تازہ ترین

مؤذن رسولؐ: حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ

mu'aziin e rasool hazrat abdullah ibn Umm-maktum
  • واضح رہے
  • اگست 1, 2021
  • 11:18 شام

مکہ مکرمہ کے باشندے اور خاندان قریش کے چشم و چراغ تھے۔ خونی رشتے کے ذریعے وہ رسول اقدسؐ کے ساتھ جڑے ہوئے تھے

وہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ بنت خویلد کے ماموں زاد بھائی تھے۔ ان کے والد کا نام قیس بن زائد اور والدہ کا اسم گرامی عاتکہ بنت عبد اللہ تھا، جو عام طور سے اپنی کنیت ام مکتوم کے ساتھ مشہور تھیں، کیونکہ حضرت عبد اللہ پیدائشی نابینا تھے۔

سرزمین عرب جس وقت اسلام کی ضیا پاشیوں سے منور ہوئی، حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ موجود تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے سینے کو ایمان کے لئے کھول دیا۔ وہ اہل اسلام کے اس گروہ میں شامل ہو گئے، جس نے اولین مرحلے میں داعیٔ اسلام کی پکار پر لبیک کہا اور انہوں نے ان مصائب و آلام کا نہایت پا مردی اور ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کیا، جن سے مسلمان دوچار ہوئے۔ انہوں نے اس راہ میں کسی قسم کی قربانی اور فدا کاری و جاں نثاری سے دریغ نہیں کیا۔

انہوں نے اپنے رفقا کے ساتھ قریش کی اذیتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ان کی زیادتیوں کو صبر و تحمل کے ساتھ برداشت کیا۔ اس راہ میں نہ تو ان کے پائے استقلال میں ذرہ برابر لغزش پیدا ہوئی، نہ ان کا حوصلہ پست ہوا، نہ ان کی قوت ایمانی میں کسی رخ سے کمزوری کے آثار ظاہر ہوئے، بلکہ ان مصائب نے ان کے اندر خدا کے دین سے ربط محکم کو مزید جلا بخشی۔

ان کے اندر بارگاہِ رسالت میں حاضری اور حفظ قرآن کریم کا شوق اس حد تک بڑھا ہوا تھا کہ وہ ہر فرصت کو غنیمت سمجھ کر اس سے فائدہ اٹھاتے اور ہر موقع کو قیمتی جان کر اس کی طرف تیزی سے لپکتے تھے، بلکہ کبھی کبھی تو ایسا بھی ہوتا تھا کہ اس شوق میں وہ رسول اکرمؐ سے دوسروں کے حصے کا وقت بھی لے لیتے تھے۔

اس زمانے میں رسول اکرم قریش کے بڑے بڑے سرداروں کی طرف بڑی شدت کے ساتھ متوجہ تھے۔ آپ کے دل میں یہ نیک تمنا ہر وقت سر اٹھاتی رہتی تھی کہ روسائے قریش دائرۂ اسلام میں داخل ہو جاتے۔ انہی دنوں کی بات ہے، ایک دن آپ عتبہ ابن ربیعہ اس کے بھائی شیبہ ابن ربیعہ، عمرو بن ہشام (ابو جہل) امیہ ابن خلف اور حضرت خالد بن ولیدؓ کے والد ولید بن مغیرہ سے ملے۔

آپؐ ان کے ساتھ تنہائی میں گفتگو کرکے ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کر رہے تھے۔ ابھی آپ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ رسول اکرم سے قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھنے کےلئے یہ کہتے ہوئے داخل ہوئے:

”اے اللہ کے رسول! مجھے اس میں سے کچھ سکھا دیجئے، جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو سکھایا ہے۔“

لیکن آپ نے ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی، بلکہ اس کے برعکس آپ کے چہرے پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوئے اور اس امید میں کہ یہ اسلام قبول کر لیں گے اور ان کا اسلام خدا کے دین کی قوت اور اس کے رسول کی دعوت کی تائید کا ذریعہ بنے گا، آپ بدستور ان قریشیوں کی طرف متوجہ رہے۔

رسول اکرمؐ ان کی ملاقات سے فارغ ہو کر ابھی گھر جانے کا ارادہ ہی کر رہے تھے کہ آپ کے اوپر نزول وحی کی کیفیت طاری ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں:

ترجمہ: ”ترش رُو ہوا اور بے رخی برتی اس بات پر کہ وہ اندھا اس کے پاس آگیا۔ تمہیں کیا خبر شاید وہ سدھر جائے اور نصیحت پر دھیان دے اور نصیحت کرنا اس کیلئے نافع ہو؟ جو شخص بے پروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ داری ہے؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور ڈر رہا ہوتا ہے اس سے تم بے رخی برتتے ہو، ہرگز نہیں، یہ تو ایک نصیحت ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے۔ یہ ایسے صحیفوں میں درج ہے جو مکرم ہیں، بلند مرتبہ ہیں، پاکیزہ ہیں، معزز اور نیک کاتبوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں۔“ (سورہ عبس)

یہ وہ سولہ آیتیں ہیں جنہیں حضرت جبرائیلؑ نے حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ کی شان میں رسول اکرمؐ کے قلب مبارک پر نازل کیا۔ اس روز کے بعد سے رسول اکرم ابن ام مکتومؓ کا بہت لحاظ کرنے لگے۔ وہ جب بھی آپ کے یہاں قیام کرتے، آپ ان کی بڑی خاطر تواضع کرتے۔ وہ جب بھی آپ کی مجلس میں آتے، آپ انہیں اپنے قریب بٹھاتے، ہمیشہ ان کی خیریت دریافت کرتے اور ان کی ضروریات پوری کرتے رہتے تھے اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔

جب رسول اکرمؓ اور اہل ایمان پر قریش کا غیظ و غضب حد سے فزوں ہو گیا اور ان کے ظلم و ستم کی کوئی انتہا نہ رہی تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہجرت کی اجازت دے دی۔ اجازت ملتے ہی حضرت عبد اللہ ابن ام مکتومؓ نے اپنے دین کی حفاظت کےلئے ترک وطن کرنے میں بڑی پھرتی سے کام لیا، چنانچہ اصحابؓ رسول میں سے وہ اور حضرت مصعب بن عمیرؓ سب سے پہلے مدینہ پہنچے تھے۔

حضرت عبد اللہ ابن ام مکتومؓ نے مدینہ پہنچتے ہی اپنے رفیق حضرت مصعب بن عمیرؓ کے ساتھ مل کر لوگوں سے ملاقات کرنے، انہیں پڑھانے اور دین کی دعوت دینے کا سلسلہ شروع کر دیا اور جب نبی کریمؐ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ اور حضرت بلال بن رباحؓ کو مؤذن مقرر کیا، تاکہ وہ دن میں پانچ مرتبہ کلمہ توحید کا اعلان کریں، انہیں بہترین عمل (نماز) کیلئے بلائیں اور خیر و فلاح پر ابھاریں۔

عام طور پر حضرت بلالؓ اذان دیتے اور حضرت عبد اللہ بن ام مکتومؓ نماز کیلئے اقامت کہتے تھے۔ کبھی ایسا ہوتا تھا کہ اذان حضرت ابن مکتومؓ دیتے اور اقامت حضرت بلالؓ کہتے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں تو ان دونوں کی شان ہی نرالی ہوتی تھی۔

نبی کریمؐ کی طرف سے ابن ام مکتومؓ کی عزت افزائی اور قدر دانی کا یہ حال تھا کہ آپ نے اپنی عدم موجودگی کے مختلف مواقع پر دسیوں بار ان کو مدینہ پر اپنا نائب مقرر کیا۔ ان میں سے ایک موقع وہ بھی تھا جب آپ نے فتح مکہ کے لئے مدینہ چھوڑا تھا۔

غزوۂ بدر کے بعد اللہ تعالیٰ نے مجاہدین کی شان کو بڑھاتے، جہاد سے جی چرانے والوں پر ان کی فضلیت جتاتے، مجاہدین کو جہاد پر اکساتے اور جہاد میں شرکت نہ کرنے والوں کے رویے پر اظہار ناگواری کرتے ہوئے اپنے نبیؐ پر قرآن کریم کی چند آیتیں نازل کیں تو حضرت ابن مکتومؓ کے دل پر اس کا بہت گہرا اثر پڑا اور اس شرف سے محرومی ان کو بہت شاق گزری اور انہوں رسول اللہؐ سے عرض کیا:

”اے اللہ کے رسول اگر میرے پاس استطاعت ہوتی تو میں جہاد میں ضرور شریک ہوتا“۔ پھر انہوں نے نہایت سوز و گداز کے ساتھ اللہ سے دعا کی کہ وہ ان کے اور ان کے جیسے دوسرے معذور لوگوں کے بارے میں قرآن کریم میں آیت نازل فرمائے، جو اپنی جسمانی معذوریوں کے سبب شرکت جہاد سے محروم ہو جاتے ہیں۔ وہ بڑے خشوع و تضرع کے ساتھ دعا مانگتے:

ترجمہ: ”خدایا! میرے عذر کے متعلق آیت نازل فرما دے اور اللہ تعالیٰ نے جلد ہی ان کی اس دعا کو شرف قبولیت سے نواز دیا۔

کاتب وحی حضرت زید بن ثابتؓ کا بیان ہے کہ:

”ایک روز میں نبی کریمؐ کے پہلو میں بیٹھا تھا کہ یکایک آپؐ کے اوپر سکینت و وقار کی کیفیت طاری ہوگئی اور اسی حالت میں آپ کا زانو مبارک میرے زانو سے جا کر ٹک گیا، اس سے میرے زانو پر زبردست بوجھ پڑنے لگا، ایسا بوجھ کہ اس سے زیادہ وزن میں نے اب تک کسی چیز میں محسوس نہیں کیا تھا۔ جب آپ کے اوپر سے یہ کیفیت دور ہوئی تو مجھ سے فرمایا کہ ”زید لکھو“ اور میں نے لکھا:

ترجمہ: ”مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو گھر بیٹھے رہتے ہیں اور جو اللہ کی راہ میں جان و مال سے جہاد کرتے ہیں، دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔“

تو ابن مکتومؓ نے کھڑے ہو کر عرض کیا کہ: ”اے اللہ کے رسول، جو لوگ جہاد میں شریک ہونے کی استطاعت سے محروم ہیں ان کا کیا ہوگا؟“

ان کی اس بات کے ختم ہوتے ہی رسول اللہ پر پھر وہی کیفیت طاری ہوئی۔ نزول وحی کی وہ کیفیت دور ہوئی تو فرمایا: ”زید! جو کچھ لکھا ہے اسے پڑھو۔ “تو میں نے پڑھا تو آپ نے فرمایا کہ لکھو:

ترجمہ: ” کسی معذوری کے بغیر۔“

اس طرح وہ استثناء نازل ہوا، جس کی تمنا حضرت ابن ام مکتومؓ نے کی تھی۔ باوجود یہ کہ رب تعالیٰ نے حضرت ابن ام مکتومؓ اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو شرکت جہاد کی پابندی سے مستثنیٰ قرار دیا تھا، ان کا نفس معذوروں کے ساتھ بیٹھ رہنے پر رضامند نہ ہوا۔

انہوں جہاد میں شریک ہونے کا عزم کر لیا، کیونکہ نفوس عالیہ مہمات امور کو چھوڑ کر چھوٹے چھوٹے کاموں پر قانع نہیں ہوا کرتے، چنانچہ اسی روز انہوں نے طے کر لیا کہ وہ کسی غزوہ سے پیچھے نہیں رہیں گے۔

انہوں نے میدان جنگ میں اپنے لئے ڈیوٹی بھی متعین کر لی تھی، وہ کہتے تھے کہ ”مجھے دو صفوں کے درمیان کھڑا کر کے علم میرے ہاتھ میں دے دو۔ میں اسے بلند رکھوں گا اور اس کی حفاظت کروں گا، کیونکہ نابینا ہونے کی وجہ سے میں بھاگ نہیں سکتا۔“

حضرت عمر بن خطابؓ نے 14ھ میں ایرانیوں کے ساتھ ایک ایسی فیصلہ کن جنگ کا عزم مصمم کیا جو ان کی حکومت کو زیر و زبر کر دے اور ان کی سلطنت کا خاتمہ کر کے عساکر اسلام کے لئے آگے بڑھنے کا راستہ صاف کر دے، اس لئے انہوں نے اپنے صوبائی گورنروں کو ہدایت بھیجی۔

”ہر اس شخص کو جلد ازجلد میرے پاس بھیج دو، جس کے پاس اسلحہ ےا گھوڑا ےا قوت شجاعت ےا جنگی سوجھ بوجھ ہو۔“

اور مسلمانوں نے فاروق اعظمؓ کی اس پکار پر لبیک کہا اور وہ جوق در جوق مرکز خلافت مدینہ کی جانب امڈ پڑے۔ ان لبیک کہنے والوں میں نابینا مجاہد حضرت ابن مکتومؓ بھی تھے۔

حضرت عمرؓ نے اس لشکر کی قیادت حضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے سپرد کی اور انہیں ہدایات و نصائح کے ساتھ رخصت کیا۔ جب یہ لشکر قادسیہ کے مقام پر پہنچ کر خیمہ زن ہوا اور جنگ کا دن آیا تو حضرت ابن ام مکتومؓ زرہ پہن کر پورے طور پر تیار ہو کر نکلے اور خود کو مسلمانوں کی عَلم برداری اور اس کی حفاظت کرتے ہوئے جان دینے کے لئے پیش کیا۔

دونوں فوجوں میں تین دن تک سخت خون ریز معرکہ آرائی ہوتی رہی۔ دونوں فریق ایک دوسرے سے اس طرح ٹکرائے کہ جنگوں کی تاریخ سے اس کی مثال بمشکل پیش کی جا سکتی ہے۔ آخر کار تیسرے روز مسلمانوں کی زبردست فتح کے ساتھ اس جنگ کا خاتمہ ہوا اور دنیا کی عظیم ترین سلطنت کا نام و نشان صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹ گیا اور کفر و بت پرستی کی سرزمین پر توحید کا جھنڈا لہرانے لگا۔

اس فتح مبین کی قیمت ہزاروں شہداء نے اپنے خون سے ادا کی تھی۔ ان شہیدوں میں حضرت ابن ام مکتومؓ بھی تھے۔ وہ میدان جنگ میں اس حال میں پڑے ہوئے پائے گئے کہ اپنے خون میں لت پت، علم اسلام کو اپنے کندھے سے چمٹائے ہوئے تھے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے