تازہ ترین

وفاق ایوانہائے تجارت و صنعت نے بجلی نرخوں میں اضافہ تکلیف دہ قرار دیدیا

FPCCI concern over tariff hike in electricity and disconnection of gas to CPPs of the industry
  • واضح رہے
  • جنوری 23, 2021
  • 3:49 صبح

صنعتوں کی سی پی پیز کے گیس کنکشن منقطع کرنے پر ایف پی سی سی آئی کو تشویش ہے۔ صدر میاں ناصر حیات مگوں

کراچی: میاں ناصر حیات مگوں، صدر فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے بجلی کے نرخوں میں اضافے اور صنعتوں کے گیس کے کنکشن منقطع ہونے پر تشویش ظاہر کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے بجائے ایڈہاک پر اور تکلیف دہ فیصلوں سے مقامی صنعتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئی پی پیز اور حکومت کے مابین بنیادی ٹیرف کم کرنے کے منتظر ہیں مگر اس کا یقین نہیں کہ بنیادی ٹیرف کم ہوسکے۔ نتیجہ حیران کن ہے نجی شعبے کا خیال تھا کہ آئی پی پیز پر شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق معیشت کی مسابقت بڑھانے، مہنگائی کو کم کرنے اور غریب طبقے کے لیے کھپت پوری کرنے کے لیے توانائی کی لاگت میں کمی لانے کی پیش رفت کی ضرورت تھی۔انہوں نے کہا کہ توانائی کے ترجمان نے ٹیرف میں اضافے کا سبب ماضی میں آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے خراب اور بدعنوان معاہدوں کو قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو اس طرح کی صورتحال اور معاہدوں کو ادائیگی اور وصولی ہٹا کر، او اور ایم لاگت کو کم کرکے، اس کی لاگت کو ڈالر کے بجائے مقامی روپے میں تبدیل کرکے، اور رپورٹ میں دی گئی سفارشات کے ذریعے سول اور قانونی طریقہ کار کے ذریعے درست کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں کے سلسلے میں انکوائری کا حکم دینے پر موجودہ حکومت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ نتیجہ کم قیمت پر بجلی کی دستیابی اور بنیادی ٹیرف میں کمی نہیں ظاہر کر رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کا ہر سال 40 بلین روپے کا بوجھ اتارنے کا اعلان بنیادی ٹیرف میں اضافے کے مقابلہ میں بہت کم ہے جیسا کہ صارفین پر ایک روپیے کے اضافی بوجھ سے بجلی کی کھپت پر سو ارب روپے بنتے ہیں۔

صدر ایف پی سی سی آئی نے یہ بھی کہا کہ محصولات میں اس طرح کے اضافے اور اقتصادی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں، خاص طور پر COVID-19 کے وجہ سے ہونے والے منفی اثرات کے دوران۔اگر اس اضافے کو آئی ایم ایف کے ساتھ کسی معاہدے سے منسلک کیا گیا ہے تو ٹیرف میں اس اضافے کو منجمد کرنے راضی کیا جاسکتا ہے۔ جب خود آئی ایم ایف نے کم معاشی نمو کی پیش گوئی کی ہے اس طرح کا دہرا معیار منصفانہ نہیں ہے۔دوسری طرف بیرونی اور اندرونی متوقع تجارت بڑھتی ہوئی گیس کی قیمتوں کی یرغمال ہے اور کیپٹیو پاور پلانٹ سے گیس کی فراہمی منقطع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پیٹرولیم ڈویژن کی آر ایل این جی کارگوز کی بد انتظامی ایسے بے ترتیب اور اور غیر منصفانہ دیر سے ہونے والے فیصلوں کے لیے جواب دہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ گذشتہ نومبر کے دوران توانائی اور پیٹرولیم کے ترجمان نے وعدہ کیا تھا کہ سردیوں کے موسم میں گیس کی بڑھتی ہوئی طلب کو آر ایل این جی کی درآمد میں اضافے کے ذریعہ پورا کیا جائے گا۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس بے جان وعدے نے حکومت کو کیپٹیو پاور پلانٹ سے صنعتوں کو گیس کی فراہمی بند کرنے کے فیصلے پر مجبور کردیا ہے۔یکم فروری 2021 ءاور یکم مارچ 2021 ءسے گیس کے منقطع کرنے کی ڈیڈ لائن مقرر کرنے سے بہت کم وقت ملاہے اور گزارا کرنا مشکل ہے۔انہوں نے کہا کہ کچھ صنعتیں کیپٹیو پاور پلانٹ پر چل رہی ہے جس میں کچھ ہنگامی ضرورت میں بجلی حاصل کرنے کے لیے آلات ترتیب دینے میں وقت لگتا ہے۔اور ڈسکو کی تمام ضروریات کو پورا کرنے میں کافی وقت درکار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ صنعتوں کی سی پی پیز کو گرڈ سے اتنی توانائی حاصل کرنے کے لیے بیک اپب ایڈجسمنٹ کی ضرورت ہوتی ہے اس میں بھی دوبارہ بہت ساوقت لگتا ہے۔میاں ناصر حیات مگوں، صدر ایف پی سی سی آئی تجویز پیش کی ہے کہ فراہم کردہ وقت کی مدت میں معقول حد تک توسیع کی جائے تاکہ صنعتوں کو گرڈ پاور پر منتقل کیا جاسکےانہوں نے کہا کہ آئی پی پیز کے برے معاہدوں کا جرمانہ، ادائیگی اور حصول کی گنجائش کے مطابق صنعتوں کے اپنے کیپٹیو پاور پلانٹ جو کہ قابل اعتماد اور توانائی کی مسلسل فراہمی کے ضامن ہیں کے ذریعے ڈالا گیا ہے۔

ڈسکوز بھی ابھی تک لوڈ شیڈنگ کے بغیر بلاتعطل بجلی کی فراہمی کے لیے ایسی کارکردگی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حکومتی ترجمان نے صنعت کے سی پی پیز کو منقطع کرکے 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس کی بچت کا دعویٰ کیا ہے، جبکہ سسٹم میں گیس کا رساؤ اس 150 ایم ایم سی ڈی کی بچت سے چار گنا زیادہ ہے۔انہوں نے حیرت سے کہا کہ گیس کے امور کی سیاسی معاشی پہلو کو کو دیکھنے کے لیے انتظامیہ کی کیا کارکردگی ہے۔انہوں نے مزید تجویز پیش کی کہ اگر حکومت گیس کے نقصان کو ایک چوتھائی تک کم کردیتی ہے تو تو اس طرح کے فیصلے صنعتی معیشت کو متاثر نہیں کریں گے۔

واضح رہے

اردو زبان کی قابل اعتماد ویب سائٹ ’’واضح رہے‘‘ سنسنی پھیلانے کے بجائے پکّی خبر دینے کے فلسفے پر قائم کی گئی ہے۔ ویب سائٹ پر قومی اور بین الاقوامی حالات حاضرہ عوامی دلچسپی کے پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے پیش کئے جاتے ہیں۔

واضح رہے