تازہ ترین

کوہِ نورکی دلچسپ کہانی تاریخ کی زبانی

koh i noor ki dilchasp kahani tareekh ki zubani
  • واضح رہے
  • جون 18, 2021
  • 6:02 شام

بیش قیمت ہیرا درجن بھر سے زائد بادشاہوں کے دربار کی زینت رہا ہے اور اب بھی اس کی ملکیت کے دعویدار کم نہیں ہوئے ہیں

حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ یہ بیش قیمت ہیرا جو کہ اِس وقت حکومت برطانیہ کے پاس ہے ہمارا ہے۔ کیونکہ یہ شاہ شجاع سے چھینا گیا تھا، حکومت بھارت کا دعویٰ ہے یہ ہیرا بھارت کا ہے کیونکہ یہ تین ہزار سال سے پہلے مہا بھارت کے ایک ہیرو کاماکی ملکیت تھا۔

علاؤالدین خلجی بن جلال الدین خلجی سے پہلے کی تاریخ کوہ نور غیر مصدقہ ہے، تاہم یہ ہیرا تاریخ کی روشنی میں اُس وقت آیا جب کہیں سے مَلک کافور کے ہاتھ لگا اور اس نے بادشاہ علاؤالدین خلجی (عہد حکومت 1295ء تا 1315ء) کی نذرکیا، اُس وقت یہ ہیرا بالکل نا تراشیدہ حالت میں تھا۔

خلیجی خاندان کے بعد یہ ہیرا تغلق خاندان (اس کا پہلا بادشاہ غیاث الدین بلبن تھا) اور پھر لودھی خاندان (اسکا پہلا بادشاہ علاؤالدین بہلول تھا) یہ نہایت عقلمند اور شائستہ مزاج بادشاہ تھا، اُس نے 26 سال ہندوستان پر حکومت کی) میں پہنچا۔

جب بابر نے ابراھیم لودھی کو شکست دی تو ابراھیم لودھی کی ماںنے یہ ہیرا ہمایوں کی نذرکیا، ہمایوں نے اپنے باپ بابر کی خدمت میں پیش کیا۔

1739ء میں نادر شاہ نے ہندوستان پر چڑھائی کی اور تخت طاؤس اپنے ہمراہ ایران لے گیا۔ نادر شاہ کی وفات پر یہ ہیرا اُس کے بھتیجے علی قلی خان کے ہاتھ لگا۔ اس کے بعد اس کے جانشین شاہ رخ کے ہاتھ میں آیا، 1751ء میں شاہ رخ نے یہ ہیرا احمد شاہ ابدالی کی خدمت میں پیش کیا جو اسے لے کر کابل چلا گیا۔ جہاں کچھ عرصے تک یہ ہیرا اُس کے خاندان میں رہا۔

 

koh i noor ki dilchasp kahani tareekh ki zubani

احمد شاہ ابدالی کی وفات کے بعد یہ ہیرا اُس کے جانشینوں، تیمور شاہ زمان اور شاہ محمود کے ہاتھ میں ہوتا ہوا شاہ شجاع تک پہنچا۔ کابل میں خانہ جنگیاں شروع ہونے کے بعد مارچ 1813ء میں شاہ شجاع پنجاب چلا آیا اور لدھیانہ میں قیام کیا۔

رنجیت سنگھ نے اس ہیرے کی خاطر اس کی بہت خاطر مدارت کی اور اسے ہیرے کے عوض تین لاکھ روپے نقد اور پچاس ہزار روپے سالانہ جاگیر اور کابل کا تخت وتاج واپس دلانے کیلئے فوجی امداد کی بھی پیش کش کی، لیکن شاہ شجاع نہیں مانا، تب رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع پر کڑی پابندی لگا دی۔

اسے معلوم ہو گیا کہ ہیرا شاہ شجاع ہمیشہ اپنی پگڑی کے اندر چھپا کر رکھتا ہے تواس نے بہانہ سازی سے شاہ شجاع کو اپنا پگڑی بدل بھائی بنالیا اور یوں دھوکہ ومکاری سے یہ ہیرا رنجیت سنگھ (یہ پہلا سکھ حکمران 13 نومبر 1780ء کو پیدا ہوا، اس کے باپ کا نام سردار مہان سنگھ تھا) کے قبضے میں چلا گیا۔ رنجیت سنگھ کی وفات پر یہ ہیرا اُس کے جانشین کھڑک سنگھ، نونہال سنگھ، مائی جندر کور اور شیر سنگھ کے ہاتھوں ہوتا ہوا دلیپ سنگھ تک پہنچا۔

1850ء میں جب انگریزوں نے دلیپ سنگھ کو معزول کیا تو مال واسباب کی ضبطی میں یہ ہیرا بھی اُن کے ہاتھ لگا، سرجان لارنس نے جو بعدازاں پنجاب کا پہلا چیف کمشنر بنا یہ ہیرا گورنر جنرل ڈلہوزی کو بھجوا دیا، پھر لارڈ ڈلہوزی نے ملکہ وکٹوریہ کی نزر کرنے کی غرض سے انگلستان بھجوا دیا۔

1850ء میں یہ قیمتی ہیرا عوامی نمائش کیلئے لندن میں رکھا گیا، 1851ء میں اس ہیرے کو دوبارہ تراشا گیا۔ 38 دنوں کی تراش خراش کے بعد اس کا وزن 279 قیراط (درہم کے بارھویں حصے کے برابر ایک وزن) سے گھٹ کر 100 قیراط رہ گیا، جس کے بعد یہ ہیرا ملکہ وکٹوریہ کے تاج کی زینت بنادیا گیا۔

1911ء میں جب جارج پنجم نے دہلی میں دربار سجایا تو یہ ہیرا اُس کے تاج میں موجود تھا۔ کوہ نور کے بقیہ دو حصے، کوہ طور اور دریائے نور اِس وقت روس اور ایران کے شاہی خزانوں میں ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے