تازہ ترین

بھارت ایشیا کا سب سے بڑا رشوت خور ملک

India asia ka sab se barra rishwat khor mulk
  • واضح رہے
  • نومبر 26, 2020
  • 10:44 شام

ٹرانسپرسنی انٹرنیشنل کے تازہ سروے کے مطابق بھارت میں عدلیہ اور صحت عامہ سمیت کوئی محکمہ کرپشن سے پاک نہیں

برلن: ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل نے بھارت کو براعظم ایشیا کا سب سے بڑا رشوت خور ملک قرار دے دیا۔ عالمی ادارے کے سروے میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں کوئی محکمہ کرپشن سے پاک نہیں۔ حکومتی ذمہ داران بھی عوام کے کام کرنے کے عوض رشوت وصول کرتے ہیں۔

عالمی سول سوسائٹی تنظیم ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ بین الاقوامی سروے رپورٹ کے مطابق بھارت 39 فیصد کے ساتھ براعظم ایشیا میں رشوت خوری کے معاملے میں پہلے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ عوامی خدمات حاصل کرنے کے لیے ذاتی تعلقات بروئے کار لانے کے لحاظ سے بھی بھارتی شہری سب سے آگے ہیں۔

”گلوبل کرپشن بیرومیٹر۔ایشیا“ کے عنوان سے یہ سروے رواں برس جون اور ستمبر کے درمیان کیا گیا تھا، جس میں چھ قسم کی عوامی خدمات یعنی عدالتیں، پولیس، طبی سہولیات، سرکاری دستاویزات اور سہولیات کے حصول کے بارے میں سوالات پوچھے گئے۔ اور بھارت کو رشوت خوری میں سب سے اوپر پایا گیا۔

بھارت کے بعد سب سے زیادہ رشوت خوری کمبوڈیا میں ہے، جہاں 37 فیصد لوگ رشوت دیتے ہیں۔ 30 فیصد کے ساتھ انڈونیشیا تیسرے نمبر پر ہے۔ بھارت کے مقابلے بنگلہ دیش اور سری لنکا میں رشوت خوری کی شرح کافی کم ہے۔ ان میں ملکوں میں یہ بالترتیب 24 فیصد اور 16فیصد ہے۔ ادھر جاپان اور مالدیپ پورے ایشیا میں دو ایسے ملک ہیں جہاں سب سے کم رشوت خوری ہے۔

بھارت میں گزشتہ ایک برس کے دوران رشوت خوری کے سلسلے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں 47 فیصد لوگوں کا ماننا تھا کہ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ 27 فیصد لوگوں کا خیال تھا کہ رشوت خوری کم ہوئی ہے، 23 فیصد لوگوں کے خیال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ جبکہ 3 فیصد لوگوں نے کسی رائے کا اظہار نہیں کیا۔

46 فیصد لوگوں نے تسلیم کیا کہ انہیں پولیس کو رشوت دینی پڑی۔ مقامی افسروں کورشوت دینے والوں کی تعداد بھی 46 فیصد تھی۔ جبکہ 42 فیصد لوگوں نے اراکین پارلیمان کو رشوت دی۔ 41 فیصد نے سرکاری ملازمین کو حتی کہ عدالتوں اور ججوں سے بھی کام کرانے کے لیے 20 فیصد لوگوں نے رشوت دینے کا اعتراف کیا۔

رپورٹ کے مطابق ہر چار میں سے تین بھارتیوں کا خیال تھا کہ ملک میں حکومتی بدعنوانی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہر تین میں سے ایک شخص اپنے حلقے کے ممبر پارلیمان کو سب سے بدعنوان سمجھتا ہے۔

ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل نے اس سے قبل جنوری میں ڈاووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر اپنی رپورٹ جاری کی تھی۔ جس میں 180 ممالک میں بدعنوانی کی صورت حال کا جائزہ لیا گیا تھا۔ اس میں بھارت 80 ویں مقام پر تھا۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے