیداوار 2 ہزار ٹن سالانہ ہوگئی اور پھر 21 ویں صدی کے آغاز پر یہ ڈھائی ہزار ٹن پر پہنچ گئی۔ اگلے دس برسوں میں سونے کی پیداوار تین ہزار ٹن سالانہ سے تجاوز کر جائے گی۔ پچھلے دس برسوں میں ہر برس دنیا کو تین ہزار ٹن کے لگ بھگ نیا سونا ملا ہے۔

لیکن پیداوار بڑھنے کے ساتھ ساتھ قیمتیں بھی بڑھ رہی ہیں۔ اور یہ بات طلب و رسد کے عمومی اصولوں کے خلاف ہے۔ عام طور پر جس چیز کی پیداوار بڑھتی ہے۔ اس کی قیمت کم ہوتی ہے۔ اور جس کی پیداوار گھٹتی ہے۔ اس کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن سونے کے معاملے میں الٹ ہو رہا ہے۔

امریکہ میں سونے چاندی کی سب سے بڑی کمپنی سی ایم آئی گولڈ اینڈ سلور انکارپوریشن کے 200 سالہ ریکارڈ کے مطابق 1792ء میں سونے کی فی اونس (ڈھائی تولے سے ذرا کم) قیمت 19 اعشاریہ 39 ڈالر تھی۔ یہ قیمت چالیس برس تک برقرار رہی۔ پھر اس میں معمولی اضافہ ہوا۔ چند ڈالر کے اتار چڑھاؤ کے بعد 1843ء سے قیمت 20 اعشاریہ 67 ڈالر پر مستحکم ہوگئی۔ (موجودہ شرح مبادلہ کے لحاظ سے یہ قیمت 3 ہزار 300 پاکستانی روپے بنتی ہے)۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے