تازہ ترین

فلپائن میں ظہورِ اسلام اور عقیدۂ توحید کا فروغ

phillipine main zahoor e islam or aqeeda toheed ka farogh
  • واضح رہے
  • اپریل 27, 2021
  • 2:21 صبح

چودھویں صدی میں مسلمان تجارت کی غرض سے اس جنوب مشرقی ایشیائی علاقے کا رخ کرتے تھے، جس کا پرانا نام سُولو آرکیپیلا گو تھا

اسلام جو کہ قدیم ترین مذاہب میں سے ایک منظم مذہب ہے، 15ویں صدی میں عرب اور مَلے کے مسلم تاجران کی آمد کے ساتھ ہی فلپائن میں اس کا ظہور ہوگیا تھا۔ 1380ء میں مسلم مبلغ کریم المخدوم سُولو آرکیپیلا گو اور جُولو میں پہنچے تھے اور وہاں پر اسلام کی تبلیغ کرنے میں مصروف ہوگئے تھے۔ اب اس ملک کو ہم فلپائن کے نام سے جانتے ہیں۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ شیخ کریم المخدوم فلپائن کی قدیم مسجد ہے، جو کہ سمونل پر تعمیر کرائی گئی تھی۔ اس کے بعد جب عرب کے مسلم مبلغین ملائیشیا اور انڈونیشیا سے آنے جانے لگے تھے تو فلپائن میں عقیدۂ توحید کو تقویت ملنے لگی تھی۔

اس ملک کے جنوبی خطے میں حالانکہ اسلام کو زیادہ فروغ ملا تھا، تاہم شمال کی جانب منیلا تک اسلام کی روشنی پھیلی گئی تھی۔ اسی دوران میگنڈ اناؤ اور سولو سلطنتوں کے انضمام سے ایک بڑی سلطنت قائم ہو گئی تھی۔ چونکہ مَلے، آرکیپیلا گو، ملائیشیا، انڈونیشیا اور فلپائن کے مختلف علاقوں میں جن اولین افراد نے خود کو بطور سلطان مستحکم کرلیا تھا وہ بنیادی طور پر عرب نژاد تھے۔ اور ان میں سے بھی زیادہ تر افراد کا تعلق عرب کے شاہی حسب نسب سے ہی تھا۔

شیخ کریم المخدوم مسجد کا بیرونی منظر

جنوب مشرقی ایشیا میں تجارت سے ہی اسلام کو سب سے زیادہ فروغ ملا۔ مسلمان تاجروں کو صرف تجارت میں ہی دلچسپی نہیں تھی، بلکہ وہ روحانی زندگی کے پہلوؤں پر بھی عمیق غور کرتے تھے۔ اسی جذبہ کے تحت انہوں نے ان لوگوں کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کرایا تھا۔ اس وقت شمالی سماترا ایسا جزیرہ تھا کہ وہاں پر ہندوستان اور مغربی ممالک سے آرکیپیلا گو کیلئے تجارتی راستہ جاتا تھا۔

اس لئے جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے پہلے اسلام کی کرنیں یہاں پہنچی تھیں۔ ملاکا، جو کہ 15ویں صدی میں اس خطہ کا اہم ترین تجارتی مرکز تھا وہاں پر زبردست طریقے سے اسلامی عقیدہ پختہ ہوگیا تھا۔ سولو سلطنت ان مالے لیڈروں کی وجہ سے مضبوط ہوگئی تھی، جنہوں نے وہاں کے باشندوں کی سیاسی اور اقتصادی معاونت کی تھی اور اسلامی تعلیمات کو فروغ دینا شروع کر دیا تھا۔

انہی لوگوں کے درمیان سماترا کا شہزاہ راجہ باگوئنڈا تھا، جو کہ کچھ لوگوں کے ایک گروپ کے ہمراہ 1390ء میں فلپائن آیا تھا۔ ان تمام لوگوں نے اسلام قبول کرلیا تھا اور پھر وہ بووانسا میں آباد ہوگئے تھے، جو کہ بعد میں سولو کی اولین راجدھانی بن گئی تھی۔

ابتدائی دور میں جو مبلغین فلپائن آئے تھے، وہ یہاں مخدومین کے طور پر معروف ہوگئے تھے۔ انہوں نے ہی وہاں کے مقامی باشندوں کو اسلامی تعلیمات دے کر راہ راست دکھائی۔ دو صدی قبل جب فلپائن میں مغربی نوآبادکار آگئے تھے، تو اس وقت بھی وہاں مسلمان نہ صرف مکمل آزادی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے بلکہ ان کی باضابطہ اور منظم حکومت بھی تھی۔

وہاں کا سلطان نہ صرف ایک سیاسی و مذہبی رہنما تھا بلکہ وہ مذہب اسلام کا محافظ بھی تھا۔ جب وہاں پر سامراجی ممالک اسپین اور امریکہ کے لوگ آنے لگے تو انہوں نے نوآبادکاری کی کوششیں شروع کردی تھیں، جن کی وجہ سے سلطان کمزور ہونے لگا تھا۔ حالانکہ مسلمانوں نے اسپین کے نوآبادکاروں کیخلاف سخت مزاحمت کی، مگر سماجی اور اقتصادی شعبے میں خسارے کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی معیشت نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔

اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ویایس اور لوژون کے باشندے اسپین کے نوآبادکاروں کے زیر اثر ہوگئے تھے، جبکہ مسلمانوں نے تاؤ، ابان اور اگاما میں قومیت، عوام اور اپنے مذہب کا دفاع کرنا جاری رکھا تھا۔ اسپین کی نوآبادکاری سے لے کر امریکی تسلط تک تمام مسلمان اپنے اسلامی عقیدہ پر ثابت قدم رہے۔ جب کبھی بھی انہوں نے یہ محسوس کیا کہ بیرونی طاقتوں کی جانب سے استحصال کی تلوار لٹک رہی ہے تو ان کے پاس صرف ایک ہی چارہ تھا کہ مذہبی بیداری سے داخلی امور کو تقویت دی جائے۔

جب عمیق اسلامی بیداری ایک تحریک بن گئی تو بنگسا ٹنگل میں مورو قبائل اسلام کے آفاقی ’’اُمہ اسلامیہ‘‘ نظریہ کے حامل ہوگئے تھے، جو کہ پوری دنیا میں اسلامی بھائی چارہ کا زبردست ضابطہ ہے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد جب پوری دنیا میں اسلام غالب آگیا تو اسی کے ساتھ فلپائن کے مسلمانوں میں اتحادی اور یکجہتی کا جذبہ مزید مستحکم ہوا۔ 1970ء کی ابتدا میں جب زیادہ سے زیادہ مبلغین اس ملک میں آئے تو اسی تناسب میں فلپائن کے مسلمان بیرونی ممالک جانے لگے تھے۔ چنانچہ جب وہ اپنے وطن واپس آتے تو ان کا اسلامی عقیدہ مزید پختہ ہوجاتا تھا۔

لہذا انہوں نے سوچا کہ وہ بین الاقوامی اسلامی کمیونٹی کے ساتھ مل کر مورو طبقہ سے اپنے تعلقات استوار کریں۔ یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں نے بہت سی نئی مساجد اور مدارس تعمیر کرائے تھے۔ جہاں پر طلبا و طالبات اسلام کے بنیادی ضابطوں اور قرآن کریم کا درس حاصل کرتے تھے۔

phillipine main zahoor e islam or aqeeda toheed ka farogh

اسی دوران اعلیٰ تعلیم کا اسلامی ادارہ جیسے ’’جمعیت فلپائن الاسلامیہ‘‘ مراوی میں کھولا گیا تھا۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں پر ایڈوانس اسٹینڈرڈز کے کورسز بھی چلائے جاتے ہیں۔ اُس وقت تمام مورو طبقات کے جنوبی علاقے، جنوبی اور مشرقی منڈاناؤ، جنوبی پلاون اور سُولو آرکیپیلا گو تک ہی محدود تھے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مورو نسلی گروپ کے اندر 10 ذیلی نسلی گروپ ہیں جو کہ ما قبل تاریخ تائیوان کے ان مہاجرین کے ورثا تھے جنہوں نے فلپائن اور میری ٹائم جنوب مشرقی ایشیا کے بقیہ علاقوں میں سکونت اختیار کی تھی۔

ان تمام افراد کی زبان و کلام کی بنیاد پر شناخت کی جا سکتی ہے۔ ان گروپوں میں سے تین گروپوں کی وجہ سے مورو طبقہ اکثریت میں ہوگیا تھا۔ اس میں شمالی کوٹاباٹو آف میگو ینڈاناؤ سلطان قدرت، میگوینڈاناؤس صوبہ، 2 لانو صوبوں کے موراناؤس اور خصوصی طور پر جولو جزیرہ توسگس شامل تھے۔

جبکہ چھوٹے گروپ میں ساملس، باجوس اور خصوصی طور پر زیمباؤنگا ڈیل سر صوبہ، الانس، سنگیر آف جنوبی منڈاناؤ خطہ، جنوبی پلاون کا میلا بگناس اور ایک چھوٹے جزیرہ کاگائن کا جاما میپن شامل ہیں۔

مورو معاشرے کا روایتی طرز سلطان کی مناسبت سے ہوا کرتا تھا، کیونکہ وہ اسکالر اور مذہبی رہنما تھے لیکن یہاں کے معاشرے میں داتو لیڈر ہوا کرتے تھے، جو کہ مورو سوسائٹی میں مسلسل مرکزی کردار ادا کیا کرتے تھے۔

امریکہ کے ذریعے نافذ کئے گئے بیورو برائے غیر مسیح قبائل کے خاتمہ کے بعد 1946ء میں جب آزادی ملی تو فوری طور پر اقلیتوں کے تعلق سے اور لوگوں کو گنجان آبادیوں جیسے سینٹرل لوژون سے منڈاناؤ جیسے کھلے سرحدی علاقوں میں ہجرت کرنے کیلئے حکومت نے نئی قومی پالیسیاں واضح کردی تھیں۔

آزادی کے فوراً بعد فلپائن کی حکومت اس بات کو سمجھ گئی تھی کہ مسلم طبقہ سے متعلق امور کی نگرانی کرنے کیلئے ایک خصوصی ایجنسی کی ضرورت ہے۔ چنانچہ 1957ء میں قومی کمیشن برائے یکجہتی قائم کیا گیا اور بعد میں اس کی جگہ آفس آف مسلم افیئرز اینڈ کلچرل کمیونٹیز قائم کی گئیں۔

ماضی کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے ایک پیشرفت اس وقت ہوئی تھی جب 1990ء میں مسلم منڈاناؤ میں ایک خومختار ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا، جہاں پر قومی سیکورٹی اور امور خارجہ کے علاوہ مسلمانوں کو اقتدار کے ہر شعبے پر کنٹرول کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔

فلپائن میں مورو طبقہ کثیر لسانی اور نسلی گروپوں سے تعلق رکھتا ہے، جو کہ اس ملک کی کُل آبادی کا 5.25 فیصد ہے۔ 2005ء کی مردم شماری کے مطابق وہ اس ملک میں سب سے بڑا چھٹا نسلی گروپ ہے۔ مورو طبقہ کی بنیاد طور پر نمائندگی یا تو سلطان کرتا ہے یا پھر داتو کرتا ہے۔

مسلم منڈاناؤ میں خودمختار خطہ (ARMM) Autonomous region in Muslim Mindanaos کا سربراہ ایک ریجنل گورنر ہوتا ہے، جو کہ اپنے نائب گورنر کے ہمراہ تمام انتظامی امور دیکھتا ہے۔ اے آر ایم ایم میں ایک ’یک ایوانی‘ پارلیمنٹ ہوتی ہے، جو کہ ریجنل اسمبلی پر مبنی ہوتی ہے اور اس کا سربراہ اسپیکر ہوتا ہے۔ اس وقت اس اسمبلی کے ممبران کی تعداد 24 ہے، جن کا انتخاب مورو طبقہ کرتا ہے اور وہ مکمل طور پر مشرف بہ اسلام ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے