تازہ ترین

مشرقی تاریخ و تمدن اور پاندان

mashriqi tareekh o tamaddun aur paandan
  • واضح رہے
  • جولائی 27, 2021
  • 5:04 شام

پاندان کے رواج کا آغاز 2600 قبل مسیح میں ہوا اور یہ ہڑپہ دور میں لکڑی سے بنتے تھے، جبکہ کانسی والے پاندان 500 قبل مسیح برما میں تیار ہوئے

گزشتہ چند دہائیوں میں جہاں نت نئی ایجادات اور اشیائے صرف ہماری معاشرتی و گھریلو زندگی کا لازمہ بنی ہیں، وہیں ایسی بہت سی اشیا کا استعمال بتدریج متروک ہو رہا ہے، جو کبھی مشرقی طرز معاشرت و روایات کا خاصہ سمجھی جاتی تھیں۔ انہی میں پاندان بھی شامل ہے۔

ماضی میں پان خوری محض ایک شغل یا علت نہیں بلکہ گلوریاں بنانے، چبانے اور پیش کرنے کا آرٹ، آدابِ مہمان داری اور وضع داری کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ اس حوالے سے پان کا پٹارہ خاندان کی نانیوں، دادیوں اور دیگر بزرگ خواتین کے لئے ایک چھوٹی سی راجدھانی ہوا کرتا تھا، جس میں صرف پان، چھالیہ، کتھہ، چونا، لونگ، الائچی، مصری اور زردہ (تمباکو) ہی نہیں، احساس ذمہ داری کی طمانیت، بزرگی کا تفاخر اور اپنے وجود کی اہمیت کا اعتماد بھی پنہاں ہوتا تھا۔

برصغیر میں پان خوری ہزاروں برس سے جاری ہے۔ چونکہ اس وقت ”پان شاپس“ کا کوئی تصور نہیں تھا، چنانچہ پان اور اس کے لوازمات کو اسٹور کرنے کے لئے گھروں میں پاندان رکھنے کا اہتمام ہوا کرتا تھا۔ ”لگژے انڈیا“ نامی ویب سائٹ میں درج معلومات کے مطابق، پاندان کے شواہد 2,600 قبل مسیح کی ہڑپہ تہذیب کے آثار میں بھی ملتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اس دور کے پاندان لکڑی کی ڈبیوں کی شکل میں ہوا کرتے تھے۔

دھاتی پاندان بنانے کی ابتدا برما (میانمار) میں 500 قبل مسیح میں ہوئی۔ یانگ او نامی برمی ویب سائٹ کے مطابق، 2500 سال پہلے بدھ بھکشو نزلے، زکام سے بچنے اور منہ کی صفائی کی خاطر پان کی تازہ کونپلیں چبایا کرتے تھے۔ انہی کی دیکھا دیکھی یہ رواج عوام میں بھی پھیل گیا اور یوں پان کی اشیاءکے لئے کانسی کے بنے برمی پاندان وجود میں آئے، جنہیں مقامی زبان میں Kun-it کہا جاتا تھا۔

کانسی کے ابتدائی پاندانوں میں سے ایک، میانمار کے دارالحکومت باگان کے آنندا مندر میں محفوظ ہے۔ یہ عبادت گاہ پاگن خاندان کے بادشاہ KYAN SITTHA نے 1091ء میں تعمیر کرائی تھی۔

mashriqi tareekh o tamaddun aur paandan

واضح رہے کہ اس دور سے اب تک، برما میں چھالیہ کے درخت بکثرت پائے جاتے ہیں اور وہ درخت بھی موجود ہیں جن کی چھال سے کتھہ کشید کیا جاتا ہے۔ تقریباً اسی دور میں برما کی یہ سوغات ہندوستان میں بھی متعارف ہوئی اور وہاں کے راجپوتوں نے اسے اپنا لیا۔

پان میں تمباکو کی آمیزش قدیم ہندوستانیوں ہی نے شروع کی۔ اس سے قبل راجپوت سورما جنگ کے دوران تمباکو کے پتے چبایا کرتے تھے۔ اس سے نہ صرف ان کا جسم گرم رہتا بلکہ ذہن پر ایک سرور بھی طاری ہوجاتا، جس کے اثر سے وہ چھوٹے موٹے زخموں کی تکلیف کو خاطر میں نہ لاتے۔

فیشن ایبلی نامی ویب سائٹ کے مطابق، راجپوتوں کے قدیم پاندان عموماً سونے یا چاندی کے ہوا کرتے تھے۔ پہلی بار انہی ماڈلز میں کتھے، چونے، تمباکو اور چھالیہ وغیرہ کے لئے علیحدہ خانے بنائے گئے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پان میں چونے کا استعمال بھی سب سے پہلے راجپوتوں ہی نے شروع کیا۔

راجپوتی پاندان سونے اور چاندی کے ضرور ہوتے تھے لیکن صناعی کے لحاظ سے قابل ذکر نہیں۔ ان کی شکل روٹی کی ”چنگیر“ نما ہوا کرتی تھی۔ ان میں سے کئی برٹش انڈیا میوزیم میں محفوظ ہیں۔ روایتی نقشین و دیدہ زیب پاندانوں کا رواج برصغیر میں مغل دور سے شروع ہوا۔

مغل چوں کہ راجپوتوں سے خصوصی مراسم رکھتے تھے اس لئے وہ بھی پان کی لذت کے اسیر ہوگئے۔ مغلوں کے ذوقِ سلیم کی بدولت جہاں پاندان کو نئی ہیئت ملی، وہیں پان خوری کے آداب بھی تبدیل ہوئے۔ پان کے لوازمات میں لونگ، الائچی، سونف اور مصری بھی شامل ہوگئے۔ اس کے علاوہ چھالیہ کترنے کے لئے ”سروتہ“ اور پیک تھوکنے کے لئے ”اگال دان“ بھی مغلوں ہی کی ”ایجاد“ تسلیم کی جاتی ہے۔

ویب سائٹ کے مطابق، 17 ویں صدی تک پاندان برصغیر کے مسلم گھرانوں کا تہذیبی حصہ بن چکا تھا۔ نوابین اور امرأ ایک دوسرے کو تحفے میں دیتے، دلہنوں کو جہیز میں دیا جاتا اور ظروف سازی کی صنعت میں بھی پاندان کو خصوصی درجہ حاصل ہوگیا۔ اسی دور میں میسور کے مہاراجہ نے سونے سے بنا ایک پاندان ویلز کے شہزادے کو تحفے میں دیا جو آج بھی برٹش انڈیا میوزیم میں محفوظ ہے۔

19 ویں صدی کے آغاز میں برصغیر کے کئی بڑے شہروں میں پان کی دکانیں بھی کھلنے لگیں۔ دلی، لکھنو ¿، حیدرآباد (دکن)، مراد آباد، کان پور، بنارس، کلکتہ اور رام پور کے بازاروں میں سجے بنے پنواڑی تازہ بہ تازہ گلوریاں فروخت کرنے لگے۔ تاہم اس دور کے شرفا میں ”بازاری پان“ کھانا سخت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ان کے نزدیک بازار کا پان کھانے والا یا تو غریب الدیار مسافر ہے یا پھر اس کا گھرانہ خاندانی وجاہت سے محروم ہے، جہاں پاندان رکھنے کا اہتمام میسر نہیں۔

ہندوستان میں اس کا قدیم نام ”پٹارہ“ یا ”پٹاری“ تھا۔ چوں کہ یہ رواج سب سے پہلے راجستھان و مارواڑ کی راجپوت ریاستوں میں رائج ہوا تھا اور وہیں اسے یہ نام عطا کیا گیا۔ اسی وجہ سے اس خطے سے تعلق رکھنے والے باشندے چاہے وہ ہندو ہوں یا مسلم، ان میں پاندان کو آج بھی پٹاری ہی کہا جاتا ہے۔

لفظ ”پاندان“ مغلوں کا رائج کردہ ہے۔ لفظ ”دان“ فارسی میں کسی بھی چیز یا علم کو محفوظ یا نصب رکھنے والی اشیاءیا افراد کے لئے مستعمل ہے۔ مثلاً، اگر دان، شمع دان، گل دان، تاریخ دان اور نفسیات دان وغیرہ۔ چناچہ مغلوں کی براہ راست عمل داری میں شامل شہروں اور دیگر مسلم ریاستوں میں ”پٹاری“ کی جگہ لفظ ”پاندان“ رائج ہوگیا۔

پاندان نے تقسیم ہند کے بعد بھی 60ء کی دہائی تک اپنا معاشرتی وجود کامیابی سے برقرار رکھا، خصوصاً ان گھرانوں میں جو ہندوستان کے مسلم اکثریتی علاقوں سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ اس روایت پر زوال آتا چلا گیا۔

اس بارے میں ماہر سماجیات عبدالعلیم نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ روایتی مشترکہ خاندانی نظام کا زوال اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ کسی دور میں بڑے حویلی نما گھر ہوا کرتے تھے، جہاں کئی فیملیز اکٹھی رہا کرتی تھیں۔ وہاں بزرگ خواتین کا ہاتھ بٹانے کے لئے درجنوں بچے، بچیاں موجود ہوا کرتے تھے۔ لہٰذا پاندان سے متعلقہ انتظامات میں کوئی مشکل نہیں ہوا کرتی تھی۔

کتھہ، چونا تیار کرنا، روزانہ تازہ پان خریدنا، چھالیہ کترنا، سونف بھوننا، کٹوریوں کی روزانہ صفائی اور گاہے گاہے قلعی، یہ باقاعدہ ایک دقت طلب کام ہے۔ لہٰذا بڑھتی ہوئی آبادی اور رہائشی سہولیات میں کمی کی وجہ سے جوں جوں جوائنٹ فیملی سسٹم ختم ہوا، بہت سی تہذیبی اقدار پر زوال آیا۔

پاندان بھی انہی متاثرہ روایت میں سے ایک ہے۔ اس کے علاوہ شہر میں جا بہ جا کھلنے والی پان شاپس بھی اس رواج کے خاتمے کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ واضح رہے کہ پان کھانے والوں کی تعداد میں کبھی کمی نہیں آئی بلکہ اضافہ ہی ہوا ہے۔ لیکن پان خوری کے ڈھنگ البتہ بدل گئے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے