تازہ ترین

نیپالی شیف برطانیہ میں شہرت کی بلندیوں پر

nepali chef bartania shohrat ki bulandiyon per
  • واضح رہے
  • دسمبر 16, 2020
  • 10:14 شام

ججز کو لُبھانے والی ڈشز کی بدولت سنتوش شاہ آج برطانوی ماسٹر شیف فائنل جیت سکتا ہے۔ آبائی وطن میں زبردست جوش و خروش

کھٹمنڈو: نیپال سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ شیف سنتوش شاہ ماسٹر شیف یو کے میں رنز اپ قرار پائے ہیں۔ صرف قدم کی دوری سے وہ دنیا کے سب سے بڑے کوکنگ مقابلے میں تاریخ رقم نہ کرپائے۔ بہرحال اپنی انوکھی اور ججز کو لُبھانے والی ڈشز کی بدولت وہ آج برطانیہ سمیت اپنے آبائی وطن نیپال میں انتہائی مقبول ہو گئے ہیں۔

واضح رہے کہ ماسٹر شیف کی جانب سے برطانیہ میں اپنا مقابلہ 2006ء سے سالانہ بنیادوں پر کرایا جا رہا ہے۔ جس میں سنتوش سے پہلے تک مقابلے کے اہم مرحلے میں پہنچنا تو درکنار آج تک کوئی نیپالی کُک 32 ابتدائی منتخب شیفز میں بھی شامل نہیں ہو سکا تھا۔ تاہم سنتوش شاہ فائنل تھری میں بھی گئے اور اس کے بعد دوسرے نمبر پر آئے۔

ایک انڈین ریسٹورنٹ میں برتن دھونے والے سنتوش شاہ اپنی سخت محنت اور لگن کے سبب اس مقام پر آچکے ہیں کہ اب انہیں دنیا جاننے لگی ہے۔ اسی شہرت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اب نیپالی ڈشز کو عالمی سطح پر روشناس کرانا چاہتے ہیں۔ نیپالی کھانوں کو متعارف کرانے کیلئے انہیں اب اسپانسر کی خدمات بھی حاصل ہو گئی ہیں۔ جو لندن میں پاکستانی، انڈین، تھائی، گجراتی اور دیگر ایشیائی ہوٹل چینز کے مقابلے پر نیپالی ریسٹورنٹ/ ہوٹل بھی شروع کریں گے۔

برطانیہ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والے سنتوش شاہ اپنے آبائی ملک نیپال میں اسٹار بن گئے ہیں۔ ان کی ماسٹر شیف یو کے میں شرکت کو نیپالی عوام اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں۔ نیپالی عوام یو ٹیوب اور ٹویٹر پر سنتوش شاہ کی کامیابی کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے تھے۔ نیپال میں سنتوش کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ بی بی سی نیپال نے گزشتہ دنوں کھٹمنڈو میں مقیم ان کی والدہ کا انٹرویو بھی کیا۔

سنتوش شاہ 1985ء میں نیپال کے ایک چھوٹے سے گاؤں کارجنہ میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ وہ صرف 5 برس کے تھے جب ان کے والد وفات کرگئے تھے۔ اپنے گھر کا پہیہ چلانے کیلئے سنتوش نے کم عمری میں تھیلیاں بیچنا شروع کر دی تھیں۔ وہ 10 برس کی عمر میں پلاسٹک بیگ اور دیگر چیزیں فروخت کرتے تھے۔ یوں اپنے گھر کے معمولات چلانے میں والدہ کا ہاتھ بٹاتے تھے۔ وہ سات بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔

35 سالہ شیف سنتوش نے اپنے حالیہ انٹرویوز میں بتایا ”دوستوں کے ساتھ میں پیدل 7 کلو میٹر سفر کرتا تھا۔ تاکہ ڈبل روٹی خرید کر اسے میلے میں بیچ سکوں۔ میں نے اپنے شہر میں نہر پر ایک تعمیراتی پروجیکٹ پر بطور مزدور بھی کام کیا۔ اس کے بعد میں اپنے گاؤں کے دوستوں کے ساتھ نوکری کی تلاش میں بھارت کی ریاست گجرات گیا۔ وہاں احمد آباد کے ایک مقامی ریستوران میں برتن دھونے کی نوکری سے شروعات کی۔ اس کے بعد بہتری کیلئے دوسرے ہوٹلوں کا رخ کیا۔ انگریزی سیکھی اور ہوٹل مینیجمنٹ میں ڈپلوما کیا۔ 7 سال بعد ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں بطور ایگزیکٹو شیف کام کرنے لگا۔ پھر ایک فوڈ فیسٹیول میں اپنی صلاحیت منوائی۔ جس پر لندن کی ایک گجراتی کاروباری شخصیت نے مجھے کال کی۔ انہوں نے میرے لئے ورک پرمٹ (برطانیہ میں کام کرنے کے اجازت نامے)، فضائی سفر اور دیگر اخراجات کا بندوبست کیا اور یوں 2010ء میں، میں لندن آگیا۔ تاہم جس ریسٹورنٹ میںکام کیا۔ وہ مثالی نہیں تھا۔ لہٰذا یہ نوکری چھوڑ کر برطانیہ میں ایک انڈین ریستورنٹ ڈشوم میں نوکری کی۔ بعد ازاں بنارس اور ہوٹل للت میں بھی کام کیا۔ میں خطرہ مول لیتا ہوں۔ ایک بار میں نے مشہور فرانسیسی ریستورنٹ بھی چھوڑ دیا تھا۔ جہاں تنخواہ بھی کافی اچھی تھی۔ یہ اچھا موقع تھا۔ لیکن میں پھر دوبارہ انڈین ریسٹورنٹ میں آگیا تھا۔ اب میں لندن کے سنامن کچن میں ہیڈ شیف ہوں“۔

واضح رہے کہ سنتوش شاہ نے برطانوی ماسٹر شیف کے سیمی فائنل میں ڈم سم نامی پکوان تیار کیا تھا۔ جس میں نیپال کی روایتی میٹھی ڈش ”یوماری ڈمپلنگز“ کا تڑکا بھی لگایا تھا۔ انہیں چاکلیٹ، کاجو اور مرچ سے تیار کیا گیا اور اس کے اوپر کینو اور دار چینی کا سفوف چھڑک کر سجایا گیا۔ ان کی دوسری ڈش کرسپی چلی چکن تھی۔ جسے انڈین اورچائنیز طریقے سے بنایا گیا تھا۔ اسے ہاٹ اینڈ سار سوپ اور کرسپی نوڈلز کے ساتھ ججوں کے آگے پیش کیا گیا۔ برطانوی جج ان سے اتنا متاثر ہوئے ہیں کہ انہوں نے اسے بہترین ڈش قرار دیا تھا۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے