اسد عمر نے وزارت سے مستعفی ہونے کا اعلان ایک ٹوئٹ میں کیا اور بعد ازاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم کابینہ میں ردوبدل کرنے جا رہے ہیں، مجھے وزارت توانائی کی پیشکش کی گئی تھی، مگر میں نے کہا کہ کابینہ کا حصہ نہیں بننا چاہتا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسد عمر نے معیشت کو ٹریک پر لانے کے بجائے ملک پر مزید 500 ارب ڈالر کا قرضہ چڑھا دیا ہے۔ واضح رہے کہ اسد عمر کو ساڑھے 8 ماہ قبل وزارت خزانہ کا عہدہ سونپا گیا تھا، اس مختصر عرصے میں انہوں نے عوام پر بجلی، گیس، پٹرول اور مہنگائی بم گرائے۔ اس حوالے سے معروف اقتصادی ماہر ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی نے اگست میں حکومت بنائی اور اگلے ماہ ستمبر میں آئی ایم ایف سے قرض کی درخواست بھی کردی، میرے خیال میں ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا جب معلوم تھا کہ وہ ہمیں ذیلیل کریں گے۔
قبل ازیں اسد عمر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے اپنے دور میں معیشت کی بہتری کیلئے مشکل فیصلے کئے اور نئے وزیر خزانہ کو بھی معاشی چیلنجر کا سامنا ہوگا۔ پی ٹی آئی حکومت کے قیام کے وقت ملکی معیشت جہاں تھی وہ بدترین صورتحال تھی، جس سے باہر نکلنے کیلئے فیصلے کئے، تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اب معیشت بہتر ہو گئی ہے۔ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان میں معیشت کی بنیادی چیزوں کو جب تک ٹھیک نہیں کیا جائے گا مسائل جوں کے توں رہیں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ وہ پی ٹی آئی نہیں چھوڑ رہے اور عمران خان کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سبکدوش ہونے والے وزیرِ خزانہ نے عوام کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہم بہتری کی جانب جا رہے ہیں، لیکن ہمیں مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ جو بھی آئے، جو فیصلے کرے اس کے ساتھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے اور ان سے کوئی امید رکھے کہ معجزے ہوں گے اور اگلے تین مہینے کے اندر دودھ اور شہد کی ندیاں بہنے لگیں گی۔ آئی ایم ایف سے اچھی شرائط پر معاہدہ ہو رہا ہے اور آنے والا بجٹ آئی ایم ایف سے ہونے والے معاہدے کے تناظر میں بنے گا اور یہ بجٹ مشکل بھی ہو گا۔