تازہ ترین

حضرت حنظلہؓ کاتبِ رسول

hazrat hanzala ibn rabi katib e rasool
  • واضح رہے
  • جولائی 28, 2021
  • 11:35 شام

حضرت محمدؐ کی بعثت سے پہلے عرب کے ظلمت کدہ میں کئی ایسے سلیم الفطرت لوگ بھی موجود تھے جو توحید کے قائل تھے

رب کائنات پر ایمان رکھنے والے یہ لوگ علمائے یہود ونصاریٰ کی باتیں سن کر نبی آخر الزماں کی آمد کے منتظر تھے۔ ایسے ہی لوگوں میں بنو تمیم کے ایک بزرگ اکثم بن صیفی بھی تھے۔ وہ ایک سو نوے برس کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور اپنی حکمت و دانش کی بنا پر عرب بھر میں شہرت رکھتے تھے۔ وہ لوگوں کو اکثر عرب میں اللہ کے آخری رسول کے ظہور کی خبر دیا کرتے تھے۔

سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعثت کے بعد دعوت حق کا آغاز فرمایا تو اکثم کے کانوں میں بھی آپ کی بعثت کی خبر پہنچی۔ ان کے دل نے گواہی دی کہ یہ وہی نبی ہیں جن کو سرزمین عرب میں جلوہ افروز ہونا تھا۔ انہوں نے مکہ کے دُرِ یتیم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خط روانہ کیا، جس میں آپ کی دعوت کی تفصیل پوچھی۔

حضور نے اس خط کا جواب اکثم کو بھیجا تو اس کو پڑھ کر ان کی مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ ان کے نہاں خانہ دل میں شمع ایمان روشن ہوگئی اور انہوں نے تمام اہل قبیلہ کو بلا بھیجا۔ جب سب لوگ جمع ہوگئے تو ان سے مخاطب ہوکر کہا۔

”اے میرے فرزندو! میری بات غور سے سنو، مکہ میں قریش کے جو صاحب لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ میں خدا کا رسول ہوں، فی الواقع وہ خدا کے سچے رسول ہیں۔ تم لوگ فوراً ان کی طرف لپکو اور ان کا دامن اقدس تھام لو کہ اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ دیکھنا عرب کے دوسرے لوگ تم سے بازی نہ لے جائیں۔“

حاضرین میں بنو تمیم کا ایک سربرآوردہ رئیس مالک بن نویرہ بھی موجود تھا۔ اس کو اکثم کی یہ باتیں ناگوار گزریں، اس نے لوگوں سے کہا، بڈھا سٹھیا گیا ہے، اس کی باتوں پر مت جاﺅ، آخر اس کی خاطر ہم اپنا آبائی دین کیوں چھوڑیں؟

مالک کی باتیں سن کر لوگ منتشر ہوگئے، تاہم اکثم کے ایک فرزند، ایک بھتیجے اور کچھ دوسرے نیک فطرت تمیمی اکثم کی باتوں سے بڑے متاثر ہوئے اور انہوں نے اکثم سے کہا کہ آپ نے ہمیں جو مشورہ دیا ہے، ہم اس پر ضرور عمل کریں گے۔

اکثم نے ان سب لوگوں کو ہدایت کی کہ جلد از جلد عازم مکہ ہو جاﺅ اور صاحب قریش کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کی دعوت قبول کر لو۔

حافظ ابن عبدالبرؒ کا بیان ہے کہ یہ لوگ اپنے وطن سے مکہ کےلئے روانہ ہوئے، لیکن معلوم نہیں کون سے موانع پیش آئے کہ یہ لوگ اس وقت بارگاہ رسالت میں حاضری کی سعادت حاصل نہ کرسکے، البتہ کچھ عرصہ بعد اکثم بن صیفی کے بھتیجے کسی نہ کسی طرح رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچ گئے اور بڑے ذوق و شوق سے سعادت اندوز ایمان ہوگئے۔ دانائے بنو تمیم اکثم بن صیفی کے یہ خوش بخت بھتیجے حضرت حنظلہؓ بن ربیع تھے۔

سیدنا حضرت حنظلہؓ بن ربیع کا شمار بڑے جلیل القدر صحابہؓ میں ہوتا ہے۔ ان کی کنیت ابوربعی تھی اور وہ حکیم عرب اکثم بن صیفی تمیمی کے حقیقی برادرزادے تھے۔ سلسلہ نسب یہ ہے: حنظلہؓ بن ربیع بن صیفی بن ریان بن حارث بن مخاشن بن معاویہ بن شریف بن جروہ بن اسید بن عمرو بن تمیم۔

حضرت حنظلہؓ کے قبول اسلام کے زمانے کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا، تاہم اہل سیر نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ وہ بعثت نبوی کے ابتدائی زمانے میں نعمت ایمان سے بہرہ یاب ہوئے، کیونکہ ان کے گھرانے میں اکثم بن صیفی مدت سے حضور پرنور کے ظہور کی اکثر خبر دیا کرتے تھے۔

حضرت حنظلہؓ نے اپنے وطن کو چھوڑ کر مدینہ منورہ میں مستقل اقامت کب اختیار کی؟ کتب سیر سے اس سوال کا بھی کوئی حتمی جواب نہیں ملتا۔ البتہ یہ بات تو اتر کے ساتھ ہے کہ حضرت حنظلہؓ لکھنے پڑھنے میں اعلیٰ قابلیت کے مالک تھے اور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم ان پر بہت اعتماد فرماتے تھے۔

ابن اثیرؒ نے ”اسد الغابہ“ میں لکھا ہے کہ حضور نے حضرت حنظلہؓ کو عہدہ کتابت پر مامور فرمایا تھا اور وہ دربار رسالت کی طرف سے حمرانوں، رئیسوں اور دوسرے لوگوں کو بھیجے جانے والے خطوط قلم بند کیا کرتے تھے اسی لےے ”کاتب رسول اللہ“ کے لقب سے مشہور ہوگئے تھے۔ دوسرے اہل سیر نے بھی دربار رسالت کے کاتبین میں حضرت خنظلہؓ کا نام تخصیص کے ساتھ لیا ہے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے