تازہ ترین

خانہ کعبہ کی کلید (چابی)

khana kaaba ki kaleed
  • واضح رہے
  • مئی 4, 2021
  • 6:47 شام

مسلمانوں کیلئے خانہ کعبہ کا دیدار، گنبد خضریٰ میں حاضری اور حرم میں عبادت بہت بڑی سعادت ہے۔ اللہ کے گھر کی چابی کے حوالے سے خصوصی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

ظہور اسلام سے ہی خانہ کعبہ کی کلید انتہائی اہمیت کی حامل اور قابل تعظیم و تکریم رہی ہے۔ فتح مکہ سے قبل اس کلید کی ذمہ داری حضرت عثمانؓ بن طلحہ کو سونپی گئی تھی جو صحابیِ رسولؐ تھے۔ ان کا تعلق شیبی قبیلہ سے تھا اور حضورؐ نے مکہ فتح کرنے کے بعد بھی ان کو خانہ کعبہ کی کلید کا محافظ بنا دیا تھا۔

حضرت عثمانؓ کے بعد شیخ عبد القادر طحہ اس کے 108ویں محافظ منتخب ہوئے تھے۔ آج بھی نسل در نسل اسی قبیلہ کے افراد کلید خانہ کعبہ کے محافظ ہیں اور رسولؐ کی ہدایت یا وصیت کے مطابق ہمیشہ اسی قبیلہ کے پاس کلید خانہ کعبہ رہے گی اور اس کی حفاظت کرنا بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھنے والے اشخاص کی ذمہ داری ہوگی۔ تقریباً پندرہ سو سال سے نسل در نسل یہ روایت جاری ہے، کیونکہ رسولؐ کا یہی فرمان ہے۔

زمانہ قدیم میں خانہ کعبہ کی کلید کے پراسرار طریقہ سے غائب ہونے سے اہل عرب میں مایوسی طاری ہوگئی تھی۔ اس عقدہ کا انکشاف اس وقت ہوا جب جب عباسی دور اقتدار میں 12ویں صدی قدیم کلید خانہ کعبہ کو لندن کے Sothey’s نے 9 اپریل 2008ء میں کسی نامعلوم شخص کو 9.2 ملین پاؤنڈ یعنی 18.1 ملین ڈالر میں فروخت کردیا تھا۔ لوہے سے بنی ہوئی 7 سینٹی میٹر لمبی یہ کلید ابھی تک نجی ہاتھوں میں ہونے کی اولین مثال ہے۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹر کے مطابق خانہ کعبہ کی کلیدوں کی تعداد 58 ریکارڈ کی گئی تھی، جو کہ میوزیم کا افتخار ہیں۔ ان میں استنبول میں واقع ٹوپ کاپی پیلس میوزیم میں 54، نہاد السعید کلیکشن میں 2، پیرس کے لوور میں ایک اور قاہرہ کے اسلامک آرٹ میوزیم میں آج بھی محفوظ ہیں۔

سعودی عرب میں دونوں مقدس مساجد کی نوادرات مکہ معظمہ کے پُرسکون ام الجود پہاڑی علاقے میں نمائش کیلئے رکھی گئی تھیں، وہیں پر 1309 ہجری (1892ء) میں تیار کردہ خانہ کعبہ کا تالا اور چابی (کلید) بھی رکھے گئے تھے جن کو عثمانی سلطنت عبدالحمید دوئم کے دور اقتدار سے منسوب کیا جاتا ہے۔ اس نمائش میں بیک وقت مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے بیش قیمت نوادرات بھی رکھے گئے تھے اور ان میں وہ نوادرات بھی شامل تھے، جن کو 10ویں صدی ہجری سے منسوب کیا جاتا ہے۔

سعودی تاریخ داں ھانی فیروزی نے اس امر پر تعجب کا اظہار کیا تھا کہ خانہ کعبہ کی کلید کو کس طرح چُرایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے مملکت کے حکام سے اپیل کی تھی کہ اس حوالے سے تحقیقات کرائی جائیں، کیونکہ اگر کلید کو اسمگل کیا جا سکتا ہے تو دیگر نوادرات کے اصل ہونے پر بھی شبہ رہے گا۔

سعودی مصنف انتصار العقیل کا کہنا تھا کہ خانہ کعبہ کی کلیدوں کا مناسب طریقوں سے ریکارڈ رکھنا چاہیئے تاکہ کسی بھی طرح کی اونچ نیچ ہونے کی صورت میں فوراً اس کا پتا لگایا جاسکے اور دولت مند مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اصل مقام تک انہیں واپس لائیں۔

حال ہی میں خانہ کعبہ کی 13ویں صدی کی دو کلیدیں جو کہ دھات کی چھڑوں سے بنائی گئی تھیں اور ان کی چاندی سے تزئین کاری کی گئی تھی انہیں واشنگٹن میں Smithsomian انسٹی ٹیوٹ کے آرتھرا ایم سیکلر گیلری نے نمائش میں رکھا تھا۔ ان میں سے ایک کلید مرحوم نہاد السعید جو کہ لبنان کے ایک تاجر تھے، کے کلیکشن سے لی گئی تھی۔ یہ کلیدیں تقریباً 800 سال قبل مملوک دور اقتدار میں فراہم کی گئی تھیں۔

مذکورہ دونوں کلیدوں کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ یہ مکہ معظمہ میں ہی تیار کی گئی تھیں اور ان پر قرآن مقدس کی آیات کنندہ کی گئی تھیں، جن کا مفہوم کچھ اس طرح ہے:

’’اولین عبادت خانہ۔ لوگوں کیلئے مختص کیا گیا۔ جو کہ بقا، نعمتوں اور برکتوں سے بھرپور۔ اور رہنمائی کرنے والا۔ تمام بنی نوع انسان کیلئے۔ اس میں نشانیاں ہیں۔ اظہار (مثال کے طور پر) ہے۔ مقام ابراہیم۔ جو کوئی بھی اس میں داخل ہوگا۔ اسے تحفظ ملے گا۔ یہاں کی زیارت کرنا فرض ہے۔ انسان خدا کے تابع ہے۔ جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں۔ ان پر سفر حج۔۔۔۔ (سورۃ 3 آیت 96-97) نقش تھا۔

نہاد السعید کا کہنا ہے کہ دھاتوں سے تیار کئے گئے اسلامی فن پاروں کا کلیکشن نجی ہاتھوں میں بہترین طریقے سے محفوظ ہے۔ 27 چیزیں جن پر سونے، چاندی، تانبے، کانسہ، اسٹیل اور پیتل سے جڑاؤ دار کام کیا گیا ہے مختلف ادوار میں موصل، شام، سلجوک، اناتولیہ، مملوک سلطنت، دہلی سلطنت، تیموری اور صفاوی ایران سے منسوب کیا جاتا ہے۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب و تمدن اور ثقافت سے وابستہ نوادرات اور فن پارے ہر دور میں کشش کا موضوع بنے رہے۔ مسلمان کاریگروں نے اپنے ہنر کا ایسا کمال دکھایا کہ جس سے مغربی ممالک آج بھی فیض یاب ہو رہے ہیں۔ وہ اسلامی اقتدار اور اختراعات سے از حد متاثر ہوگئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کسی بھی قدیم فن پارہ کو حاصل کرنے کی جستجو کرتے رہتے ہیں۔ ایک گمنام شخص کے ذریعے خانہ کعبہ کی کلید کا حصول بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے