تازہ ترین

کالا ہے مگر بڑے کام والا ہے

kala hai magar barre kam wala hai
  • واضح رہے
  • جون 11, 2021
  • 10:15 شام

کوئلہ نے انسانی ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ تہذیب کے ارتقائی ادوار میں تو اس کی اہمیت کئی لحاظ سے دوچند رہی

خصوصاً توانائی کے حصول اور استعمال کے حوالے سے کوئلہ نے صنعتی سیکٹر میں انقلاب بپا کیا۔ اس وسیلہ کی دریافت اٹھارویں صدی میں ہوئی اور اس وقت سے لے کر آج تک کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرا ہوگا جب انسان نے اس کو کسی نہ کسی صورت میں استعمال نہ کیا ہو۔

انیسویں صدی میں ‘‘معلم ارضیات’’ نے کوئلہ کے کئی نمونوں سے زمین پر زندگی کے اولین آثار والے (تقریباً ایک ارب سال پہلے) پودے ‘‘سبز  رنگ کی کائی’’ کی خفیف چھاپ اور دیگر اشیا مثلاً لکڑی کے تبدیل شدہ ٹکڑے، فورامینی فیرا کے خول، کیڑوں کے پر، گھاس اور پودوں کی جڑوں کے نقوش کی موجودگی کا باقاعدہ انکشاف کیا۔

محققین نے اپنے معالعے اور مشاہدے کو مزید وسعت دی اور حقیقت کے قریب پہنچنے کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کردیا، جس سے یہ معلوم ہوا کہ کوئلے کی تشکیل زیر زمین جاندار مادّی اشیا کے محفوظ باقیات (رکاز) سے ہوئی ہے جن کے جسم کی اجزائے ترکیبی میں ایسے مرکبات پائے گئے ہیں، جو لحمیات، کاربو ہائیڈریٹس اور روغنیات پر مشتمل ہوتے ہیں۔

تجربہ خانوں میں ایسے جاندار اشیا کی تحلیل سے 280 ڈگری سینٹی گریڈ پر کاربو ہائیڈریٹس حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کیمیائی اعتبار سے اسے ‘‘ہائیڈرو کاربن’’ مرکبات کہا جاتا ہے۔ جس سے مراد وہ تمام جاندار مادّی اشیا جس میں کاربن اکثریت اور ہائیڈروجن اقلیت سے موجود ہو جبکہ نائٹروجن، سلفر اور آکسیجن کی معمولی مقدار میں پائے جاتے ہوں۔

سطح زمین پر بننے والے اس قسم کے مواد کا اہم ترین ماخذ ‘‘ہیومس’’ ہوتے ہیں، جس سے مراد جاندار اشیا تراب (soil) ملی۔ اس میں ‘‘ہیومک ایسڈ’’ (کاربن، ہائیڈروجن، آکسیجن) شامل ہوتی ہے۔ ساتھ ہی ‘‘پروٹین’’ کی موجودگی بھی ہوتی ہے۔ یہ وہ جاندار جسم کے اشیا ہوتے ہیں جن کو تحلیل کے عملیہ سے گزارا جائے تو پانی میں حل پذیر مواد مہیا کرتی ہیں۔ اس قسم کے مادّے کثیر تعداد میں ان تراب میں پائے جاتے ہیں جو گلی سڑی اور تحلیل شدہ نباتات سے بھری ہوئی ہوں۔

اسی وجہ سے اس کی بڑی مقدار ‘‘دارلی’’ علاقوں اور ‘‘ٹراپیکل’’ خطوں میں مسلسل بنتے رہتے ہیں اور پھر محلول کی صورت میں سمندروں یا بحروں میں منسلک ہوجاتے ہیں۔ سمندری ماحول اور دریاؤں کے پانی کے باہم ملتے ہی حل شدہ مواد چٹانی رسوب میں مرکوز ہوکر کوئلے کیلئے خام اشیا مہیا کرتی ہیں۔

چنانچہ 1863 اور 1932 کے دوران اس وسیلہ کے حوالے سے ایک عالمگیر نظریے نے جنم لیا جسے علما سائنس نے متفقہ طور پر‘‘نامیاتی نظریے’’ کے نام سے دنیا بھر میں نہ صرف تعارف کروایا بلکہ اس کی بھرپور حمایت بھی کی۔

اس نظریے کے مطابق کوئلہ بننے کیلے جو خام اشیا ہوتی ہیں اس میں نباتاتی یا حیوانی یا پھر دونوں زندگیاں شامل ہوتی ہیں، لیکن کوئلے کے حوالے سے نباتاتی زندگی کو فوقیت حاصل ہے، کیونکہ 1934 کے عشرے میں جب کوئلے کے مختلف ذخائر سے تقریباً ایک سو حاصل کردہ نمونوں کا خوردبینی مطالعہ کیا گیا تو اس میں نباتاتی خوربینی اجزا مثلاً: ویٹرینائیٹ (vitrinite)، انٹرٹینائٹ (intertinite)، ایکسنائیٹ (EXinte)، پولن گرین اور سیلولوز (cellulose) کی موجودگی نے کوئلے کی نباتاتی ذرائع کو جلا بخشی۔

اس کے علاوہ ان باقیات میں موجود سبز رنگ کے مادّے (کلوروفل) سے حاصل ہونے والا نائیٹروجینی اجزا پورفائیرن (porphrine) بھی شامل پائے گئے۔ مجموعی طور پر تمام قدیم نباتاتی باقیات کے مطالعے اور تجزیہ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ کروڑ سال پہلے تشکیل پانے والے یہ نامیاتی باقیات ایک منظم قدرتی میکنزم کی عکاسی کرتے ہیں، جس کی بنیاد پر دور حاضر کے علما طبیعیات نے کوئلہ بننے کے دوران سائنسی حقیقت کا بھی سراغ لگایا جسے حرکیات (thermodynamics) کا قانون کہتے ہیں۔

اس قانون کی رو سے توانائی کو بقائے دوام حاصل ہے۔ یعنی توانائی کو تخلیق کرسکتے ہیں نہ ہی فنا، البتہ اسے ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ پھر یہ کہ جب توانائی تبدیل ہوتی ہے تو اس کا کچھ حصہ ہمسایہ ماحول میں بادلوں کی طرح منتشر ہوکر جذب ہوجاتا ہے۔ یہ ضائع شدہ حرارت (Desiccated) کہلاتی ہے۔ واضح رہے کہ بری و بحری نباتات میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ پانی میں حل پذیز ہوکر غیر نامیاتی مرکبات سے ضیائی تالیف (photosynthese) کے عمل سے پیچیدہ نامیاتی مرکبات تیار کرتی ہیں۔ اس عمل کے دوران پودوں میں موجود مادّے سورج کی روشنی سے انرجی حاصل کرکے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کی موجودگی میں نامیاتی مرکبات مثلاً سیلولوز اور آکسیجن تیار کرتے ہیں جبکہ آکسیجن نباتاتی ‘‘عمل تنفس’’ میں استعمال ہوجاتا ہے۔

فضائی کاربن ڈائی آکسائیڈ اور ترابی پائی سورج کی روشنی سیلولوز و دیگر نباتاتی ٹیشوز میں سورج سے حاصل شدہ توانائی پیچیدہ نامیاتی مرکبات میں محفوظ ہوکر نباتاتی افزائش کو ممکن بناتے ہیں۔ ‘‘ارضیاتی وقت’’ کے حوالے سے آج سے تقریباً تیس کروڑ سال پہلے دنیا کے گرم اور دلدلی ساحلی زمین میں جب ہر طرف قدیم کائی، اونچے اونچے درخت اور پودے اُگ آئے اور جنگل کے جنگل سر سبزو شاداب تو ہوگئے، لیکن جلد ہی آب و ہوا کی تبدیلی اور موسمی اثرات کے زیر اثر مرجھا کر زمین بوس ہوگئے۔ اسی طرح ہزاروں سال بیت گئے، لیکن وہ گل سڑ کر فنا ہونے کے بجائے وراثت میں ملی مفید شمسی توانائی کے زیر اثر (جو محض 2 فیصد ہوتی ہے) محفوظ باقیات میں تبدیل کرنے کیلئے کافی ہوتی ہے۔

چنانچہ یہ توانائی بہتر طور پر نباتاتی سالماتی بونڈز (Molecular bonds) میں جذب ہوکر کاربن اور ہائیڈروجن کو زندگی فراہم کرنے والے سیلولوز اور خلیوں کے سلسلوں (Tissues) کو آپس میں متحرک کرتے ہیں اور پیچیدہ نامیاتی مرکبات کو سادہ حالت میں تبدیل کرتے ہیں، لیکن اس کیلئے ضروری ہے کہ مردہ نباتاتی باقیات ساکن اور کم آکسیجن والے پانی کے اطرف ہوں۔ ان صورت حال میں مقید شمسی توانائی زندگی کو برقرار رکھنے والی خلیوں کے ذریعہ ہیجان پیدا کرنے (Stimulate) والے محرک کو جنم دے سکے۔

یہ تعامل اندرون خلقی تعاملات (Endogenous) کہلاتی ہے۔ یہ عمل 50۔ 70 ڈگری سینٹی گریڈ، دباؤ یا گہرائی 1۔ 2 کلو میٹر اور حیاتی کیمیائی (بیکٹیریا) سرگرمیوں کے نتیجے میں ہائیڈرو کاربن باقیات کی تشکیل کرتے ہیں جو پانی میں حل ہوکر اور چٹانوں میں مرکوز ہوکر کوئلہ بننے کیلئے ثانوی ماخذ مواد مہیا کرتے (ہیومس کی تبدیلی سے) ہیں۔ جسے کیروجن (نامیاتی اشیا سے زرخیز) کہتے ہیں۔ یہ ماخذ مواد کوئلے کی تخلیقی ماحول کی مناسبت سے بڑی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ براہ راست اس ماحول کی نمائندگی کرتا ہے، جس میں اس وسیلے کی تخلیق ہوئی ہے جو ’’عبوری رسوبی ماحول‘‘ کہلاتا ہے۔

یہ ایسے علاقے ہوتے ہیں جو خشکی اور سمندر (بری و بحری) کے ماحول سے پیوست ہوتے ہیں جوزمین پر واقع ایک ایسی اکائی ہوتی ہے، جس میں موجود طبعی کیمیائی اور حیاتی عوامل ایک خاص مدت تک اس طرح یکساں رہیں کہ نتیجہ میں ایک مخصوص نوعیت کا رسوب تشکیل پاسکے۔ مثلاً: ڈیلٹائی ماحول یا ڈیلٹائی طاس جدید تحقیق اور دریافت سے یہ اندازہ ہوگیا ہےکہ قدیم زمانے میں (اور آج بھی) ڈیلٹائی خطے یا بیسن میں نامیاتی اشیا کی کثرت ہوتی ہے جبکہ جدید اور قدیم قسم کی چٹانوں میں مختلف قسم کے نامیاتی پائے جاتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ دورکے بعض ڈیلٹائی طاس گلف آف میکسیکو، کیلفیورنیا طاس، پر شہن گلف کیپین بحریہ ، گنگا ڈیلٹا، دریائے نیل طاس اور سندھ ڈیلٹا طاس ان حالات کی عکاسی کرتے ہیں جن حالات کے زیر اثر ’’ماضی‘‘ میں کوئلے کی تخلیقی ممکن ہوتی تھی۔

ماہرین ارضیات کے نزدیک اس کی تین وجوہات ہیں یعنی نامیاتی مواد کی اکثریت (پیداواریت) سست عمل دھنسائو (Subsidence) اور تہہ نشینی اور آکسیجن کی سپلائی میں خلل پیداواریت کا انحصار غذائی ترسیل پرہوتا ہے اور غذائیت خاص طور پر نائیٹریٹس اور فاسفیٹ مہیا کرتے ہیں اور برقرار بھی رکھتے ہیں جو اسوبی ماحول کے بغیر ممکن نہیں، کیوں کہ ان علاقوں میں بڑے اور کئی دریا سمندر سے ملتے ہیں۔ یہ ابتدائی طور پر آب وہوا کے ماتحت ہوتی ہیں ۔خشکی کے نباتاتی اشیا جھیل یا دلدلی طاس میں مرکوز ہوتے ہیں۔ سمندر میںضیائی تالیفی ابتدائی نامیاتی کاربن کا پروڈیوسر ہے اور اسی سے پیچیدہ خوراک چین کی ابتدا ہوتی ہے۔

اسوبی عبوری ماحول بری و بحری نباتات کی افزائش کے لئے کارگر ثابت ہوتی ہے لیکن ایسا ہونے کے لئے مردہ نباتاتی مادّے کی تہہ نشینی کی شرح اور عمل دھنسائوکی شرح میں توازن ہونا ضروری ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ سست دھنسائو اور سست تہہ نشیبی کا عمل جاری رہے، تاکہ نامیاتی باقیاتی مواد اپنے دورانیے سے گزر کر منطقی مراحل پورا کرے اور کیمیائی طور پر ایک پختہ نامیاتی باقیات وجود میں آئے۔ پختہ مواد معاشی نقطہ نظر سے سود مند ثابت ہوتا ہے۔ لیکن اس کے لئے ضروری ہے کہ نامیاتی مادّوں کے اطراف تحقیقی ماحول(Reducing Environment)  پیدا ہوجائے ایسا تب ہوتا ہے جب ماخذ مواد کے اوپر مسلسل تہہ نشینی کا عمل جاری رہے۔

اس صورت حال میں ’’ حیاتی کیمیائی‘‘ عمل کی وجہ سے قسم کے تعمیری بیکٹیریا پروان چڑھتے ہیں جو تحقیقی بیکٹیر(Anarobic Bacteria)  کہلاتے ہیں۔ ان کی نشوونما اور افزئش میں فروغ آکسیجن کی غیر موجودگی میں ہوتی ہے۔ یہ باقیات میں عمل دوہرازئی کے دوران ایک اہم تحقیقی عامل بن جاتے ہیں۔ کیمیائی پلانٹ میں یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ تحقیقی ماحول پیدا کرنے کے بعد خمیری عمل(Fermentation) کے نتیجے میں نامیاتی باقیات سے ہائیڈروکاربن تیار ہوجاتی ہے۔

چنانچہ لاکھوں سال قبل نباتاتی مادّے بڑے بڑے انبار کی صورت مین دلدلی ماحول میں گرے، وہیں گلے سڑے اور پھر گاد اور گاروں سے ڈھک گئے۔رفتہ رفتہ بیکٹیریا کے خمیری عمل سے گزر کر سار اموادنیم ٹھوس حالت میں بھربھری چٹان میں تبدیل ہوگئی، جس میں موجود نباتاتی جڑیںاور بیج واضح طور پر نظر آتے ہیں، جس سے کوئلے کی ابتدائی قسم سامنے آتی ہے۔ یہ ایک مکمل کوئلہ تو نہیں ہوتا البتہ اسے پری کول (pre coal)  تصور کیا جاتا ہے جسے کوئلے کے حوالے سے پیٹ(Peat)  کہتے ہیں۔ ساتھ ہی زیرزمین درجہ حرارت (80-130 ڈگری سینٹی گریڈ) اور گہرائی (دبائو) میں اضافے سے بالترتیب بھورے رنگ کاکوئلہ لیگنا ئیٹ، بیچومینس کوئلہ اور اینتھراسائیٹ تشکیل پاتا ہے جو ایندھن کے حوالے سے ایک ٹھوس معیاری کوئلہ ہے۔

جب اس میں سے طیران پذیر اشیا  (volatile material) پانی اور دیگر غیر حرارتی اجزا الگ ہو جاتے ہیں اور صرف خالص کاربن رہ جاتا ہے یہ گریفائیٹ (Graphite) ہے۔ جسے پینسل کی صنعت میں بکثرت استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ مجموعی طور پر کوئلے سےکول تار (Coal tar) اور کول گیس(Coal gas)  حاصل کرتے ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے