تازہ ترین

انسانوں نے جوتے پہننا کب شروع کئے؟

insano ne joote pehenna kab shuru kiye?
  • واضح رہے
  • ستمبر 14, 2021
  • 8:03 شام

جوتے اور چپلیں زمانۂ قدیم سے ہمارے پیروں کے بہترین محافظ ہیں، جو ابتدائی شکل میں محض گھاس پھونس یا زیادہ سے زیادہ خام چمڑے کی تھلیاں تھے

انسانی ارتقا کی تاریخ بتاتی ہے کہ پیروں کی حفاظت کی اہمیت کا ادراک بہت پہلے کرلیا گیا تھا۔ قوی شواہد یہ بتاتے ہیں کہ چمڑے کے ذریعے پیر کے تلوے محفوظ رکھنے کی ترکیب ہمارے ابتدائی آبائی اجداد کی سب سے پہلی دریافتوں میں سے ایک ہے۔

وہ ضرورت ایجاد کی ماں کے مترادف نوک دار چٹانوں، جلتی ریت اور خار دار جھاڑیوں سے اپنے پیروں کے بچاؤں کا طریقہ ڈھونڈنے پر مجبور ہوگئے ہوں گے۔

اپنی ابتدائی شکل میں جوتے محض گھاس پھونس کی گتھی ہوئی شکل یا خام چمڑے کا ٹکڑا تھے جنہیں بیل یا چرمی فیتے سے پیر پر باندھ لیا جاتا تھا۔ مصری تہذیب کی قدیم دریافتوں میں پیپیرس کے پتوں سے تیارکیا گیا چپلوں کا جوڑا بھی شامل ہے جسے نہایت خوب صورتی اور فن کارانہ مہارت سے کی گتھائی کرکے بنایا گیا۔

تاریخی ریکارڈ بتاتے ہیں کہ چپل سازی اس ملک کی ابتدائی تاریخ میں ایک مقبولِ عام فن کی حیثیت اختیار کر گئی تھی۔ فرعون طوطنخ آمن کی لگ بھگ 1325 قبل مسیح کی دریافت شدہ چپلیں دلکشی میں اپنی مثال آپ ہیں۔

یونانی ڈیزائن اور دلکشی پر زور دیتے تھے، جبکہ رومیوں نے ایک حربی طرز کی چپل تیار کی تھی جو انہیں دنیا بھر میں پیدل پیش قدمی کے قابل بنا سکے۔ رومی سلطنت کے زیادہ پُرتعیش دورمیں چپلوں کو سونے کے زیورات اور قیمتی جواہر سے سجایا جاتا تھا۔

قدیم مصرمیں پیپیرس کے علاوہ کھجور کے پتوں سے بھی چپلیں بنائی جاتی تھیں، جبکہ افریقہ کے مسائی قبائل میں خام چمڑے، ہندوستان میں لکڑی، چین اور جاپان میں چاول کی پچھالی استعمال کی جاتی تھی۔

جنوبی امریکہ کے باسی سیسل کے پیڑ کے پتوں سے بٹی ڈوریوں سے چپل تیار کرتے تھے، جب کہ میکسیکوکے مقامی باشندے یوکا کے پیڑکا استعمال کرتے تھے۔

جاپان میں زمانۂ قدیم سے مختلف طبقوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے الگ الگ طرح کی مخصوص چپلوں کا رواج ہے اور پہننے والی چپل اس کے سماجی مرتبے کی عکاس ہوتی ہے اور ان پر پہلی نظر پڑتے ہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پہننے والا شاہی خاندان سے تعلق رکھتا ہے یا تاجر، معلم اور فن کار وغیرہ ہے۔

انسانوں کی چمڑے سے باقاعدہ جوتے بنانے اور استعمال کرنے کی تاریخ ایک محتاط اندازے کے مطابق ساڑھے پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ 2008ء میں آرمینیا کے غاروں سے گائے کے خام چمڑے کے جوتوں کا ایک جوڑا انتہائی عمدہ حالت میں ملا تھا۔

جوتوں کے اس جوڑے کا سائز لگ بھگ خواتین کے جوتوں کے امریکی سائز نمبر7 کے مساوی ہے اور اصل شکل میں رکھنے کے لیے ان میںگھانس پھونس ٹھونسی گئی ہے۔

اسے چمڑے کے ایک سالم ٹکڑے سے تیارکیا گیا۔ یہ ایک ایسی تکنیک ہے جو موجودہ دور میں"Whole Cut" کہلاتی ہے اور اس تکنیک کے ذریعے تیار شدہ جوتے انتہائی منہگے داموں فروخت ہوتے ہیں۔

اس سے قبل چمڑے کے جوتوں کا ایک اورقدیم جوڑا بھی دریافت کیا گیا تھا جسے ”برفانی آدمی اوٹزی“ کے جوتے کہا جاتا ہے، 3300 قبل مسیح سے تعلق رکھنے والے ان جوتوں کا تلوا بھورے ریچھ کی کھال اور اوپری حصہ ہرن کی کھال سے بنایا گیا تھا جبکہ فیتے درخت کی چھال سے بنائے گئے تھے۔

تاہم تخمینہ لگایا گیا ہے کہ جوتوں کا استعمال اس سے بہت پہلے شروع ہوچکاتھا۔ جدید دور کے محققین کے مطابق انسانی پیر کے انگوٹھے کے مقابلے میں باقی انگلیوں کے چھوٹے ہونے کا قدرتی عمل لگ بھگ 26000 تا 40000 سال پہلے شروع ہوا جسے ماہرین چمڑے کے تنگ خول نما جوتوں کے استعمال کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

قدیم زمانے کے جوتوں کی ساخت بہت سادہ ہوا کرتی تھی، بلکہ اگر انہیں جوتوں کے بجائے چمڑے کی تھیلیاں کہا جائے توبے جانہ ہوگا۔ ان کا اصل مقصد پیروں کو نوکیلے پتھروں، کانٹوں، ہڈیوں اور شدید موسمی اثرات سے بچانا تھا۔

شمالی امریکہ کے قدیم باشندے بھی اسی طرز کے جوتے پہنا کرتے تھے جنہیں موکیشن کہا جاتا ہے۔ تنگ فٹنگ اور نرم تلے والے یہ جوتے عموماً جنگلی بھینسے کی کھال سے تیار کیے جاتے تھے۔ بہت سے موکیشن جوتے موتیوں اور دیگر آرائشی اشیا سے بھی سجائے جاتے تھے۔ تاہم یہ جوتے صرف سردیوں کے موسم میں پہنے جاتے تھے۔ برسات اور گرمیوں کے موسم میں باشندے ننگے پیر رہنا پسند کرتے تھے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے