تازہ ترین

معاشی حالت حضورﷺ کی ولادت باسعادت سے قبل (حصہ اول))

Muashi halat huzoor saww ki wiladat basaadat se qabal first part
  • محمد یوسف فرید
  • نومبر 5, 2020
  • 4:02 شام

آنحضرتؐ کے پردادا عمروبن مناف (جو اپنی غرباء پروری کے باعث ہاشم کے لقب سے مشہور ہیں) اتنے کاروان وکاربرآر تھے کہ قیصر روم، کسریٰ ایران، نجاشی حبش اور اقیال یمن سے ایلاف یعنی’’منشور تجارت‘‘ حاصل کرلیے تھے کہ ان ممالک کو بے کھٹکے کاروان لایا اور لے جایا کریں

ڈاکٹر صاحب نے حضور ﷺ کی آمد سے پہلے قریش کی معاش کے حوالے سے حاصل کی جانے والی مرکزیت اور مرجعیت کو نہایت عمدہ انداز میں بیان کیا ہے کہ عرب کے کونوں سے ہر سال کیسے لوگ اکٹھے ہوجاتے تھے۔ آگے لکھتے ہیں کہ:

وادی ’’غیر ذی ذرع‘‘ کے باشندوں کےلیے تجارت کے سوا کیا چارہ کار تھا ان کے پاس صنعت و حرفت کے لیے خام مواد بھی بالکل نہ تھا ۔ اس طرح یک سو ہوکر انہوں نے اپنی قابلیتوں کو تجارت پر مرتکز کردیا تو نتائج اس زمانے کا خیال کرتے ہوئے حیرت ناک معلوم ہوتے ہیں۔

عرب ایک صحرائے اعظم تھا ۔ باہر والے ان کے لق و دق ملک میں کیا آتے انہیں کو حاجت تھی کہ باہر جایا کریں ۔ ہندوستان کے برابر بڑے اس صحرائی براعظم کی پوری داخلی و خارجی تجارت کو قریش ہی نے منظم کیا ۔ اور اپنے کو اس کا مرکز و محور بنادیا تھا۔

چنانچہ آنحضرت ﷺ کے پردادا عمروبن مناف (جو اپنی غرباء پروری کے باعث ہاشم کے لقب سے مشہور ہیں ) اتنے کاروان وکاربرآر تھے کہ قیصر روم اور کسریٰ ایران اور نجاشی حبش اور اقیال یمن سے ایلاف یعنی’’منشور تجارت‘‘ حاصل کرلیے تھے کہ ان ممالک کو بے کھٹکے کاروان لایا اور لے جایا کریں ، مکے سے عراق نیز عمان (جہاں سے مختصر بحری راستے سے بلوچستان و سندھ اور ہندوستان کے ساتھ اتصال ہوجاتا ہے) ایک طرف فلسطین و شام و عراق دوسری طرف مصر تیسری طرف حبشہ چوتھی طرف یمن اور پانچویں طرف سینکڑوں ہی نہیں ہزاروں میل کی مسافت پر واقع ہیں ششماہی ’’ رحلۃ الشتاء والصیف‘‘ آج چودھویں صدی کے نصف دوم میں بھی تصور کے ساتھ رونگٹے کھڑے کردیتا ہے ۔ مگر قریشی تاجر برابر جاتا تھا۔

سفر کی مسافت اور راستے کے خوردنوش اور تکان سے بڑھ کر گزرگاہ کے لٹیرے خود مختار فاقہ مست قبائل سے سر برارا ہونا تھا ۔ اس کے لیے ان کا حیرت زا نظام حلیفی و خفارہ (یابدرقہ) وجود میں کیا آیا تھا کہ عرب کے کسی شخص کو بھی تجارتی سامان لے کر حجاز،نجد وغیرہ کے وسیع رقبے میں پھیلے ہوئے مصری قبائل کی سرزمین سے گزرنا پڑتا تھا ۔ تو قریشی بدرقے حاصل کرتا ۔ قریش کی طئی اور کلب قبائل سے حلیفی تھی جو شمالی عرب میں خیبر اور دومتہ الجندل کے اہم رقبے پر چھائے ہوئے تھے اور یہیں سے عراق، شام اور مصر کو راستے پھوٹتے تھے ۔ بنی عمروبن مرشد سے دوستی کی بنا پرقبائل ربعیہ کی سرزمین قریش کےلیے محفوظ تھی، جس سے بحرین و عمان یعنی پورے مشرقی عرب کی منڈیوں تک رسائی حاصل ہوگئی تھی۔ حتیٰ کہ اگر کسی کو بحرین کے سوقِ مشقر جانا ہوتو قریشی خفارہ ہی حاصل کیا جاتا۔

جنوبی عرب میں مہرہ اور خضر موت کے سوقِ رابیہ جانے کے لیے قریشی سرپرستی کے باعث آکل المرار کو اپنے حریفوں پر فوقیت حاصل ہوگئی ۔ غرض عرب کا شمال، جنوب، مشرق، مغرب اور وسط ہر حصہ قریشی ایلاف کی زنجیروں سے جکڑ گیا تھا ۔ ان کے میلے اور ان کے کاروان جتنے مفید ثابت ہوئے ان کو قران نے دو معجزنما لفظوں میں یوں یاد دلایا ہے کہ اطعمھم من جوع وامنھم من خوف (فاقے کی جگہ کھانا اور خوف کی جگہ امن) اس نے قریش کو پورے عرب میں ایک مرکزیت و مرجعیت دیدی ہو اور حجِ کعبہ و عرفات کے لیے عرب کے انتہائی کونوں سے لوگ ہر سال آیا کرتے ہو تو کیوں حیرت ہو۔

محمد یوسف فرید

محمد یوسف فرید پیشے کے اعتبار سے انجینئیر ہیں اور سوشل میڈیا پر بلاگز لکھتے ہیں.

محمد یوسف فرید