تازہ ترین

ہم جنس پرستی پر سگنساری۔ برونائی عالمی دباؤ میں آگیا

ہم جنس پرستی پر سگنساری۔ برونائی عالمی دباؤ میں آگیا
  • واضح رہے
  • مئی 6, 2019
  • 3:00 صبح

سلطان حسن البلقیہ نے کہا ہے کہ ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کو سنگسار نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ 3 اپریل کو انہوں نے شرعی قوانین کے نفاذ کا حکم دیا تھا۔

برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق برونائی کے سلطان حسن البلقیہ نے ہم جنس پرستی کے مرتکب افراد کیلئے سخت سزا کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ بہت سے سوالات اٹھائے جا رہے ہیں اور شرعیہ پینل کوڈ آرڈر (ایس پی سی او) کے نفاذ سے متعلق غلط تاثر ابھرا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب اس حوالے سے تحفظات دور کرلئے جائیں تو قانون کا بول بالا ہوگا۔

برونائی کے سلطان نے رمضان المبارک کے آغاز پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جیسا کہ عام قانون کے تحت ہم دو دہائیوں سے سزائے موت کے مجرموں کو قانونی مہلت دے رہے ہیں، یہی طریقہ ایس پی ایس او پر بھی لاگو ہوگا، جس میں بخشش کی پیشکش کی جائے گی۔

واضح رہے کہ بدفعلی اور ہم جنس پرستی پر سنگساری کی سزا پر شدید عالمی رد عمل کے بعد برونائی کے سلطان حسن البلقیہ نے اپنا موقف بدلا ہے اور اب شرعی قوانین پر عمدرآمد روک دیا گیا ہے۔ سلطان کے دفتر سے پہلی بار انگریزی میں خطاب کی کاپی جاری کی گئی، جس میں ان کا کہنا تھا کہ عام اور شرعی قانون دونوں کا مقصد ملک میں امن اور ہم آہنگی برقرار رکھنا ہے۔ یہ ملک کے اخلاقی اقدار اور عوام کی پرائیویسی کی حفاظت کے ضامن بھی ہیں۔

قبل ازیں برونائی کے اٹارنی جنرل کے چیمبر سے 29 دسمبر کو جاری ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ بدفعلی اور ہم جنس پرستی کیخلاف قوانین کا اطلاق 3 اپریل 2019 سے ہوگا۔ تاہم اب عالمی سطح پر سیاست دانوں، معروف شخصیات اور انسانی حقوق کے گروپس کی سخت مخالفت کے بعد برونائی میں یہ قوانین نافذ العمل نہیں ہوں گے۔

ان نئے قوانین میں چوروں کے ہاتھ اور پیر کاٹنے تک کی سزائیں رکھی گئی تھیں۔ اس طرح برونائی مشرق بعید کا وہ پہلا ملک ہوتا، جہاں قومی سطح پر تعزیراتی سزاؤں کیلئے شریعہ پینل کوڈ متعارف کروایا گیا۔ نئے قوانین میں بدفعلی اور ڈکیتی پر بھی سزائے موت رکھی گئی تھی، جبکہ توہین رسالت پر سزائے موت دینے کا دائرہ کار مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم افراد تک وسیع کیا گیا تھا۔

 

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے