تازہ ترین

معمار قوم صرف ڈاکٹرز اور انجینئرز ہی نہیں!!

maymar e Qom sirf doctors aur engineers hi nahi
  • فیصلان شفاء اصفہانی
  • دسمبر 12, 2020
  • 1:31 صبح

کہتے ہیں کسی بھی جگہ کی روایات کو بدلنا اور لوگوں کی سوچ کو بدلنا کوئی آسان کام نہیں. اسے ہونے میں دہائیاں بھی لگ سکتی ہیں اور اگر اس کام کو ایسے ہی چھوڑ دیا تو ممکن ہے کہ یہ معاشرے سے ختم ہی نہ ہو

اسی طرح کی کچھ روایات اور سوچ نے نہ صرف کسی ایک علاقے میں بلکہ پورے پاکستان میں اور پوری دنیا میں اپنے قدم جما رکھے ہیں۔ اور ان کا خاتمہ فرض اول ہے۔ اس سوچ کو ہم نے اپنے معاشرے سے اس طرح کنارے میں لے کے آنا ہے کہ یہ دوبارہ پلٹ کر نہ آ سکے۔

جو یہ سوچتے ہیں کہ صرف ڈاکٹرز اور انجینئرز ہی بننا ہے ہمارے بچوں نے تو یہ بہت ہی منفی سوچ ہے۔تو ان لوگوں کو یہ پتہ نہیں ہے کہ دنیا اتنی وسیع ہے کہ جس میں ڈاکٹرز اور انجینئرز کے علاؤہ بھی ایسے شعبے ہیں جن کو منتخب کر کے وہ ان شعبوں سے زیادہ اچھی اور سکون والی زندگی گزار سکتے ہیں۔

اور ایک بات دنیا میں صرف ڈاکٹرز اور انجینئرز ہی وہ واحد لوگ نہیں ہیں جو اپنی زندگی سے خوش ہیں۔آپ کی خوشی کا راز تو أس چیز میں ہے جو آپ کے دل میں ہے۔اور دلوں کے راز سے تو واقف صرف وہ شخص ہے جس نے اپنے دل میں یہ بات چھپائی ہوئی ہے۔

ایک عجیب سی چیز میں اپنی قوم کے بچوں اور والدین کے درمیان دیکھتا ہو جن بچوں کے (میٹرک) میں بہت اچھے نمبر آتے ہیں وہ بھی (انٹرمیڈیٹ) میں میڈیکل کو منتخب کر رہے ہیں اور جن بچوں کے نمبر بہت کم آتے ہیں وہ بھی اسی راہ میں چلتے ہیں۔سب سے بڑا مسئلہ یہاں پہ آ رہا ہے۔اگر ہم اس مسئلے کو یہی پہ ہی درست کریں تو ایسا ممکن ہی نہیں کہ آگے کوئی غلطی ہو۔

نتیجہ کیا نکلتا ہے جب "انٹرمیڈیٹ" وہ کر لیتے ہیں تو پھر "ڈاکٹر" تو وہ بن نہیں پائیں اور اب ان کو یہ پتہ نہیں ہوتا ہے کہ اب وہ کس راہ کو چنے۔اور پھر ہوتا یہ ہے کہ اس کے بعد وہ اپنے کم سے کم ایک دو سال ضائع کر لیتے ہیں۔اتنے سال ضائع کرنے کے بعد بھی أنہیں یہ سمجھ نہیں آتا ہے کہ اب کہاں جانا ہے،کیسے جانا ہے اور کس کے ذریعے جانا ہے۔ جن کے "میٹرک" میں نمبرز اچھے ہیں ان کا تو حق ہے لیکن جن کے نہیں اچھے نمبرز وہ کیوں۔

ہمارے تعلیم یافتہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے بچوں کی "کیریئر کونسلنگ" کرنی چاہیے۔لیکن سب سے بڑی غلطی ہم یہاں پہ ہی کرتے ہیں۔"کیریئر کونسلنگ" ہمیں اپنے بچوں کی نہیں بلکہ ہمیں أن بچوں کے والدین کی کیریئر کونسلنگ کرنی چاہیے جو اپنے والدین کے فیصلوں پر سر خم کرنے کے علاؤہ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔کیونکہ آپ جب تک أن "والدین" کی "کیریئر کونسلنگ" نہیں کرے گے تب تک ہمارے بچے اس غلطی کو دوراتے ہوئے آئنگے۔

اس غلطی کو دہرانے کی وجہ ان کے اپنے ماں باپ ہونگے۔ یہاں پہ بہت سے لوگ یہ سوچ رہیں ہونگیں کہ والدین اپنے بچوں کے لئے غلط فیصلہ کیسے کر سکتے ہیں۔ اس پر میں بھی اتفاق کرتا ہوں کہ کوئی بھی ماں باپ اپنے بچوں کے لئے کبھی برا فیصلہ کر تو کیا سوچ بھی نہیں سکتے۔لیکن یہ غلطی أن سے اس لئے ہوتی ہے کیونکہ ہو ناواقف ہوتے ہیں دوسرے شعبوں سے۔آپ بچوں کی جتنی بھی "کیریئر کونسلنگ" کریں اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔کیونکہ ہر گھر میں وہی ہوتا ہے جو والدین چاہتے ہیں۔

اس لئے پہلے أن بچوں کے والدین کو یہ شعور دے کہ وہ اپنے بچوں کی صلاحیتوں کو دیکھنے کے بعد ان سے خود کہیں بیٹا تم کیا کرنا چاہتے ہو یا کیسی اچھے سے "کیریئر کونسلر" سے مشورہ لے کے اپنے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرے۔اگر والدین اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرے اور ان کو ڈاکٹرز اور انجینئرز کے علاؤہ دوسرے شعبے منتخب کرنے کی بھی اجازت دیں تو۔پھر یہ دنیا اور یہ لوگ بھی دیکھیں گے اور یہ والدین بھی اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔پھر ہمیں ہر کوئی اپنی اپنی جگہے میں اپنی کامیاب زندگی گزارتے ہوئے نظر آئے گے۔

یاد رہے ہر انسان کی سوچنے کی صلاحیت،کرنے کی صلاحیت،کچھ کرنے کا انداز اور چیزوں کو سمجھنے کا طریقہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتا ہے۔ہماری دلی خواہش یہ ہوتی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہر انسان کو ایک سانچے میں ڈالے لیکن ایسا ممکن ہی نہیں۔پھر اگر ایسا ممکن ہوا تو یہ انسان نہیں بلکہ مشینوں کی ایک دنیا ہوگی۔جہاں پہ ہر مشین ایک جیسا کام کرے گا،ایک جیسا سوچے گا،اور ایک جیسا کرنے کی کوشش کرے گا۔

میں خود کو وہ پہلا انسان سمجھتا ہوں جس نے اس روایت کو توڑ کر ڈاکٹرز اور انجینئرز کے شعبے کو چھوڑ کر پہلا قدم اس راہ پر رکھ دیا ہے۔آئیں اور میرے ساتھ اس قافلے میں شریک ہو جائیں اور اپنی زندگی کو شروع سے سنبھالنا سیکھیں۔ہر سکول ہر کالج،خاص کر کے "اسکول" میں کچھ ایسے طالب علم ہوتے ہیں جو واقعی ڈاکٹرز بننے کے لئے ہی پیدا ہوتے ہیں۔ان کی باتوں سے،ان کے ہر انداز سے درحقیقت آپ کو سکول کے وقت سے ہی پتہ چلتا ہے کون مستقبل میں کہاں ہو گ

ایسے کچھ طالب علم میرے ساتھ بھی تھے۔اور میں بہت فخر محسوس کرتا ہوں کہ وہ طالب علم میرے ساتھ تھے اور ساتھ ہیں۔جن کو دیکھ کر ہم ان کے مستقبل کے بارے میں بتا سکتے تھے۔ایسے لوگ بعد کم ہوتے ہیں یہ سمجھ لے کہ وہ ہوتے ہی ہیں کچھ نایاب لوگ۔اور وہ نایاب لوگ ہم نایاب لوگوں کے ساتھ تھے میں ایسا سمجھتا ہوں۔تو آئیں ایک نئی سوچ اور ایک نیا مقصد سے لوگوں کو آشناس کرائیں۔

فیصلان شفاء اصفہانی

فیصلان شفاء اصفہانی گلگت بلتستان کی تاریخ کے سب سے پہلے کم عمر کالم نگار ہیں جو گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں زیر تعلیم ہیں۔

فیصلان شفاء اصفہانی