تازہ ترین

ایرانی بلوچستان کو 4 حصوں میں تقسیم کرنے کی تیاری

irani balochistan ko 4 hisson main taqseem kerne ki tayyari
  • واضح رہے
  • نومبر 23, 2020
  • 10:48 شام

سرحدی صوبے میں بسنے والی بلوچ قوم کے وسائل پر قبضہ جمانا اور انہیں گنی چُنی مراعات سے بھی محروم کرنا تہران کی دیرینہ خواہش ہے

زاھدان: ایرانی حکومت نے سیستان و بلوچستان صوبے کو چار حصوں میں تقسیم کرنے کا منصوبہ تیار کیا ہے، جس کے بلوچستان، سیستان، مکران اور سرحد نامی چار صوبے وجود میں آجائیں گے۔ ایران کی اسلامی مشاورتی کونسل کے ایک رکن سید محسن دہنوی نے گزشتہ ہفتے یہ منصوبہ پیش کیا۔ بلوچ قوم کا استدلال ہے کہ اس منصوبے کا مقصد انہیں الگ تھلگ کرنا ہے۔

ایران کی قومی اسمبلی ’’مجلسِ شورائے اسلامی‘‘ میں بلوچستان اور سیستان صوبوں کے دو دو، جبکہ مکران اور سرحد کا ایک ایک نمائندہ شامل ہوگا۔ صوبہ بلوچستان۔۔۔۔۔۔۔ ایران (دارالحکومت)، سراوان، مہرستان اور دلگان شہروں پر مشتمل ہوگا، جس کی آبادی 6 لاکھ ہے۔ صوبہ سیستان۔۔۔۔۔۔۔ زابل (دارالحکومت)، زہک، ہلمند، ہیمون اور نیمروز شہروں پر مشتمل ہوگا اور اس کی آبادی بھی 6 لاکھ بتائی گئی ہے۔ صوبہ سرحد میں زاہدان (دارالحکومت)، خاش اور میرجاوہ شہر ہوں گے اور اس کی آبادی 10 لاکھ ہوگی۔ جبکہ صوبہ مکرانَ۔۔۔۔۔۔۔۔ چابہار (دارالحکومت)، کنارک، نیک شہر، سرباز، قصر گند اور فنوج پر مشتمل ہوگا، جس کی آبادی 6 لاکھ ہوگی۔

برطانوی اخبار ’’انڈپنڈنٹ‘‘ سے گفتگو میں ایرانی سیستان و بلوچستان صوبے کے رہائشی امیر علی نے بتایا کہ جب ایران میں احمدی نژاد صدر تھے اس وقت بھی یہ بات ہوئی تھی، لیکن بلوچ قوم کے نمائندوں کے اعتراض کے بعد مرکزی شوریٰ نے اس پر عمل درآمد روک دیا تھا۔ بظاہر لگتا ہے کہ ایران میں مقیم بلوچ اور ان کے ساتھ آباد شیعہ آبادی کو الگ کیا جائے۔ موجودہ صورت میں شیعہ کے ساتھ سنیوں کو بھی مراعات مل جاتی ہیں، اس فیصلے کے بعد ایسا نہیں ہو گا۔ مقامی باشندے سمجھتے ہیں کہ رقبے کو کم کرنے سے فنڈز بھی کم ہو جائیں گے اور اس علاقے کو چار حصوں میں تقسیم کر کے اس کی طاقت کو کم کرنا ہے۔

واضح رہے کہ ایرانی بلوچستان میں مقیم باشندوں کی اکثریت تیل کے کاروبار سے منسلک ہیں جو پاکستانی بلوچستان کے راستے سپلائی ہوتا ہے۔ مقامی باشندوں کے مطابق ایرانی بلوچستان میں ذریعہ تعلیم فارسی ہے اور کوئی بھی بلوچ قومی سطح کے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔

واضح رہے کہ ایرانی سیستان بلوچستان اور پاکستانی بلوچستان میں اکثر آبادی ایک دوسرے کے ساتھ صدیوں سے جڑی ہے اور ان کی آپس میں رشتہ داریاں بھی ہیں۔ ایرانی بلوچستان پر میں تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے دانشور سمجھتے ہیں کہ حالیہ تقسیم کا فیصلہ بلوچوں کی مرکزیت کا ختم کر کے ان کو اقلیت میں تبدیل کر دے گا، جس کے مستقبل میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

برطانیہ میں مقیم معروف مصنف و دانشور اسماعیل امیری نے ’’انڈپینڈنٹ‘‘ کو بتایا کہ ایرانی حکومت کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ کسی طرح بلوچستان کا نام تبدیل یا ختم کیا جائے۔ لیکن بلوچ قوم کی مخالفت کے باعث اس کو عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ ایرانی حکومت جہاں ایک طرف بلوچ قوم کے علاقے کو الگ الگ کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ چونکہ سیستان بلوچستان کا اہم علاقہ ساحلی علاقہ ہے، جسے اس نے مکمل قبضے میں رکھنا ہے۔

اسماعیل امیری نے مزید بتایا کہ ایرانی حکومت اس کے علاوہ بلوچوں کے علاقے میں ترقی کے نام پر پانچ سے دس ملین غیر بلوچوں کو آباد کر رہی ہے، جو ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچ کو اس علاقے میں اقلیت میں تبدیل کر دے گی۔ ایرانی سیستان بلوچستان کی تقسیم سے پاکستان، افغانستان میں بھی موجود بلکہ جہاں بھی بلوچ قوم آباد ہے۔ ان پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اس کے بعد اس علاقے میں ایک چھوٹے سے علاقے کا نام بلوچستان رہ جائے گا۔

اسماعیل امیری کے مطابق اس منصوبے سے مزید نقصان یہ ہو گا کہ بلوچ قوم کی ثقافت، زبان کو کمزور کرنے کے ساتھ سیاسی حوالے سے بھی ان کو بے دست و پا کر کے ان کے ساحل اور وسائل، معدنیات پر مکمل قبضہ جمایا جائے گا۔ تجزیہ کار ایرانی حکومت کو اس فیصلے کو سرحدوں پر کنٹرول اور ساحل وسائل پر قبضے کی کوشش قرار دیتے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب مقامی باشندے بھی روزگار مرکز کی تبدیلی روزگار میں کمی کے خدشے سے پریشان ہیں۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے