تازہ ترین

نئی واٹس ایپ پرائیویسی پالیسی نے خطرے کی گھنٹی بجادی

new whatsapp privacy policy ne khatre ki ghanti baja di
  • واضح رہے
  • جنوری 9, 2021
  • 8:44 شام

ایپلی کیشن کے فیس بُک مالکان نے نئی پالیسی قبول کرنے کیلئے مختلف خطوں میں کروڑوں صارفین کو پیغامات ارسال کئے ہیں

کیلی فورنیا: سماجی رابطوں کی مشہور ایپلی کیشن واٹس ایپ نے امریکی خفیہ اداروں کی آلہ کار بنتے ہوئے دنیا بھر میں تقریباً ڈھائی ارب افراد کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ سینہ زوری اور بلیک میلنگ پر اُتارو ایپلی کیشن کی جانب سے صارفین کو کہا گیا ہے کہ وہ اگلے ماہ 8 فروری 2021ء تک نئی پرائیویسی پالیسی کو قبول کریں ورنہ اپنے اکاؤنٹس کو ڈیلیٹ کرکے ایپ اَن انسٹال کردیں۔

براعظم افریقہ سمیت چین، خلیج، وسط ایشیائی و ایشیائی خطے کے کروڑوں صارفین کو واٹس ایپ کے انتباہ نے پریشان کر دیا ہے۔ عالمی جریدے ڈیلی نیوز کا کہنا ہے کہ صارفین کو نئی پالیسی قبول کرنے کیلئے مختلف خطوں میں کروڑوں پیغامات ارسال کئے جاچکے ہیں اور ان کو 8 فروری تک کی مہلت دی گئی ہے، تاکہ وہ سروس کا استعمال جاری رکھ سکیں اور اس کے بعد واٹس اپ کی سروس کا استعمال اس ادارے کی امریکہ نواز پالیسی کو قبول کرنے والوں ہی کیلئے ممکن ہوگا۔

سان فرانسسکو کرونیکل جریدے کی رپورٹ کے مطابق نئی پالیسی کہتی ہے کہ واٹس اپ صارفین کا ڈیٹا کمپنی کی جانب سے نا صرف استعمال کیا جائے گا۔ بلکہ اس تمام ڈیٹا کو جوکسی بھی صارف کیلئے انتہائی حساس اور ذاتی نوعیت کا ہوسکتا ہے، فیس بُک کے ساتھ شیئر بھی کیا جائے گا اور صارفین نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں کرسکیں گے۔

واٹس ایپ کی انتظامیہ نے نئی پرائیویسی پالیسی میں کہا ہے کہ جب صارفین ان سے منسلک تھرڈ پارٹی کی خدمات یا فیس بک کمپنی کی دوسری پروڈکٹس پر انحصار کرتے ہیں تو لازم ہے کہ تھرڈ پارٹی وہ معلومات حاصل کر سکتی ہے جو آپ یا دوسرے لوگ ان کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔

غیر ملکی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ پرائیویسی پالیسی کے نام پر صارفین کے نجی معلومات، آئی پی، ویڈیوز، تصاویر، دستاویزات سمیت ای میل ایڈریس، فون نمبرز، موبائیل کمپنی، انٹرنیٹ کا استعمال، گوگل کی سرچنگ، صارفین کے گھریلو اور کاروباری پتے اور سفری معلومات سمیت ہر قسم کی وہ معلومات واٹس ایپ کے پاس جمع کی جائیں گی اور بعد ازاں فیس بُک کو بھیجی جائیں گی، جس سے امریکی انٹیلی جنس سمیت کوئی بھی ادارہ استفادہ کرسکتا ہے۔

واضح رہے کہ فیس بک اور واٹس ایپ کی کوشش ہے کہ وہ صارفین کا سفری ڈیٹا اور ان کی لوکیشن اور مقامات کی رسائی جان لیں، جو لاکھوں کروڑوں افراد کی زندگیوں کیلئے سنگین خطرہ بن سکتا ہے اور امریکی افواج اور انٹیلی جنس سمیت اس ڈیٹا تک رسائی رکھنے والوں کیلئے ممکن ہوجائے گا کہ وہ کسی بھی ایسے واٹس ایپ صارف کو ٹریس کرسکتے ہیں کہ وہ کہاں موجود ہے یا کس جانب سفر کر رہا ہے۔

ایپلی کیشن کا مزید کہنا ہے کہ وہ صارفین کیلئے لاگو نئی پرائیویسی پالیسی کے تحت ان کے زیر استعمال اسمارٹ موبائل فونز کی باریک بیں معلومات بھی حاصل کر رہا ہے، جن میں یہ بات تک واٹس ایپ کو معلوم ہوگی کہ صارف کے موبائل فون کی بیٹری کتنی ہے۔ ایپلی کیشن کا ورژن، اس کا موبائل نمبر اور آئی پی ایڈریس سمیت دوسری حساس ترین معلومات بھی واٹس ایپ کی ملکیت ہوگی۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے